سیاسی جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے ، عبدالغفور حیدری
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
سیاسی جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے ، عبدالغفور حیدری WhatsAppFacebookTwitter 0 8 February, 2025 سب نیوز
ملتان(آئی پی ایس )جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے۔ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن کا حصہ ہے، ہم اپوزیشن کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی، بلوچستان میں ریاست کی کوئی رٹ نہیں ہے۔
عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ کیا سندھ میں کچے کے ڈاکو زیادہ طاقتور ہیں؟ ریاست معاشی طور پر کمزور ہے، وزیراعظم پرسوں تشریف لائے تھے، مولانا فضل الرحمان سے ملنے کیلئے، میں نے سوال کیا کہ نوبت یہاں تک کیوں پہنچ گئی ہے۔رہنما جے یو آئی ف نے کہا کہ غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ پہلے بھی کھڑے تھے اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہا رائے کا حق آئین دیتا ہے، حکومت پیکا ایکٹ کی ضرب لگانے کا مجاز نہیں ہے، صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اس کا راستہ روکنا غلط ہے۔ عبدالغفورحیدری نے کہا کہ موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ دینی جماعتیں اکٹھی ہوں، دینی مدارس کے معاملے پر تمام دینی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کا ساتھ دیا، دینی جماعتوں کا اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے، وہ دینی جماعتیں جو سیاسی ہیں ان کو ملک کیلئے اکٹھا ہونا پڑے گا۔
رہنما جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ دینی جماعتیں ہی ملک کو بچا سکتی ہیں، اسلامی ریاست کا تصور تو بالکل ہی ختم ہوگیا، جمہوریت تو بالکل نہیں ہے، الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے،جماعتوں کا ملک کیلئے کوئی ویژن ہی نہیں، نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ عوام کا موجودہ جمہوریت سے اعتماد اٹھ چکا ہے، جو بدتمیزی اب دیکھنے میں آتی ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی کونسا وہ پرکشش نعرہ ہے جو اس ملک کو ایک کرسکے،پاکستان کو چلانے والوں نے کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کیا، ہم نے تو پہلے دن سے ازسر نو الیکشن کروانے کی ڈیمانڈ کی ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: نہ ہی آئین سازی میں کوئی کردار ہے عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ کہا کہ
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔