سنا ہے کہ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہے مگر اس پر یقین نہیں آتا۔ نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں، ہر روز لگتا ہے کہ کل کی ایجادات اور دریافتیں پرانی ہو گئیں ۔ سائنس کی حیرت انگیز ایجادات کے باعث انسان نے اس دنیا کے بعد نت نئی دنیائیں تسخیر کرنا شروع کر دی ہیں، ستاروں پرکمند ڈال دی ہے، چاند کو مسخر کر لیا ہے اور اب سورج تک پہنچنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
پہیہ جو کہ ایجادات کی ماں ہے، اس کے بعد ایجادات کا سلسلہ رکا نہیں۔ ٹیلی فون، ٹیلی وژن، کمپیوٹرز اور اب اسمارٹ فون اور سیٹلائیٹ نے دنیا کو بالکل بدل دیا ہے۔ اگر کچھ نہیں بدل سکا ہے تو وہ ہے انسان کی سوچ۔
اتنا کچھ پا کر بھی، تعلیم کے میدان میں قلابے مار مار کر بھی اگر ہمارے اذہان میں کوئی تبدیلی نہیں آسکی، اپنے ساتھ ساتھ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکے تو تف ہے ایسی تعلیم پر اور ایسی ترقی پر۔ ہمارا ملک تو یوں بھی ایسا ملک ہے کہ ترقی کے زینے پر باقی ملک اوپر جاتے ہیں تو ہم نیچے کی طرف اترتے ہیں۔
ذہنی پسماندگی تو اس قدر عروج پر ہے کہ مثالیں دیکھنا ، سننا اور پڑھنا شروع کر دیں تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔ حال ہی میں ہم سب نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو دیکھی ہے۔ اس وڈیو میں پاکستان کے ہی ایک قبائلی علاقے میں کسی سفاک انسان نے ( انسان کہلانے کا مستحق تو نہیں) نوزائیدہ بچی کو زندہ زمین میںگاڑ دیا اور جانے اس کی زندگی اللہ کو منظور تھی کہ اسے مٹی کی تہہ کے نیچے سے نکال لیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ فوج کے کسی افسر نے اسے گود لے لیا ہے۔
اس وڈیو میں بچی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ انتہائی خوش شکل مگر بد دماغ والدین کی اولاد ہے۔ اس خبر کے بارے میں مزید جاننے کی غرض سے جونہی میں نے گوگل پر سوال ڈالا تو اس پر ایک فہرست موجود تھی، صرف نوزائیدہ ہی نہیں، چند سالوں کی، جوان لڑکیاں، شادی شدہ اور کہیں تنہا نہیں … بلکہ پورے پورے خاندان کے ساتھ جنھیں زمین میں گاڑ دیا جاتا ہے۔
میری حیرت دوچند ہو گئی جب میں نے اس فہرست میں دو ایک کے سوا ، تمام واقعات کا ماخذ اپنے ملک اور اس کے ہمسایہ ممالک میں دیکھا۔ ایک نہیں، سیکڑوں واقعات مل جاتے ہیں۔ تفصیلات میں جائیں تو چند ایک وجوہات کا علم ہو گا، یعنی ان کا کیا قصور تھا کہ انھیں زندہ گاڑ دیا گیا یا جلا دیا گیا۔
ان کا قصور تو ہم سب کو علم ہے کہ پہلا قصور ان کا پیدا ہونا ہے۔ اسلام سے پہلے لوگ اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے، اگر اس وقت الٹرا ساؤنڈ کی سہولت ہوتی تو ہزاروں مائیں اس کرب سے بچ جاتیں کہ وہ ان بیٹیوں کو اپنے وجود میں پروان چڑھا کر انھیں مشقت کے ساتھ ، موت و حیات کی کشمکش سے گزر کر پیدا کریں۔
کیسے شقی القلب لوگ ہوتے ہیں جو بیٹیوں کے وجود کو اپنے لیے اچھا نہیں سمجھتے۔ ان معصوم کلیوں کو کھردرے ہاتھوں سے چھوتے بھی کیونکر ہیں۔ مٹی کے اوپر رکھتے ہوئے بھی ان کا دل نہیں دکھتا، ان پر ایک مٹھی بھر مٹی ڈالتے ہوئے بھی کلیجہ نہیں کانپتا، کجا یہ کہ اس سانس لیتی زندگی کو، اس روتی بلکتی معصوم کلی کو زمین میں دفن کردیں۔
یہ جانتے ہوئے کہ موسم شدید ہے، رات کے اندھیرے میں جنگلی جانور نکلتے ہیں، جنھیں ماس اور لہو کی خوشبو میلوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ مٹی ہی کیسے ان جلادوں کے ہاتھ نہیں تھام لیتی جو ان بچیوں اور عورتوں کو اپنے کرخت ہاتھوں سے زمین کے حوالے کرتے ہیں۔
یہی ذات ہے جو ان کی ماں بھی ہوتی ہے، بہن، بیوی اور بیٹی بھی۔ جانے ہر دور میں بیٹیوں کو اس قدر ارزاں کیوں سمجھا جاتا ہے، کیا کمی ہے ان میں کہ انھیں اپنا نام بھی دینا گوارا نہیں کیا جاتا۔ ان کی پیدائش کو اپنے لیے سزا سمجھتے ہیں اور کسی کو بتانا بھی معیوب سمجھتے ہیں جیسے کسی کے اختیار میں ہو کہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔ بیٹوں کی پیدائش پر شادیانے بجانے اور ہوائی فائرنگ کرنے والے، مٹھائیاں بانٹنے والے، بیٹی کی ولادت پر یوں سر جھکا لیتے ہیں جیسے کہ ان پر کوئی مصیبت نازل ہو گئی ہو۔
آپس میں لڑتے ہیں تو گالیوں میں ماں، بہن اور بیٹی کو رگید دیتے ہیں ۔ سارے محاورے اور کہاوتیں بھی ایسی بنی ہوئی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش سے باپ کا شملہ نیچا ہو جاتا ہے ، باپ کے کندھے بیٹے کی پیدائش پر چوڑے ہوجاتے ہیں اور بیٹی کی پیدائش پر جھک جاتے ہیں۔ بیٹیاں ہوں تو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ وارث کون ہو گا؟ کس چیز کا وارث؟ پلے چاہے دھیلا نہ ہو۔ نام لیوا کوئی تو ہو… کیسا نام؟ نام تو وہی ہے جو آپ کا آپ کی زندگی تک لیا جائے گا، مرنے کے بعد تو آپ میت اور پھر مرحوم رہ جاتے ہیں۔ ہم میں سے کس کس کو اپنے پردادا کا نام یاد ہے، کسی نے ان کی قبر تک کبھی نہیں دیکھی ہو گی۔
بچی ذرا سی پروان چڑھتی ہے تو ارد گرد کتنے ہی گدھ منڈلانے لگتے ہیں۔ آپ کے قریبی لوگ، ہمسائے، محلے دار اور تو اور محرم رشتہ دار۔ جانے کتنی ہی بچیاں اس اندھے اعتماد کے ہاتھوں پامال ہو جاتی ہیں اور پھر سزا وار بھی وہی ٹھہرتی ہیں۔ شادی ہو جاتی ہے تو چار دن میں سسرال والوں کی پرتیں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں، بہو اور بیوی میں ہر وقت عیب نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جیسے کہ کوئی مخصوص عینک لگا لی ہو عیب ڈھونڈنے والی۔
نندوں اور ساسوں کے ہاتھوں چولہے پھٹنے سے، گلے کٹنے سے لے کر کنوؤں میں پھینک دینے کے واقعات بھی عام ہیں۔ اگرساسوں اور نندوں کے اپنے وار کاری نہ ہوں تو بیٹوں کو چکتیں دی جاتی ہیں، وہ ان کی چوٹی یا ناک کاٹ دیتے ہیں، انھیں منہ دکھانے جوگا نہیں چھوڑتے۔جہیز کے بغیر بیاہ دو تو بیٹی کو سو مسائل اور جہیز دے کر بھیجو تو اس میں کئی چیزیں کم ہوتی ہیں جن کی گنتی سسرال والے عمر بھر کرتے رہتے ہیں۔
انھیں یہ تو ہر روز سننا پڑتا ہے کہ وہ پھوہڑ ہیں، کم شکل اور کم عقل ہیں، اولاد کی تربیت نہیں کرنا آتی۔ تھکتے نہیں ہیں لوگ ؟؟ پیدائش کے وقت سے لے کر اس کی موت کے وقت تک اسے تختہء مشق بنا کر رکھتے ہیں اور پھر بھی نہیں تھکتے۔
اسے ہر سویرے جاگنے سے لے کر رات بستر پر پہنچنے تک گویا ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے، اپنی بقا کی جنگ۔ کوئی اسے پیدا ہوتے ہی مار دیتا ہے، کوئی اسے عمر کے کسی اور حصے میں کسی وجہ سے مار دیتا ہے اور کوئی اسے ہر روز مارتا ہے، وہ پھر جیتی ہے اور پھر ماردی جاتی ہے۔ جانے کون سی موت زیادہ سہل ہے؟؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی پیدائش جاتے ہیں کو اپنے جاتی ہے ہیں اور اور پھر
پڑھیں:
پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-6
متین فکری
بظاہر سطح آب پر کوئی زیرو بم نظر نہیں آتا، حالات معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف ملکی حالات سے مطمئن مسلسل بیرونی دوروں میں مصروف ہیں اور سنا ہے کہ انہوں نے برادر بزرگ میاں نواز شریف کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں بڑی حوصلہ افزا باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن رزلٹ بالکل الٹ نکل رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے حالات ناساز پا کر دھڑا دھڑا پاکستان چھوڑ رہی ہیں اور اب تک سترہ بڑی کمپنیاں اپنا کاروبار سمیٹ کر پاکستان سے رخصت ہوچکی ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں کہ حالات قابو میں ہیں اور معیشت ترقی کررہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ شہباز شریف ہر بات مقتدرہ سے پوچھ کر کرتے ہیں اس لیے ان کی جانب سے غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے امریکا سے بھی بنا کر رکھی ہوئی ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ پاکستان میں کسی امریکا مخالف حکومت کو برداشت نہیں کرتا۔ اگر وہ حکومت سیدھے طریقے سے رخصت نہ ہو تو وہ پاکستانی حکمران کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا جیسا کہ اس نے لیاقت علی خان اور جنرل ضیا الحق کے معاملے میں کیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ سے رخصت ہوگئے اور انہیں جانی نقصان نہیں اٹھانا پڑا۔
بات لمبی ہوگئی ہم پھر اپنے اصل موضوع یعنی پاکستانی سیاست کی طرف آتے ہیں۔ ان دنوں پختون خوا کی سیاست نے چائے کی پیالی میں طوفان برپا کررکھا ہے۔ اس صوبے کی سیاست پر تحریک انصاف کا غلبہ ہے۔ پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کی قطعی اکثریت ہے اس لیے 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد بھی صوبے میں اس کی حکومت چلی آرہی ہے حالانکہ دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب میں فارم 47 کا جادو ایسا چلا کہ سب کچھ الٹ پلٹ کر رہ گیا۔ ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی میں صرف سترہ سیٹیں حاصل کی تھیں لیکن فارم 47 کے بَل پردہ اسمبلی کی اکثریتی پارٹی بن گئی اور وفاق میں اقتدار اسے مل گیا۔ یہی معاملہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں بھی پیش آیا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہاں بھی فارم 47 کے طفیل اکثریت حاصل کرلی اور مریم نواز ہار کر بھی صوبے کی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ سندھ کو سمجھوتے کے تحت پیپلز پارٹی کے سپرد کردیا گیا، بلوچستان میں بھی ملا جلا معاملہ رہا۔ البتہ پختون خوا میں فارم 47 کا جادو نہ چل سکا۔ عوام نے جسے ووٹ دیا وہی کامیاب قرار پایا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے پختون خوا اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھی اور حکومت بھی اس کی قائم رہی۔ واضح رہے کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات سے پہلے بھی خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان تو جیل میں تھے لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں معرکہ سر کرلیا۔ نئی حکومت علی امین گنڈا پور کی قیادت میں تشکیل دی گئی لیکن اسٹیبلشمنٹ نے ان سے معاملات طے کرلیے اور گنڈا پور وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور عمران خان نے محسوس کیا کہ اب گنڈاپور کو تبدیل کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو انہوں نے گنڈا پور سے استعفا طلب کرلیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنسوں میں بالعموم یہ بات شدت سے باور کراتے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر کوئی صحافی کوئی سیاسی سوال کر بیٹھے تو وہ ’’نو پالیٹکس‘‘ کہہ کر اس کا جواب دینے سے انکار کردیتے ہیں لیکن جب خیبر پختون خوا میں گنڈاپور کے استعفے کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو ڈی جی آئی ایس پی آر فوراً پشاور پہنچے اور وہاں ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’خیبر پختون خوا میں کوئی مخالف حکومت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘۔ شاید یہ بھی فوج کو سیات سے دور رکھنے کی قابل تحسین کاوش تھی۔ الیکشن کمیشن تو ہمیشہ مقتدرہ کے اشارے کا منتظر رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی اس نے خیبر پختون خوا اسمبلی میں ارکان پی ٹی آئی سے ان کی سیاسی شناخت چھین کر انہیں آزاد ارکان قرار دے دیا۔ اس طرح انہیں ووٹوں کی خریدو فروخت کی منڈی میں زبردستی دھکیل دیا گیا اور حکومت کا دھندا کرنے والوں کو دعوت دی گئی کہ منڈی میں مال موجود ہے جو چاہے خریدے۔ اِدھر مولانا فضل الرحمن بھی خیبر پختون خوا میں وزارتِ علیہ کے اُمیدوار تھے اور اپنے بھائی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے ان کی خواہش تھی کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں بیس ووٹ خرید کر دے دے تا کہ وہ اپنی حکومت بناسکیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگرچہ ان کے تعلقات ہمیشہ اُتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں لیکن آخری مرحلے میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی جیتتی ہے اور مولانا فضل الرحمن ہمیشہ پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہایت اچھا موقع تھا وہ مولانا فضل الرحمن کو بیس ووٹ دے کر اپنا ممنونِ احسان بنا سکتی تھی۔ اگر پنجاب ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے بیس کیا سو پچاس ووٹ بھی حاصل کرنا دشوار نہ تھا لیکن خیبر پختون خوا کا معاملہ مختلف ہے یہاں جو ووٹ خریدتا اس کی جان کے لالے پڑجاتے اس لیے ووٹوں کی خریدو فروخت کی کوشش ناکام رہی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے نامزد امیدوار سہیل آفریدی کثرت رائے سے پختون خوا کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ شکر ہے ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر کوئی پریس کانفرنس نہیں کی۔
اب سنا ہے کہ نومنتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے خلاف الیکشن کمیشن میں نااہلی کی درخواست دائر کردی گئی ہے الیکشن کمیشن بہت ڈھیٹ ہے ممکن ہے کہ وہ یہ درخواست منظور کرلے اور سہیل آفریدی کو نااہل قرار دے دیا جائے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اسمبلی میں تو پی ٹی آئی کی اکثریت برقرار ہے وہ نیا وزیراعلیٰ لے آئے گی۔ اسے کہتے ہیں ’’چائے کی پیالی میں طوفان‘‘ برپا کرنا۔ لیکن اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، فوج کے لیے سیاست شجر ممنوع ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کورکمانڈر پشاور نے نومنتخب وزیراعلیٰ سے وزیراعلیٰ ہائوس میں ملاقات کرکے انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلایا ہے۔ نئے وزیراعلیٰ بڑے دبنگ فیصلے کررہے ہیں، انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی درخواست دی تھی عدالت نے بھی ان کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا چونکہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ سیاسی معاملہ تھا اس لیے وزیراعلیٰ کی اپنے قائد سے ملاقات نہیں کرائی گئی حالانکہ اسے ملاقات میں کوئی حرج نہ تھا جس کمرے میں ملاقات کرائی جاتی اس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور آواز ریکارڈ کرنے والے آلات نصب ہیں پھر ڈر کس بات کا تھا۔ یہ بھی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ حکومت ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا مخالف سیاستدان سب اس کام میں بہت ماہر ہیں۔