اپنے دورہ امریکا کے دوران اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو  نے 2 ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی تجویز دے دی۔ اپنے دورہ امریکا کے دوران اسرائیلی میڈیا کو انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ  فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ سعودی فلسطینی ریاست اپنے ملک میں بنا سکتے ہیں، سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کے لیے فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے؟ اس پر نیتن یاہو نے کہا کہ فلسطینی ریاست اسرائیل کے لیے خطرہ ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے پاس ایک ریاست تھی، جس نام غزہ تھا، جو حماس کے زیر قبضہ تھی اور 7 اکتوبر کو دیکھیں کیا ہوا اور ہمیں کیا ملا، اس لیے ہمیں فلسطینی ریاست قبول نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے سعودیہ کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آنے کے امکانات کے بارے میں کہا کہ وہ اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امن ممکن ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ جلد ہونے والا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے سعودی سرزمین پر فلسطینی ریاست قائم کرنےکے بیان کی مصر نے شدید مذمت کی ہے۔ مصر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بیان سعودی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے، سعودی عرب کی سلامتی مصر کی ریڈ لائن ہے۔ اس سے قبل سعودی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معمول پر آنے کا معاملہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر زیر غور نہیں آسکتا۔ سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا، فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق سعودی عرب کا مؤقف مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ پر امریکا کی جانب سے قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلے گا، ہم اس کے مالک ہوں گے، جس کا مقصد اس علاقے میں استحکام لانا اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔

ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں غزہ میں طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھتا ہوں، ہم غزہ کو ترقی دیں گے، علاقے کے لوگوں کے لیے ملازمتیں دیں گے، شہریوں کو بسائیں گے۔ ٹرمپ کے اعلان پر اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے غزہ سے فلسطینیوں کی بےدخلی کی مخالفت کی ہے اور دو ریاستی حل پر زور دیا ہے۔ امریکی صدر کے غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے بیان پر سابق سعودی انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے امریکی صدر ٹرمپ کو خط لکھا ہے۔ صدر ٹرمپ کے نام خط میں شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ فلسطینی عوام غیر قانونی تارکین وطن نہیں ہیں کہ انہیں دوسرے علاقوں میں ڈی پورٹ کر دیا جائے۔ سابق سعودی انٹیلی جنس چیف نے کہا کہ اگر فلسطینیوں کو غزہ سے منتقل کرنا ہے تو اُن کے آبائی علاقوں جافا، حیفہ اور دیگر مقامات پر بھیجا جائے، جہاں ان کے زیتون کے باغات تھے اور انہیں اسرائیل نے ان علاقوں سے زبردستی بے دخل کر دیا تھا۔

شہزادہ ترکی الفیصل نے کہا کہ یہ زمینیں فلسطینیوں کی ہیں، وہ گھر جنہیں اسرائیل نے تباہ کیا، فلسطینیوں کے ہیں اور وہ انہیں دوبارہ تعمیر کرلیں گے، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے گذشتہ اسرائیلی حملوں کے بعد اپنے گھر تعمیر کیے تھے۔ انہوں نے اپنے خط میں مزید کہا کہ غزہ کے زیادہ تر لوگ پناہ گزین ہیں، جنہیں 1948ء اور 1967ء کی جنگوں کے بعد اسرائیلی فوج نے موجودہ اسرائیل اور مغربی کنارے میں ان کے گھروں سے بے دخل کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ اور دیگر مقامات سے فلسطین آنے والے ہزاروں تارکین وطن میں سے بہت سوں نے فلسطینیوں کے مکانات اور زمینوں پر قبضہ کیا، وہاں کے باشندوں کو ڈرایا دھمکایا اور ان کی نسلی تطہیر کی کوشش کی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین امریکا اور برطانیہ نے فلسطینیوں کی ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخلی میں مدد فراہم کی۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے ٹرمپ سے کہا کہ اگر وہ خطے میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطینیوں کو ان کا حق خود ارادیت اور ریاست دی جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیلی وزیراعظم فلسطینی ریاست فلسطینیوں کی کہ فلسطینی اسرائیل کے نے کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

بلی تھیلے سے باہر آگئی

اسلام ٹائمز: عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی اسرائیل کے پرزور حامی اور قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں۔ بلومبرگ کو دیئے گئے انٹرویو میں انکا مزید کہنا تھا کہ جب تک کچھ نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں، جو کلچر کو بدل دیں، اسوقت تک اس (فلسطینی ریاست) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، غالباً یہ تبدیلیاں "ہماری زندگی میں نہیں ہوں گی۔" امریکی سفیر نے تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کیلئے اسرائیل کو جگہ خالی کرنے کے بجائے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

امریکہ اسرائیل تعلقات پر غیر جانبدارانہ نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار ہمیشہ سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ اسرائیل کے ہر اقدام کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن وائٹ ہاؤس کی بعض فنکارئیوں کی بدولت بعض سادہ اندیش اس تھیوری کو تسلیم نہیں کرتے۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے باوجود امریکہ کا مجرمانہ رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ اس نسل کشی میں امریکہ کی سفارتی، اقتصادی، فوجی اور سیاسی حمایت ببانگ دہل اسرائیل کو حاصل رہی۔ صدر ٹرمپ بھی پینترے بدل بدل کر صیہونی حکومت کی حمایت کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں، لیکن بظاہر جنگ بندی اور اس طرح کے دیگر شوشے چھوڑتے رہتے ہیں، جس سے رائے عامہ تک یہ پیغام پہنچے کہ امریکہ صیہونی جرائم میں شریک نہیں۔ البتہ امریکہ نے اکتوبر 2023ء سے اب تک اسرائیل کو جتنا اسلحہ فراہم کیا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

در این اثناء امریکی ایوان نمائندگان کے سپیکر مائیک جانسن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 22 جون کو اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کرنے کے لیے اسرائیلی دورے پر جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی فوجی شراکت داری اور تجارتی تعلقات سے بھی بڑھ کر گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے سلسلے میں امریکہ کا فوجی تعاون اور اسرائیل کے لیے امداد دنیا بھر میں سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ حتیٰ کہ اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے محض چند روز پہلے امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے قرارداد کو 5ویں بار ویٹو کیا ہے۔

بہرحال اس مقدمہ اور اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل میں تعینات امریکہ کے سفیر کے حالیہ موقف کی طرف قارئین کی توجہ کو مبذول کرایا جائے۔ اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر مائیک ہکابی نے کہا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور فلسطینی ریاست کے لیے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے "رائٹرز" کے مطابق امریکی سفیر نے کہا ہے کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست اب امریکی خارجہ پالیسی کا ہدف ہے۔ بلو مبرگ نیوز کو دیئے گئے، ایک انٹرویو میں جب امریکی سفیر مائیک ہکابی سے سوال کیا گیا کہ کیا فلسطینی ریاست اب بھی امریکی پالیسی کا ہدف ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا "میرا نہیں خیال۔"

محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس سے جب پوچھا گیا کہ آیا ہکابی کے بیانات امریکی پالیسی میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ پالیسی سازی کا اختیار ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کے پاس ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جب امریکی سفیر کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو ترجمان نے رواں سال کے اوائل میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے غزہ پر امریکی کنٹرول کی تجویز دی تھی۔ تاہم، ٹرمپ کے اس بیان کی انسانی حقوق کی تنظیموں، عرب ممالک، فلسطینیوں اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کی تھی اور اسے "نسلی صفائی" کی تجویز قرار دیا تھا۔ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی اسرائیل کے پرزور حامی اور قدامت پسند نظریات رکھتے ہیں۔

بلومبرگ کو دیئے گئے انٹرویو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک کچھ نمایاں تبدیلیاں نہ ہوں، جو کلچر کو بدل دیں، اس وقت تک اس (فلسطینی ریاست) کی کوئی گنجائش نہیں ہے، غالباً یہ تبدیلیاں "ہماری زندگی میں نہیں ہوں گی۔" امریکی سفیر نے تجویز دی کہ فلسطینی ریاست کے لیے اسرائیل کو جگہ خالی کرنے کے بجائے کسی مسلم ملک سے زمین نکالی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکی سفیر کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے اقوام متحدہ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کونسا اسلامی ملک فلسطینیوں کو اپنی زمین دے کر اپنے ملک میں بساتا ہے اور امریکی ایجنڈے کو عملی جامہ پہناتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو جولانی کیساتھ "ڈیل" کے درپے ہے، امریکی میڈیا
  • نیتن یاہو کا اقتدار خطرہ میں: اسرائیلی پارلیمنٹ کی تحلیل کیلئےآج ووٹنگ ہوگی
  • بلی تھیلے سے باہر آگئی
  • اسرائیلی قیدیوں کو ہرصورت زندہ یا مردہ واپس لانا چاہتے ہیں: نیتن یاہو
  • امریکا آزاد فلسطینی ریاست کے ہدف سے پیچھے ہٹ گیا
  • ’بہت ہوگیا، بس اب غزہ میں جنگ ختم کرو‘، ٹرمپ کی نیتن یاہو کو تنبیہہ
  • اسرائیلی قیدیوں کو ہر صورت زندہ یا مردہ واپس لانا چاہتے ہیں، نیتن یاہو
  • نیتن یاہو کو بتائیں ‘اب بہت ہو چکا’؛ سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی ٹرمپ سے اپیل
  • سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی نیتن یاہو پر شدید تنقید، ٹرمپ سے سمجھانے کی اپیل
  • نیتن یاہو کو بتائیں 'اب بہت ہو چکا'؛ سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی ٹرمپ سے اپیل