Jasarat News:
2025-07-25@00:57:51 GMT

جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا یوم سیاہ

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا یوم سیاہ

8 فروری 2025 کو جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا انہوں نے کہا کہ 8 فرور ی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی اسی تاریخ کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا۔ تیسری طرف اسماعیلی فرقے کے لوگوں نے پرنس عبدالکریم آغا خان کی وفات پر 8 فروری کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے ملک گیر احتجاج کیا۔ کراچی میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا گیا۔

پاکستان جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے اس میں ایک مسئلہ ملک میں آزادانہ، دیانتدارانہ اور منصفانہ انتخاب کا بھی ہے۔ ترجیحات کا تعین کیا جائے تو میرے نزدیک سب سے اوّل مسئلہ ایک صاف ستھرے، شفاف انتخابات کے انعقاد کا ہے جو ملک میں اب تک نہ ہوسکا۔ جب ہم شفاف انتخابات کی بات کرتے ہیں تو اس کا آغاز ملک کی مردم شماری سے ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر دس سال بعد مردم شماری ہوتی ہے اس مدت کی پابندی بہت کم ہوتی ہے اور جب بھی مردم شماری ہوئی اس پر بعد میں بہت سارے سوالات اُٹھ جاتے ہیں۔ مہینوں پر مشتمل مشقت سے لبریز پورے ملک میں یہ کام ہوتا ہے جس میں کروڑوں روپے کے اخراجات کے علاوہ بے پناہ افرادی وسائل بھی کام میں آتے ہیں۔ ہم یہ دیکھتے ہیں ہمارے ملک کے طاقتور لوگ بالخصوص جاگیرادار طبقہ مردم شماری کے کام میں اپنے اثر رسوخ کو استعمال کرکے اس کی شفافیت کو داغدار کردیتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال کراچی ہے جس کی پچھلی مردم شماری میں ڈیڑھ کروڑ کی آبادی دکھائی گئی ہے جبکہ اس وقت تمام ہی اصحاب الرائے لوگوں کا خیال تھا کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زائد ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کی مردم شماری میں اپنے سرکاری و سیاسی دبائو کو استعمال میں لا کر عملے کو قابو کرلیتی ہے اور ان کے ذریعے سے فراڈ پر مبنی مردم شماری کرائی گئی جس میں انتہائی چالاکی سے اندرون سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کو جعلی طریقہ اختیار کرکے بہت زیادہ دکھایا جاتا ہے جبکہ کراچی اور حیدرآباد شہر کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا۔ اسی مردم شماری کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں بنائی جاتی ہیں لہٰذا پیپلز پارٹی جو پچھلے پندرہ بیس سال سے صوبے میں برسر اقتدار ہے وہ اپنے سرکاری اثر رسوخ سے اپنی مرضی کی مردم شماری کروا کے شہروں کی قومی و صوبائی کی نشستیں کم اور دیہی علاقوں کی قومی اور صوبائی کی نشستیں بڑھوا لیتی ہے۔ جس کا اسے سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔

شفاف الیکشن کی دوسری شرط انتخابی فہرستوں کا صاف و شفاف ہونا ہے۔ بدقسمتی سے اس میں بھی کراچی والوں کے ساتھ بڑی زیادتی اور نا انصافی ہوتی ہے۔ پچھلے دس پندرہ برسوں میں کم و بیش ایک کروڑ سے زائد لوگ اندرون سندھ سمیت ملک کے دیگر تینوں صوبوں سے کراچی منتقل ہوئے ہیں۔ روزگار اور کار وبار کے حوالے سے شہروں کی طرف آنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے لیکن شکایت اس وقت ہوتی ہے جب انتخابی فہرستوں میں ایسے لوگ اپنے دیہات والے گھر کے پتا لکھواکر وہاں ووٹ ڈالتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ کراچی شہر میں روزگار یا ملازمت کررہے ہیں اور وہ یہاں کا انفرا اسٹرکچر بھی استعمال کررہے ہیں ان کا اندراج اسی شہر میں ہونا چاہیے لیکن عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے اس بڑی شکایت کے علاوہ انتخابی فہرستوں کی تشکیل میں اور بھی شکایات و اعتراضات ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ان تمام شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے ہماری تجویز ہے کہ نادرا کے ریکارڈ کے ذریعے انتخابی فہرستوں کی تشکیل ہونا چاہیے۔ شفاف انتخاب کی تیسری شرط قومی اور صوبائی اسمبلی کی منصفانہ تشکیل ہے کراچی ہی میں دیہی علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی نشستوں میں ووٹروں کی تعداد شہری علاقوں کی نشستوں کے ووٹروں سے بہت کم ہوتی ہے۔ پچھلے بلدیاتی انتخاب میں پی پی پی نے یہی تو کیا ہے کہ کراچی کے دیہی علاقوں کی یوسیز پندرہ سے بیس ہزار ووٹروں پر مشتمل ہے جبکہ شہر ی علاقوں کی یوسیز میں پچاس سے ستر ہزار ووٹرز ہیں۔ اسی ضمن میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ وسائل کی تقسیم میں پی پی پی کی صوبائی حکومت بددیانتی اور کراچی کے ساتھ ناانصافی سے کام لے رہی ہے جہاں پی پی پی کے یوسی چیئرمین ہیں وہاں ترقیاتی کاموں کے لیے ایک کروڑ ماہانہ دے جارہے ہیں اور جہاں جماعت اسلامی کے یوسی چیئرمین ہیں وہاں بارہ لاکھ روپے ماہانہ دیے جارہے ہیں۔ شفاف انتخاب کی چوتھی شرط امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال آئین کی شقیں 62 اور 63 کی روشنی میں کی جائے تاکہ پہلے ہی مرحلے میں مشکوک کردار کے لوگ انتخابی عمل سے علٰیحدہ ہوجائیں۔ شفاف انتخاب کی پانچویں شرط پرامن اور آزادانہ ماحول میں ہر امیدوار کو انتخابی مہم چلانے کے مواقع فراہم کے جائیں۔ اور اس حوالے انتظامیہ کو بالکل غیر جانبدار رہنا چاہیے بدقسمتی سے پچھلے تیس برسوں میںکراچی میں ایم کیو ایم کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کی وجہ سے دیگر جماعتوں کو اپنی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا انتظامیہ بھی اسی تنظیم کا ساتھ دیتی تھی۔ شفاف انتخاب کی چھٹی شرط انتخاب والے دن پولنگ اسٹیشنوں میں ایسا پرامن ماحول قائم کیا جائے کہ ووٹرز اپنی مرضی سے اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ ڈال سکیں، کسی پارٹی کو یا کسی غنڈہ گروپوں کو پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کرکے جعلی ووٹ بھگتانے کا موقع نہیں دیا جائے۔ اسی لیے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ فوج کی نگرانی میں ووٹنگ ہونا چاہیے، یعنی پولنگ اسٹیشن کے اندر فوج ہو تاکہ کسی شرپسند کو گڑبڑ کرنے کا موقع نہ مل پائے۔ شفاف الیکشن کی ساتویں شرط یہ جس پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ مکمل ہوجائے تو اس کی ایک ایک کاپی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو دی جائے جس پر پریزائڈنگ آفیسر کے دستخط لاذمی ہو۔ اسی رزلٹ کو متعلقہ آر او اوپر بھیجے اور ساتھ ہی میڈیا کو بھی اسی رزلٹ کی کاپی دی جائے۔

یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں سے دھاندلی نہیں بلکہ دھاندلا کا آغاز ہوتا ہے کسی ادارے کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس دن ریٹرننگ آفیسر کو بے دست و پا کرکے خود اپنے مرتب کردہ نتائج کا اعلان کرائے۔ پچھلے سال 8 فروری کے انتخابات میں یہی تو ہوا کہ ریٹرننگ آفیسروں کو فارم 45 والے نتیجے کا اعلان نہیں کرنے دیا اور جو نتیجہ کہیں اور سے ان کے پاس آیا اسی نتیجے کا گن پوانٹ پر اعلان کیا گیا۔ اگر خدا نہ خواستہ اسی طرح انتخابات میں عوامی جذبات کو کچلا جاتا رہا تو اس کے بڑے خوفناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ کراچی میں ووٹروں نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو ووٹ دیے قومی و صوبائی کی نشستیں اس ایم کیو ایم کو دے دی گئیں جسے کراچی کے عوام پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔

پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان کوئی بھی الیکشن شفاف الیکشن نہیں تھا 1970کے انتخاب کو غیر جاندارانہ کہتے ہیں لیکن وہ بھی نہیں تھا مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے جو کچھ کیا وہ پوری دنیا جانتی ہے یہ ٹھیک ہے کہ عوامی لیگ کو وہاں کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی لیکن اس نے اپنی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کے ذریعے مخالف سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم ہی چلانے نہیں دی۔ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں وہ ٹھیک تھا تو پھر اس میں کامیاب ہونے والی پارٹی کو اقتدار کیوں نہیں دیا گیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انتخابی فہرستوں قومی اور صوبائی شفاف انتخاب کی جماعت اسلامی کی نشستیں اعلان کیا کی ا بادی کا اعلان کہ کراچی ملک میں ہوتا ہے ہوتی ہے

پڑھیں:

سیاہ کاری کے حق میں بیان؛ ماں نے بیٹی کے قتل کو صحیح قرار دے دیا ا

سٹی42: ماں نے بیٹی کے قتل کو صحیح قرار دے دیا اور قتل کا حکم دینے والے سردار کو  بے گناہ قرار دے دیا۔

 بلوچستان میں  جہالت کے زمانے کی رسم کے تحت سیاہ کار قرار دے کر ماری گئی خاتون کی ماں نے غیرت کے نام پر خاتون اور مرد کے قتل کو صحیح قرار دیا ہے جس سے اس  کیس کے متعلق سوشل ڈسکورس مزید پھیلنے کا امکان ہے۔ 

 ڈیگاری قتل واقعہ کی مقتول خاتون کی والدہ  کا ویڈیو بیان سامنے لایا گیا ہے جس میں یہ عورت  اپنی بیٹی کے قتل کو جائز قرار دے رہی ہے اور قاتلوں کو بے گناہ بتا رہی ہے۔ یہ ویڈیو بیان کون لوگ ریکارڈ کروا کر سامنے لائے یہ ابھی معلوم نہیں ہوا تاہم اس بیان سے بلوچ  معاشرہ میں جہالت کے وقتوں سے آج تک رائج "سیاہ کاری" کے متعلق پبلک بحث کے مزید گہرا ہونے کا امکان کھل گیا ہے۔ 

مون سون بارشیں, پی ڈی ایم اے کا الرٹ جاری

 نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خاتون بانو کی والدہ نے ویڈیو بیان  میں اپنی بیٹی کے قتل کو "بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا” قرار دیتے ہوئے واقعے کے مرکزی کردار سردار شیر باز ساتکزئی کو بے قصور قرار دیا ہے۔

ویڈیو بیان میںمقتولہ خاتون کی ماں نے دعویٰ کیا کہ بانو نے ایسی حرکت کی تھی جو قبیلے کی روایت اور اصولوں کے خلاف تھی، اس لیے اسے سزا دی گئی۔

معروف برطانوی گلوکار  انتقال کر گئے

 بظاہر گھریلو خاتون نے یہ بھی کہا،  اس قتل کے" فیصلے" میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس قتل کا ذمہ دار ہے۔ نام نہاد قبائل رسم "سیاہ کاری" میں قبیلے کے سردار کا بہرحال بھاری کردار ہوتا ہے تاہم لوگ انفرادی طور پر بھی اپنے کسی رشتہ دار کو "سیاہ کار" قرار دے کر قتل کر سکتے ہیں۔ ایسے قتل پر قبیلہ کے دوسرے لوگ کوئی سوال نہیں کرتے اور قاتل کو مجرم نہیں ٹھہراتے اور نہ ہی اس قتل سے باخبر کوئی شخص پاکستان کی پولیس کو اس جرم کی اطلاع دیتا ہے، پولیس کو پتہ چل جائے اور وہ تحقیقات کرے تب بھی کوئی اس سے تعاون نہیں کرتا۔

لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں طوفانی بارش، نشیبی علاقے زیر آب

 بلوچستان میں جہالت کے زمانہ سے جاری اس رسم کو سندھ میں "کاری" کا نام دیا جاتا ہے۔

بانو کی والدہ نے اعلیٰ حکام س سے کہا کہ ان کی بیٹی کے قتل کے الزام مین گرفتار کئے گئے قبیلہ کے سردار  شیر باز ساتکزئی اور دیگر گرفتار افراد کو  رہا کر دیا جائے۔

فرزانہ باری کیا کہتی ہیں

یہ پہلا واقعہ نہیں کہ سیاہ کار قرار دے کر مار ڈالی گئی کسی خاتون کے وارث اس کے قاتلوں کو برحق اور خود مقتولہ کو ہی مجرم قرار دے رہے ہیں۔ یہ  رسم دراصل ہے ہی یہی کہ جسے سیاہ کار قرار دے ڈالا گیا اس کو قتل کرنا جائز بلکہ حق تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو ان بھیانک رسموں سے لڑتے کئی دہائیاں گزر چکی ہیں۔

غزہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے' مصائب 'نئی گہرائیوں تک پہنچ چکے ہیں'

غیرت کے نام پرقتل کی گئی مقتولہ کی والدہ کے ویڈیو بیان پرخواتین کے حقوق کی رہنما  اور عورتوں کے بہیمانہ قتل کے سلسلہ کے خلاف جدوجہد کرنے والی پروفیسرفرزانہ باری نے  کہا ہمیں کہانیاں نہ سنائیں۔ ایک سنگین جرم ہوا ہے سزا ملنی چاہیے۔ اس جرم کے ویڈیو شواہد موجود ہیں۔

وکیل لیاقت گبول نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ سردار کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسےمجرموں کو چھوڑ دیا گیا تو پھر ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہوگا۔

کولمبیا یونیورسٹی نے اسرائیل مخالف مظاہروں پر درجنوں طلباء کو یونی ورسٹی سے نکال دیا


یاد رہے کہ بلوچستان کے دارلحکومت کے نواحی علاقے ڈگاری میں انیس جولائی کو بانو نامی خاتون اور احسان اللہ نامی شخص کے قتل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا، فائرنگ کے دردناک مناظر کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی۔ اس ویڈیو کو لے کر پاکستان بھر کے انسانی حقوق کے کارکن اور عام شہری جاگے اور اس قتل کے خلاف آواز اٹھائی۔ یہ آواز بلند ہوتی گئی تو بلوچستان کی حکومت نے قانونی کارروائی کا آغاز کیا، اس ویڈیو کے مقام کا تعین کر کے واقعہ کے تمام کرداروں کا سراغ لگایا گیا۔

 ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا کہ نام نہاد فیصلے کے تحت مرنے والا مرد اور خاتون  ڈیڑھ سال سے روپوش تھے، دونوں کو دعوت کے بہانے بلایا گیا، جرگے میں فیصلہ سنایا گیا اور پھر کھلے میدان میں لے جا کر گولیاں چلا دی گئیں۔

 خاتون اور مرد کے سفاکانہ قتل کی وائرل ویڈیو کے سلسلے میں کوئٹہ پولیس نے بڑے پیمانے پر کارروائی کرتے ہوئے 20 افراد کو گرفتار کیا۔

پولیس کے مطابق واقعے میں ملوث 13 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جن میں مقتولہ کا کزن اور ساتکزئی قبیلے کے سربراہ سردار شیرباز ساتکزئی بھی شامل ہیں۔

مقامی عدالت کے حکم پر ڈیگاری کے ویرانے میں قتل ہونے والے مرد اورعورت کا  ان کے قتل کے 47 دن بعد قبریں کھود کر پوسٹ مارٹم  کیا گیا۔ اس پوسٹ مارٹم سے صرف انہیں ماری جانے والی گولیوں کی تعداد کی ہی تصدیق ہوئی، باقی تمام ضروری مواد تو قتل کی ویڈیو سے پہلے ہی سامنے آ چکا تھا۔

گذشتہ روز وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ شادی شدہ جوڑا نہیں تھا، خاتون شادی شدہ اور 5 بچوں کی ماں تھی۔ تاہم یہ قتل اور بربریت ہے، میری ساری ہمدردیاں قتل ہونے والے افراد کے ساتھ ہیں اور ہم مظلوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
  • میاں اظہر مرحوم وضع داری کی سیاست کرتے تھے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • فلسطین کی صورتحال پرمسلم ممالک اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں(حافظ نعیم )
  • کراچی کو سرسبز بنانے کیلئے جماعت اسلامی کی ایک لاکھ درخت لگانے کی مہم کا آغاز
  • سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن
  • جماعتِ اسلامی کا کل خیبر پختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت کا اعلان
  • جماعت اسلامی کا خیبر پختونخوا میں عوامی کمیٹیوں کے قیام کا باقاعدہ آغاز
  • سیاہ کاری کے حق میں بیان؛ ماں نے بیٹی کے قتل کو صحیح قرار دے دیا ا
  • جماعت اسلامی کا کراچی میں ایک لاکھ درخت لگانے کا اعلان
  • لائن لاسز چھپانے کیلئے کی گئی اوور بلنگ کی رقم عوام کو واپس کی جائے، حافظ نعیم