ہندوتوا ایجنڈے کا مقصد پورے برصغیر کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا ہے، مسعود خان
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
ذرائع کے مطابق مسعود خان نے یہ بات سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز (CISS) اسلام آباد کے زیراہتمام ایک گول میز مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے دفعہ370 کی منسوخی اور اس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی وسیع تر بھارتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد اپنے تسلط کو طول دینا، اقلیتوں کو معاشی طور پر کمزور اور حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔ ذرائع کے مطابق مسعود خان نے یہ بات سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز (CISS) اسلام آباد کے زیراہتمام ایک گول میز مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مسعود خان نے جو بیجنگ اور واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر اور اقوام متحدہ میں نمائندے کے طور پر خدمات انجام دینے والے سابق سفارت کار بھی ہیں، کہا کہ ہندوتوا کا ایجنڈا کشمیر سے آگے پھیلا ہوا ہے جس کا مقصد پورے برصغیر کو ہندوتوا کے رنگ میں رنگنا ہے۔ انہوں نے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے ثبوت کے طور پر 2023ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں نصب کیے گئے اکھنڈ بھارت نقشے کا حوالہ دیا۔ سٹریٹجک ڈیٹرنس کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ بیرونی دبائو میں نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی تقسیم کے باوجود قومی سلامتی ہر ایک کی ترجیح ہونی چاہیے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد مجیب افضل نے بھارت کی سیکولر شناخت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ 1947ء کے بعد اس کے گورننس ڈھانچے میں اقلیتوں کو منظم طریقے سے کمزور کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو سیاست، ملازمت اور عوامی زندگی میں ادارہ جاتی امتیاز کا سامنا ہے جس سے گہرے تعصبات کو تقویت ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی تقسیم کو انتخابی کامیابی کے لیے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سنٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے مباحثے کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور اسرائیل جیسی قابض ریاستیں اپنی مرضی سے مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں میز پر لانے کے لیے بین الاقوامی دبائو ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ایک تنازعہ ہے اور پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ علی سرور نقوی نے کشمیریوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے پاکستان کے عزم کا ذکر کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بیانات جاری کرنے کے بجائے ٹھوس اقدامات کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کرتے ہوئے
پڑھیں:
سوال مت پوچھیے!
پسماندہ ممالک کیوں ترقی نہیں کر پاتے؟ سوال میں کسی قسم کا الجھاؤ باقی نہیں رہا ۔ جواب سادہ سا ہے۔ ان تمام ممالک کے حکمران‘ ایک جعلی نظام کے ذریعے عام لوگوں کی گردن پر سوار ہو جاتے ہیں۔ جذباتیت‘ مذہب پرستی اور جنونیت کی وہ فضا قائم کر دیتے ہیں جس سے عوام کے سنجیدہ مسائل پس منظر میں چھپ جاتے ہیں۔ بلکہ ایسے مسائل بیان کیے جاتے ہیں جن سے عوام کی براہ راست بھلائی کا کوئی تعلق نہیں۔ ترقی پذیر ملکوں کی فہرست ترتیب دیجیے ۔ ان کے معاملات مکمل طور پر یکساں بگاڑ کا شکار ہیں۔ یوں کہنا چاہیے۔ کہ یہ ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہیں۔
اگر آپ مسلمان ممالک کے الجھاؤ کو دیکھیے تو وہ جھوٹ‘ لوٹ مار اور جعلی تاویلوں کے اس گرداب میں ڈوب چکے ہیں۔ جس میں سے نکلنا قطعاً ممکن نہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں میں یہ عذاب سر چڑھ کر رقصاں ہے۔ کیونکہ یہاں تقلید اور ہمہ وقت بزرگی کا وہ سرمہ بیچا گیا ہے۔ جس نے ہمیں نابینا کر ڈالا ہے۔ پاکستان‘ جن مغربی تعلیم یافتہ لوگوں نے ترتیب دیا تھا۔ انھیں اور ان کی سوچ کو‘ ملک بننے کے تھوڑے ہی عرصہ میں‘ غتر بود کر دیاگیا۔
منظم طریقہ سے ‘ ہماری جدوجہد آزادی ‘ کی اہم سیاسی شخصیات کو متنازعہ بنایا گیا ۔ چند اداروں نے مبالغہ آرائی کی ناؤ میں سوار ہو کر ملک کی دخانی کشتی کو ڈبو کر رکھ ڈالا ۔ یہ صورت حال آج بھی موجود ہے۔ مگر ایک معاملہ تمام ’’شاہسواروں‘‘ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ ہے سوشل میڈیا کی دیو مالائی طاقت۔ اب حکومتوں کے لیے نازک معاملات پر کوئی قومی بیانیہ بنانا مشکل تر ہو چکا ہے۔
عام لوگوں کے سامنے ہر تصویر کے متعدد متضاد رخ ‘ پل بھر میں سامنے آ جاتے ہیں۔ ہر پاکستانی کے ہاتھ میں چلتا پھرتا‘ ابلاغ کا طاقتور ذریعہ ‘ فون کی صورت میں موجود ہے۔ جس کے سامنے کوئی من گھڑت دلیل‘ قائم نہیں رہ سکتی۔ حکومتوں کے لیے یہ صورت حال ایک گھمبیر رخ اختیار کر چکی ہے۔
اس کشمکش میں کیا ملک میں ترقی کے امکانات ہیں۔ جواب آپ خود بخوبی جانتے ہیں۔ پہلے یہ بھی سمجھ لیجیے۔ کہ ترقی کے معنی کیا ہیں؟۔ مطلب کیا ہے؟ طالب علم کی نظر میں اگر عام لوگوں کو تعلیم‘ صحت اور روزگار کی بنیادی ضروریات احسن طریقے سے مہیا ہو رہی ہیں ۔ تو جان لیجیے کہ ملک اور قوم ترقی کے زینہ پر اوپر چڑھ رہی ہے۔
اس کے برعکس اگر عوام کی اولین ضروریات صرف خواہشات کی حد تک ہی رہ جائیں۔ تو پھر گھبرانے‘ سوچنے اور شرمسار ہونے کا مرحلہ ہے۔ سوال وہی ‘کہ کیا ہم ایک مہیب جھوٹ کا شکار تو نہیں ؟
یہی وہ گورکھ دھندہ ہے ۔ جسے ہر شہری کو سوچنا چاہیے۔ تعصب سے مبرا ہو کر سچ تلاش کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہم جس بگاڑ کا شکار ہیں۔ وہ 1947 سے شروع نہیں ہوا۔ بلکہ برصغیر میں مسلمانوںکی بظاہر طاقتور حکومتوں کے دوران میں شروع ہو چکا تھا۔ چار صدیاں پہلے کے مسلمان حکمران طبقات اپنی جہالت پر نازاں تھے۔
آج کے حد درجہ تخلیقی دور میں بھی ان کے رویہ میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ذرا سوچیے۔ سن 1096عیسوی میں ‘ آکسفورڈ یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی۔ بارہویں صدی میں پیرس میں بھی اعلیٰ یونیورسٹی بن چکی تھی۔ اس زمانہ میں ‘ برصغیر میں ‘ دہلی سلطنت کے سلاطین کی حکومت تھی۔ تین سو برس کی ان حکومتوں کے معاملات کو تفصیل سے پرکھیے۔
قتل و غارت‘ شاہی رقابتیںاور ان گنت خواتین پر مبنی حرم سرا کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حرام ہے کہ کسی ایک سلطان نے اپنے اس زمانے کے حساب سے کسی اعلیٰ تعلیم گاہ کے قیام پر توجہ دی ہو۔ہاں۔ اپنے قد کوبڑھانے کے لیے عمارتیں بہر حال تعمیر ضرور ہوئیں۔ جن کا عوامی بہبود سے کوئی جزوی تعلق بھی نہیں تھا۔
ذرا سوچیے۔ایسا کیوں تھا۔ وجہ صرف ایک معلوم پڑتی ہے ۔ کہ ہر بادشاہ کو صرف اپنے دور کو طویل کرنے کا خبط سوار تھا۔ کہنے کو تو وہ مسلمان ہی تھے۔ مگر ہمارے عظیم مذہب کی انقلابی روح سے ناشناس تھے۔ نتیجہ یہ ہواکہ پورا برصغیر ‘ جدید علوم سے دور ہوتا چلا گیا۔ بعینہ یہی معاملہ مغلوں کے دور میں بھی روا رہا۔ مغل بادشاہ‘ ظل الٰہی کہلوانے میں مگن رہے۔
دنیا کے امیر ترین بادشاہ بن گئے۔ مگر انھوں نے جدت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ اندازہ ہی نہیں کر سکے کہ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کی لہر برپا ہو چکی ہے۔ صنعتی انقلاب آ چکا ہے۔ تحقیق ‘ سائنس اور ایجادات زندگی کا چلن بن چکی ہیں۔ یورپ‘ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ ترقی کرنے والا خطہ بن گیا اور برصغیر ‘ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ قیامت یہ ہے کہ ہمارے ‘ یعنی مسلمانوں کے جوہری حالات آج بھی یہی ہیں۔
مسئلہ یہ بھی ہوا کہ تقلید نے ہمارے ذہنوں کو اس طرح قابو کر لیا کہ سوال پوچھنے کی گنجائش ہی ختم ہو گئی۔ مذہبی علم کو ‘ واحد علم قرار دے دیا گیا۔ غیر ملکی زبانیں ‘ جیسے ترکی‘ فارسی اور عربی پر عبور ‘ عالم کی پہچان بن گیا۔ دھڑا دھڑ شعراء اکرام‘ داستان گو اور قصیدہ گو اہمیت اختیار کر گئے۔ جدید علوم کی ہوا تک ہمارے خطے تک نہ پہنچ پائی۔ ذہن کی سرخیزی کو جرم قرار دے دیا گیا۔
لسانیات اور جمالیات کو زندگی کا محور قرار پایا گیا۔ جدید علوم کا حصول کفر تک پہنچانا ہماری فاش غلطی تھی۔ جب ہم اکبر اعظم ‘ شاہ جہاں اور اورنگ زیب جیسے بادشاہوں کے دور کی ورق گردانی کرتے ہیں تو چند معاملات سامنے آتے ہیں۔محض اپنے دور کی تحقیقی تخلیق کاری سے نفرت‘ مبالغہ پر مبنی طرز زندگی اور جاہلیت کی ترویج سکہ رائج الوقت تھا۔
کبوتربازی ‘ بٹیروں کی جنگ اور حد درجہ احمقانہ طویل القابات پر مزین زندگی کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ خطہ‘ جس میں ٹیکسلا کی عظیم درس گاہ ‘ ہزاروں برس پہلے قائم کی گئی تھی۔ منافرت میں غوطہ زن اورتحقیق سے گھبراہٹ‘ جیسے رویے میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ کیا یہ نکتہ قیامت نہیں ڈھاتا۔ کہ برصغیر میں ہمارے حکمرانوں کے پاس محیر العقول دولت تھی۔ مگر وہ اتنے کند ذہن تھے کہ مغرب کے معاملات سے بھرپور بے خبر رہے۔ ماضی کا کیا ماتم کرنا۔ برصغیر میں مسلمانوں کے عمومی حالات اور پاکستان میں خصوصی حالات حد درجہ نازک اور قدامت پسند ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیے ۔ یورپ چودھویں صدی سے لے کر سترویں صدی تک‘ نشاۃ ثانیہ کے عمل سے گزر رہا تھا۔ اس میں انسان کی برابری‘ روزگار کے عدم توازن اور انسانی حقوق کی مناسبت پر بات ہونی شروع ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ‘ محققین نے ‘ ریاستوں کے مذہبی جواز کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا۔پاپایت کے سفاکانہ دور پر‘ضرب کاری لگ چکی تھی۔ علمیت کی اس روش نے اس صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ جو 1760 سے پہلے دنیا نے قطعاً نہیں دیکھا تھا۔
1840 تک ‘ یورپ میں حقیقی انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ سائنس اور دلیل نے معاشروں کو یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ یورپ وہ طاقت بن کر ابھرا تھا‘ جس کے سامنے تمام دنیا سرنگوں ہو گئی۔برصغیر میں‘ برطانوی ‘ پرتگالی اور فرانسیسی طاقتیں نئی جہتیں لے کر آئے۔ ہندوستان میں مسلمان اتنے تساہل پسند اور پسماندہ تھے کہ ایک تجارتی کمپنی کی عسکری طاقت کا مقابلہ نہ کر پائے۔ ہمارے ہیرو‘ خس و خاشاک کی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی سے گھائل ہوتے گئے۔ مگر بحیثیت قوم‘ مسلمانوں نے اپنے آپ کو بدلنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔
مغرب سے تعلیم یافتہ افراد‘ جب برصغیر میں واپس آئے۔ تو انھوںنے آزادی ‘ جدید علوم ‘ انسانی حقوق پر واشگاف بات کی۔ مگر انھیں‘ مسلمانوں کے مذہبی طبقہ نے دائرہ اسلام ہی سے خارج کر دیا۔ ان میں سرسید‘ علامہ اقبال اور محمد علی جناح ‘ سب شامل تھے۔ اگر یہ اکابرین ‘نہ ہوتے تو آج بھی ہم ‘ بادشاہوں کے درباروں میں کورنش بجا لانے کے علاوہ مزید کچھ نہیں کر سکتے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اپنے ملک میں وہی قدیم رویہ برپا کر رکھا ہے۔ جو ہمارے مسائل کی جڑ ہے۔ طاقتور آزادی سے ‘ کمزور پر حکومت کر رہے ہیں۔ نظام انصاف میں کوئی توانائی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی کا چلن بالکل وہی ہے۔ جو دہلی سلاطین کے زمانہ میں روا تھا۔ مذہب کے نام پر فرقہ پرستی‘ جذباتیت اور شدت پسندی کو ریاست بذات خود ‘ توانائی دے رہی ہے۔
چند مذہبی جماعتیں ‘ قبائلی عصیبت کو ہوا دے رہی ہیں۔ دہشت گرد‘ بھی مذہبی تاویلیں استعمال کر کے تسلی سے قتل عام کر رہے ہیں۔ عوام اسی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جو صدیوں پہلے تھا۔ سوال اٹھانے کی اجازت آج بھی نہیں ہے۔ کفر کے فتوے‘ توانائی سے جاری و ساری ہیں۔ لگتا ہے ہم مسلمانوں نے قسم کھا رکھی ہے۔
کہ ہم ہر طریقے سے ترقی سے دور رہیں گے۔ پست معیار تعلیم‘ جعلی ریاستی بیانیہ‘ ہر دم جنگ و جدل کی باتیں ‘ عدم تحفظ‘ ہمارا قومی شعار ہیں۔ تحقیق سے آج بھی اجتناب کیا جا رہا ہے۔ اگر میری باتوں پر یقین نہیں آتا ۔ تو ذرا ! کوئی بھی سنجیدہ سوال پوچھ کر دیکھیے ۔لوگ خوشی سے ‘آپ کی گردن زنی کر دیں گے۔ اور وہ ایک نیکی قرار ہو گی۔ دراصل ہم سوال پوچھنے کے عمل ہی سے خوف زدہ ہیں۔ تمام معاملات ‘ پسماندگی کی شاہراہ پر بھاگ رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے ضعف سے حد درجہ خوش ہیں!