نائب امیرجماعت اسلامی آزاد کشمیر زاہد رفیق ایڈوکیٹ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب جدہ تشریف لائے توان کے اعزاز میں سماجی رابطہ کمیٹی جدہ نے “مکالمہ ریسٹورینٹ” اولڈ مکہ روڈ کیلو 14 میں ایک پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کی صدارت صدرسماجی رابطہ کمیٹی راجہ محمد ریاض نے کی۔ جبکہ امیرِجماعت اسلامی گجرات کے چوہدری انصرمحمود دھول اعزازی مہمان کے طور پر شریک ہوئے۔ تقریب میں رابطہ کمیٹی کے ذمہ داران، پاکستانی و کشمیرکمیونٹی کی سرکردہ شخصیات،لیبیف عباسی، خورشید احمد متیال، مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد راجہ شریف الزماں، عبدالستار یونس، جان گلزاراور میڈیا نمائندگان نے شرکت کی۔ صدرسماجی رابطہ کمیٹی راجہ محمد ریاض نے اپنے خطاب میں مہمان خصوصی زاہد رفیق کوعمرہ کی سعادت پر مبارکباد پیش کی اور کشمیرمیں ان کی جماعتی خدمات کو سراہتے ہوئے خراجِ تحسین پیش کیا۔ ناظم جماعت اسلامی جدہ ڈاکٹرمعین الدین نے اپنے خطاب میں مسلم امہ کے اتحاد، مسئلہ فلسطین اورکشمیر کے حل پرروشنی ڈالی اورجماعت اسلامی کے مؤقف کو اجاگر کیا۔ چیئرمین مسلم لیگ ن سعودی عرب چوہدری محمد اکرم گجر نے کمیونٹی کے اتحاد اورکشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے عزم کا اعادہ کیا۔ جموں کشمیر اوورسیزکمیونٹی کے چیئرمین سردار محمد اشفاق نے اپنے خطاب میں سعودی وژن 2030 اور جموں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ معروف سائنسدان ڈاکٹرساجد سعید نے نے عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں اورگلوبل وارمنگ کے خطرات سے متعلق شرکاء کو آگاہ کیا۔ انھوں نے سعودی عرب اور پاکستان کے ماحولیاتی منصوبوں پرعملی اقادمات کی ذکر کیا۔ امیرجماعت اسلامی گجرات چوہدری انصردھول نے اوورسیز پاکستانیوں کے اتحاد اور عالمی سطح پرجماعت اسلامی کے مؤقف پر روشنی ڈالی اور پاکستان کے موجودہ حالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ الخدمت گروپ سعودی عرب کے سربراہ محسن غوری نے الخدمت فاؤنڈیشن کے فلاحی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کی اور سالانہ جائزہ رپورٹ پیش کی۔ مہمانِ خصوصی زاہد رفیق ایڈوکیٹ نے اپنے خطاب میں تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کشمیر میں عدالتی، تعلیمی اور بیوروکریسی کے نظام سے متعلق امور پر گفتگو کی۔ انہوں نے فلسطین اور کشمیر میں جاری مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اوورسیز پاکستانیوں کو ملکی ترقی اور کشمیر کی آزادی کے لیے متحد ہو کر کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ تقریب کے اختتام پر قائم مقام چیئرمین جموں کشمیر اوورسیز کمیونٹی انجینئرعارف مغل نے کشمیر و فلسطین کی آزادی اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے خصوصی دعا کروائی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے اپنے خطاب میں رابطہ کمیٹی اور کشمیر

پڑھیں:

یمن کا سعودی عرب کو الٹی میٹم

اسلام ٹائمز: یمنی قیادت نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے امن معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کیے تھے۔ یہ وہی تقاضے ہیں جن پر عمل درآمد طوفان الاقصیٰ کی جنگ اور یمن کی طرف سے غزہ کی حمایت میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے باعث مؤخر ہو گیا تھا۔ اب صنعاء ان شرائط و مفادات کے نفاذ کی تیاری کر رہا ہے جن پر اس نے پہلے امریکی دباؤ کے باعث عمل نہیں کیا تھا۔ یمن کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سے واضح ہے یمن اسلامی اپنے وقار، عزت، حقوق اور غزہ کی نصرت پر کوئی سمجھوتہ کرنیکے لئے تیار نہیں۔ خصوصی رپورٹ:

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خاتمے اور جنگِ غزہ کی حمایت میں یمنی کارروائیوں کے رک جانے کے بعد، یمن کے اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں ریاض سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طے پانے والے امن معاہدے کی شقوں پر اپنے وعدوں پر عمل کرے۔ واضح رہے کہ جب فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے صہیونی رژیم کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہوا تھا، اُسی دوران یمن اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات بھی جاری تھے، جو کئی ماہ تک چلتے رہے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں فریقین کے درمیان جنگ کے خاتمے اور عسکری، انسانی، اور سیاسی اختلافات کے حل کے لیے متعدد سمجھوتے طے پائے تھے۔
غزہ جنگ کیوجہ سے یہ معاہدہ اس وقت مؤخر ہو گیا، جب صنعاء نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اہلِ غزہ کے مظلوم عوام کے دفاع کی جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن غزہ میں صہیونیوں کی نسل کُشی پر مبنی جنگ رک جانے کے بعد، یمنی نقطۂ نظر کے مطابق اب امن معاہدے پر عمل درآمد کی ذمہ داری سعودی فریق پر عائد ہوتی ہے۔ یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ مہدی المَشاط نے ریاض کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے اور سستی و غفلت کی پالیسی جاری رکھنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صعودیہ صرف کشیدگی میں کمی کے مرحلے تک محدود نہ رہے، بلکہ یمن کے ساتھ امن معاہدے کی واضح شرائط پر عمل درآمد کرے۔

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے سربراہ نے مزید کہا کہ یہی وہ قریب ترین اور بہترین راستہ ہے جو اُن لوگوں کی لالچ اور فتنہ انگیزی کو روک سکتا ہے جو اسلامی امت کے اندر جنگ کے آپشن پر سرمایہ کاری کر کے اسرائیل کے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں، اگر آپ غور کریں تو امریکہ خطے کی تمام حساس صورتحال سے اسرائیل کے حق میں فائدہ اٹھا رہا ہے۔ صنعا نے اس بات کو نہیں چھپایا کہ وہ سعودی عرب کے امریکی و اسرائیلی دباؤ کے تحت اپنے وعدوں سے پہلو تہی کرنے پر گہری تشویش رکھتا ہے۔ یمنی قیادت نے خبردار کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ فوجی کشیدگی کی پالیسی اختیار کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرے گا، چاہے اس کے نتائج دونوں فریقوں کے لیے تباہ کن ہی کیوں نہ ہوں۔

اسی سلسلے میں یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کے رکن ضیفُ اللہ الشامی نے تسنیم کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج یمنی قوم ہی وہ فریق ہے جو غزہ کی حمایت کے عزم اور فلسطین کی نصرت کے راستے پر کھڑی ہے اور اس نے اس بڑے معرکے میں استقامت دکھانے کے لیے اپنے ذاتی مفادات اور وقتی مصالح کو قربان کیا ہے، ممکن ہے کہ غزہ کی جنگ کے خاتمے کے بعد یمن کے خلاف جاری جارحیت، یمنی عوام کے مطالبات، اور ان کے حقوق کی بازیابی، چاہے وہ امن، گفتگو، مفاہمت کے ذریعے ہو یا طاقت کے ذریعے ایک بار پھر یمنی قیادت کی اولین ترجیحات میں شامل ہو جائے۔   انہوں نے کہا کہ یمنی عوام نے فلسطینی مزاحمت کی حمایت کو اُن ممالک کے ساتھ امن معاہدوں پر ترجیح دی جو یمن کے خلاف جنگ میں شریک ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک فلسطین کی نصرت اور امتِ اسلامی کے مفادات سب سے مقدم ہیں۔ تاہم، یمنی نقطۂ نظر کے مطابق، اس کا مطلب اپنے حقوق سے دستبرداری نہیں، چاہے وہ امن کے ذریعے حاصل ہوں یا جنگ کے ذریعے۔ یمن کی قومی کونسل کے رکن حمید عاصم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی اہم شرائط اور تقاضے ہیں جن پر سعودی حکومت کو عمل کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے وہ باہمی یادداشت ہے جو ڈیڑھ سال قبل ماہِ رمضان میں صنعاء میں طے پایا تھا، جب سعودیوں نے یمن پر اپنی دس سالہ فوجی مہم اور محاصرے کی ناکامی تسلیم کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اس معاہدے میں فریقین نے مکمل طور پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا، لیکن بعد میں سعودیوں نے امریکی ہدایات کے تحت اور طوفان الاقصیٰ کی جنگ کے آغاز کے بعد اس پر عمل درآمد سے انکار کر دیا۔ یمن کی قومی کونسل کے رکن نے مزید کہا کہ میرا کہنا ہے کہ آج سعودی عرب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امن کا آپشن ابھی بھی موجود ہے، ورنہ ہمارے سامنے کئی متبادل موجود ہیں، جن میں دوبارہ جنگ کی طرف واپس جانا بھی شامل ہے، سعودی بخوبی جانتے ہیں کہ ہم انہیں اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جتنا ہم نے اب تک پہنچایا ہے۔

صہیونی جارحیت کے غزہ میں عارضی تعطل کے بعد، صنعا نے اب دوبارہ اپنے مطالبات کی پیروی شروع کر دی ہے، جو اس نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں سے امن معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کے سلسلے میں کیے تھے۔ یہ وہی تقاضے ہیں جن پر عمل درآمد طوفان الاقصیٰ کی جنگ اور یمن کی طرف سے غزہ کی حمایت میں کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے باعث مؤخر ہو گیا تھا۔ اب صنعاء ان شرائط و مفادات کے نفاذ کی تیاری کر رہا ہے جن پر اس نے پہلے امریکی دباؤ کے باعث عمل نہیں کیا تھا۔ یمن کی اعلیٰ قیادت کے بیانات سے واضح ہے یمن اسلامی اپنے وقار، عزت، حقوق اور غزہ کی نصرت پر کوئی سمجھوتہ کرنیکے لئے تیار نہیں۔  

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کی ترک وزیرخارجہ سے ملاقات، علاقائی و بین الاقوامی امور پر قریبی رابطہ برقرار رکھنے پر اتفاق
  • الریاض میں مشتاق بلوچ کی جانب سے صحافیوں کے اعزاز میں عشائیہ
  • مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
  • یمن کا سعودی عرب کو الٹی میٹم
  • اسحاق ڈار کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی بین الوزارتی کمیٹی کا اجلاس، سفارتی کارکردگی کا جائزہ
  • مقبوضہ وادی میں جماعت اسلامی پر پابندی
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کا سیاسی رہنماؤں سے رابطہ، قیام امن کے لیے جرگہ بلانے کا فیصلہ
  • اسحاق ڈار کا کینیڈین ہم منصب سے رابطہ، تجارت و سرمایہ کاری بڑھانے پر اتفاق
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ، جرگہ بلانے کا فیصلہ