طاقتور بحریہ محفوظ سمندری تجارت کی ضامن، خواجہ آصف: دہشتگردی سے نمٹنے کا عملی مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد‘ کراچی (خبر نگار خصوصی+ سٹاف رپورٹر) امن مشق 2025 ء کے ضمن میں پہلی بار منعقد ہونے والے دو روزہ امن ڈائیلاگ کا افتتاحی سیشن پاکستان نیول اکیڈمی کراچی میں منعقد ہوا۔ پاک بحریہ کے زیر اہتمام اس ڈائیلاگ میں دنیا بھر سے بحری افواج کے سربراہان، میری ٹائم تنظیموں کے نمائندگان اور معروف ماہرین نے شرکت کی۔ ترجمان پاک بحریہ کے مطابق افتتاحی سیشن میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ چیف آف دی نیول سٹاف، ایڈمرل نوید اشرف نے اپنے استقبالیہ خطاب میں امن ڈائیلاگ کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور سمندری خطرات سے نمٹنے کے لیے بحری ممالک کے درمیان تجربات کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ قابل عمل حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ طاقتور بحریہ سمندری تجارت کے تحفظ کی ضامن ہے۔ دنیا بڑی معاشی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، تجارتی ٹیرف ایک بڑاچیلنج بن کر سامنے آیا ہے، یہ ہمارا اجتماعی فرض ہے کہ سمندری تجارت کے تحفظ کیلئے مشترکہ کوششیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی معاشی نظام میری ٹائم پر انحصار کرتا ہے۔ ایڈمرل نوید اشرف نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ امن ڈائیلاگ کے شرکاء کو خوش آمدید کہتا ہوں، امن ڈائیلاگ کا مقصد میری ٹائم سکیورٹی کو لاحق خطرات سے آگاہی دینا ہے، امن ڈائیلاگ کے ذریعے بلیو اکانومی کو فروغ دینا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے امن ڈائیلاگ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا کہ دنیا بھر میں 90 فیصد تجارت سمندری گزرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ پاکستان نیوی شریک ملکوں کے درمیان تجارت اور روابط کے فروغ کیلئے کوشاں ہے۔ پاک بحریہ کے زیر اہتمام 9ویں کثیرالقومی بحری مشق امن 2025جاری ہے، کثیر القومی بحری مشق 11فروری تک جاری رہے گی۔ پاک بحریہ کی 9ویں کثیر القومی بحری مشق امن 2025 کے تیسرے روز اتوار کو محفوظ سمندر، خوشحال مستقبل کے عنوان سے امن ڈائیلاگ کا انعقاد کیا گیا جس میں شریک ممالک کی بحری افواج کے چیف آف نیول سٹاف اور دیگر عہدیدار شریک ہوئے۔ امن ڈائیلاگ میں مشترکہ سمندری خطرات، ماحولیاتی تبدیلیوں کے میری ٹائم سکیورٹی پر اثرات سمیت مختلف اہم امور پر گفتگو ہوئی۔ پاک بحریہ کے زیراہتمام نویں کثیر القومی بحری امن مشق کے تیسرے روز اتوار کو منوڑہ میں دہشتگردی سے نمٹنے کی عملی مشق پیش کی گئی۔ اس موقع پروزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ پاک بحریہ کے کمانڈوز نے دہشتگردی سے نمٹنے کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ قبل ازیں منوڑہ بیچ پر سندھ پولیس، رینجرز، پاک آرمی اور پاک بحریہ کے میوزیکل بینڈز نے قومی دھنیں پیش کیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: پاک بحریہ کے امن ڈائیلاگ میری ٹائم
پڑھیں:
تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 جون 2025ء) اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے سمندر (یو این او سی 3) کے دوران یو این نیوز کے نمائندوں کو جنوب مشرقی فرانس کے سمندر (فرنچ راویرا) میں ناروے کے 111 سال پرانے بحری جہاز پر جانے کا موقع ملا جس پر سائنس کے 50 طلبہ، معلمین اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والے شہری سوار تھے۔
اس مہم میں یورپی خلائی ادارے (ای ایس اے) کی سیٹلائٹ کے ذریعے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ان لوگوں کے مشاہدات سمندروں کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے اور انہیں تحفظ دینے کی ہنگامی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
فرانس کے قدیم شہر نیس میں تین مستولوں والا 98 میٹر طویل یہ بحری جہاز گزشتہ ہفتے لیمپیا کی بندرگاہ پر پہنچا جہاں ان دنوں یہ کانفرنس جاری ہے۔
(جاری ہے)
1914 میں بنایا گیا یہ جہاز (سٹیٹسراڈ لیمخول) 1921 سے فرانس کی ملکیت ہے۔ جہاز کو یہ نام ناروے کے سابق وزیر کرسٹوفر لیمخول کے نام پر دیا گیا ہے اور اسے گزشتہ سال سمندری سائنس کے جدید ترین آلات سے مزین کر کے تیرتی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد یہ جہاز اب جدید ترین تحقیقی پلیٹ فارم بن گیا ہے جس کے ذریعے سائنس دان، طلبہ اور محققین سمندر کے اسرار کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس جہاز کی دوسری سمندری مہم 11 اپریل کو ناروے کے ساحلی علاقے برگن سے شروع ہوئی تھی جس کا مقصد سمندری سائنس، تعلیم اور استحکام کو یکجا کرنا ہے۔ مہم کے ذریعے تمام لوگوں کے پائیدار مستقبل کے لیے سمندروں کے اہم کردار کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کے علاوہ متعلقہ علم کے تبادلہ کیا جانا ہے۔
متوقع طور پر یہ مہم ایک سال کے بعد برگن میں ہی ختم ہو گی۔یہ مہم سمندری سائنس کے ذریعے پائیدار ترقی کے لیے منائی جانے والی اقوام متحدہ کی دہائی کا حصہ ہے۔ یہ دہائی ایک ایسا عالمگیر اقدام ہے جس کے ذریعے سمندری صحت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جانا ہے اور یہ مہم 'ای ایس اے' کے ایک جدید تربیتی کورس کی شراکت سے چلائی جا رہی ہے جس میں طویل فاصلے سے جدید آلات کے ذریعے سمندر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس شراکت کے تحت 28 ممالک کے طلبہ کو بھی مہم کا حصہ بنایا گیا ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعے اور براہ راست سمندر سے حاصل کردہ معلومات کے موازنے میں مدد دیتے ہیں۔اس مہم کی قیادت کرنے والے 'ای ایس اے' کے سمندری سائنس دان کریگ ڈونلون کا کہنا ہے کہ سائنس، سمندری کھوج اور جہازرانی کی روایات کو یکجا کرنا سطح آب سے زیر سمندر جھانکنے کا بہترین طریقہ ہے۔ انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ اس مہم میں سیٹلائٹ سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں جہاز پر ہونے والی تحقیق میں مدد لی جاتی ہے اور طلبہ یہ جان سکتے ہیں کہ سمندر کے کون سے حصے میں مزید اور بہتر جانچ کی جا سکتی ہے۔
'ای ایس اے' خلا سے حاصل کردہ معلومات کو روزانہ جہاز تک بھیجتی ہے جن کا تجزیہ کرنے میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز کا کپتان اسے مطلوبہ مقام پر لے جاتا ہے۔
طلبہ کی کڑی محنت کا صلہڈونلون نے یو این نیوز کو بتایا کہ سمندری کھوج کے لیے استعمال ہونے والے جدید آلات کے ذریعے پانی کی حرکت ماپی جاتی ہے، زیرآب آوازوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس پانی کی خصوصیات سے آگاہی حاصل کر کے خفیہ سمندری حرکیات کا پتا چلایا جاتا ہے۔
طلبہ اس طریقہ کار کے ذریعے طبعیات اور حیاتیات میں اپنی تحقیق کے نتائج کو یکجا کر کے دیکھتے اور فضائی۔سمندری تعامل کو مدنظر رکھے کر اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ یہ کام انفرادی طور پر یا مختلف مںصوبوں پر اجتماعی انداز میں کرتے ہیں۔ ان میں داخلی اور الگ تھلگ سمندری لہریں، پانی کے بہاؤ اور اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور حیاتیاتی ماحولیاتی تنوع کے جائزے جیسے مںصوبے شامل ہیں۔
ڈونلون کہتے ہیں کہ یہ کام آسان نہیں ہوتا کیونکہ ان طلبہ اور محققین کو آٹھ گھنٹے جہاز کے عرشے پر رہنا پڑتا ہے اور باقی وقت وہ کھانا کھاتے اور سوتے ہیں۔ لیکن وہ اکٹھے کام کرنے کے طریقے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں چیزوں کی جانچ کرتے ہیں۔ اس مہم اب تک 15 ٹیرابائٹ معلومات جمع کی جا چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بہت قابل قدر کام ہے جس کی بدولت سائنسی شہادتوں کی بنیاد پر معلومات پر مبنی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندر انسانوں کے لیے ہیں اور سبھی کو ان کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا سیکھنا ہو گا کیونکہ یہ خوبصورت ہونے کے ساتھ نہایت کمزور بھی ہیں۔ انہیں کوڑا کرکٹ تلف کرنے کی جگہ نہیں بنانا چاہیے۔جہاز پر موجود نوجوان محققین میں پبلو الواریز بھی شامل ہیں۔
وہ 'ای ایس اے' میں زیرتربیت خلاباز ہیں جنہوں نے 2030 سے پہلے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر جانا ہے۔ خلا کی وسعتوں کو کھوجنے سے پہلے وہ اس جہاز پر رہ کر اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانا اور سمندروں کے اسرار بارے اپنے علم کو بڑھانا چاہتے ہیں۔وہ طویل فاصلے سے سمندری تہہ کو جانچنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ سیٹلائٹ سے حاصل شدہ معلومات کے ذریعے وہ سمندر کی سطح، اس پر ہواؤں کی صورتحال اور سمندری حرکیات کے بارے میں کھوج لگاتے ہیں۔
اس طرح سائنس دانوں اور خلابازوں کو ایسی بیش قیمت معلومات ملتی ہیں جن سے سمندری پانی کی نقل و حرکت کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔الواریز کا کہنا ہے کہ اس مہم کے ذریعے سمندری اور زمینی نظام کی سائنس دونوں بارے انسانی علم میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھوج لگانا اور اپنے ماحول اور کائنات کو سمجھنا سائنس سے وابستہ لوگوں کے ڈین این اے میں شامل ہے۔
سمندری سائنس اور خواتینجہاز پر موجود طلبہ میں جرمنی کی لینا شیفیلڈ بھی شامل ہیں جن کے لیے یہ مہم نہایت متاثر کن ہے۔ وہ یہ دیکھ کر خود کو بااختیار محسوس کرتی ہیں کہ یہاں خواتین طلبہ کی تعداد اپنے مرد ساتھیوں سے زیادہ ہے جسے اس شعبے میں غیرمعمولی اور بامعنی تبدیلی کہا جا سکتا ہے جہاں عام طور پر مردوں کا غلبہ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سائنس اور بالخصوص سمندری کے شعبے میں مزید بڑی تعداد میں خواتین کی ضرورت ہے۔
شیفیلڈ کا کام سمندر میں پلاسٹک کے باریک ذرات کی بڑھتی ہوئی مقدار پر مرکوز ہے۔ انہوں نے یو این نیوز کو کو بتایا کہ اس سفر سے انہیں اپنی تعلیم میں بھی مدد ملی۔ مہم میں وہ مختلف سمندروں کا سفر کر رہے ہیں جس کا آغاز بحیرہ ناروے سے ہوا اور پھر بحیرہ منجمد شمالی سے ہوتے ہوئے وہ بحیرہ اوقیانوس کی جانب گئے اور اب بحیرہ روم میں آ گئے ہیں۔
اس تمام سفر میں انہیں سمندروں کے اندر پلاسٹک کی آلودگی کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں اور بحیرہ روم میں پلاسٹک کے ایسے نمونے ملے جنہیں زیرآب باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات کا حجم 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے اور ان میں بیشتر ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ شیفیلڈ کا کام ابھی شروع ہی ہوا ہے اور اس کے نتائج بارے اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔
وہ پلاسٹک کے نمونے جمع کر رہی ہیں اور سفر کے آخر میں خوردبینی تجزیے کے ذریعے جانیں گی کہ زیرآب دراصل کتنا پلاسٹک موجود ہے اور مختلف جگہوں پر پائے جانے والے ان ذرات کی جانچ سے یہ اندازہ بھی لگا سکیں گی کہ اس نے بڑے پیمانے پر سمندر کو کس قدر آلودہ کر رکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پانی ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے جس کی سطح پر موجود پلاسٹک بھی بہاؤ کے ساتھ حرکت کرتا رہتا ہے۔
اس مہم میں ایک خاص طریقے سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ یہ پلاسٹک کہاں سے آیا اور یہ نہایت دلچسپ عمل ہو گا۔'سٹیٹسراڈ لیمخول' پر سفر کرنے والے بہت سے طلبہ اس تربیتی کورس میں شمولیت پر بہت ممنون ہیں اور انہوں نے 'یو این او سی 3' کے حوالے سے اپنے خیالات اور تجربات کے تبادلے کا موقع ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈونلون کا کہنا ہے کہ انہوں نے طلبہ کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ لوگوں کو سمندر کی جانب لائیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے سمندر پیٹر تھامسن سے رابطہ کیا ہے جنہوں نے اس کورس کو چلانے کا اختیار دیا اور وہ اس سے کام لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'یو این او سی 3' ایسی جگہ ہے جہاں سبھی جمع ہو کر سمندروں کے تحفظ سے متعلقہ موضوعات پر بات چیت کرتے اور اس ضمن میں ملکی سطح پر پالیسیاں بنانے کا کام لیتے ہیں۔
یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں اس کانفرنس میں سائنس کی بنیاد پر فیصلوں اور بات چیت سے زندگیوں اور معاشروں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کا تحفظ بھی ممکن ہو گا۔ پائیدار سمندر تعیش نہیں بلکہ لازمی ضرورت ہے۔ صاف نیلے سمندر کے بغیر سرسبز زمین کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔