7 اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہوگیا،اسرائیلی وزیراعظم ،ہنگامی عرب سربراہی اجلاس طلب
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام آباد /ریاض /قاہرہ /واشنگٹن /تل ابیب /غزہ (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان ‘سعودی عرب‘ مصر ‘ امارات نے نیتن یاہو کا فلسطینیوں کی بیدخلی کا بیان مسترد کردیا‘اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو گیا‘ ہنگامی عرب سربراہی اجلاس طلب کرلیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے کہا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ وہ اپنے ملک ’اسرائیل کی تباہی کے مرتکب کسی تنظیم کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اقتدار میں آئے‘ 7 اکتوبر کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو چکا ہے۔‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیویارک پوسٹ کو بتایا کہ وہ ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ’اگر ہم کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اسرائیل ان پر بمباری نہیں کرے گا۔‘صدر ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ وہ ایک معاہدہ چاہتے ہیں اور اس معاہدے کو ایران پر بمباری کرنے پر ’ترجیح‘ دیں گے۔امریکی صدر نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کے موضوعات کا ذکر نہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو یہ بتانا پسند نہیں کرتا کہ میں انھیں کیا بتانے جا رہا ہوں۔ یہ اچھا کام نہیں ہے۔‘امریکی صدر نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ ’وہ ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے جو وہ فی الحال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔غزہ کی صورتحال پر مصر کی میزبانی میں 27 فروری کو ہنگامی عرب سربراہی اجلاس منعقد ہوگا۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق مصری وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کا فیصلہ عرب ممالک بشمول فلسطین سے اعلیٰ سطح پر ہونے والی مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔ دوسری جانب غزہ سے فلسطینیوں کی اردن اور مصر میں جبری بے دخلی کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کے بعد مصری وزیر خارجہ بدر عبد العاطی امریکا روانہ ہوگئے ہیں۔اپنے دورے میں مصری وزیر خارجہ امریکی انتظامیہ اور اراکین سینیٹ سے ملاقاتیں کریں گے۔ دوسری جانب عرب میڈیا کا بتانا ہے کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے لبنان اور شام پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں6 لبنانی شہید ہوگئے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فورسز کے چھاپے جاری ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتریس کا کہنا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم مزید اموات اور تباہی کی طرف واپس نہیں جا سکتے۔یو این ریلیف چیف کے مطابق غزہ کے اسپتالوں کی تعمیر نو کے لیے مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ادھر 30 جنوری کو رہائی پانے والے5 تھائی شہری تھائی لینڈ پہنچ گئے۔غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر2023ء سے شروع ہونے والی غزہ جنگ میں اب تک 48 ہزار 11فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ ایک لاکھ 11ہزار 638 فلسطینی اسرائیلی حملوں میں زخمی ہوئے۔ حماس نے الزام عاید کیا ہے کہ اسرائیل امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے مکروہ کھیل کھیل رہا ہے۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن باسم نعیم نے بتایا ہے کہ حماس نے امریکا سمیت ثالثوں کو متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کی خلاف ورزیوں، امداد کی فراہمی میں تاخیر کے ساتھ ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ دریں اثنا ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حماس کے قائم سربراہ خلیل الحیا اور فلسطینی گروپ کے 2 دیگر رہنماؤں سے تہران میں ملاقات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطینی وفد سے کہا کہ ’آپ نے صیہونی حکومت کو شکست دی، جو درحقیقت امریکا کی شکست تھی، آپ نے انہیں ان کا کوئی مقصد حاصل نہیں کرنے دیا۔ فلسطینی وفد جس میں حماس کی قیادت کونسل کے سربراہ محمد درویش اور حماس کے اعلیٰ عہدیدار نذر عواد اللہ بھی شامل تھے، نے خامنہ ای کو غزہ اور مغربی کنارے کی موجودہ صورتحال اور حاصل کردہ فتوحات اور کامیابیوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی۔ غزہ میں جارحیت کے آغاز کے بعد اسرائیل نے اس اہم راہداری پر قبضہ کرکے جنوبی اور شمالی غزہ کو ایک دوسرے سے کاٹ دیا تھا، اسرائیلی انخلا کے بعد جنوبی اور شمالی غزہ کے درمیان نقل و حرکت آسان ہوگئی ہے، بے گھر فلسطینیوں نے اپنے گھروں کی جانب واپسی شروع کردی ہے۔الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج نے نیٹزاریم کوریڈور سے بفر زون تک انخلا کا عمل مکمل کر لیا ہے۔نیٹزاریم کوریڈور ایک ایسا علاقہ ہے جو گزشتہ 15 ماہ میں اسرائیلی فوج کا ایک بڑا اڈہ بن چکا تھا، اب یہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، یہاں کوئی عمارت باقی نہیں ہے، زیادہ تر زرعی زمین کو اسرائیلی فوج نے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ سعودی عرب میں فلسطین ریاست قائم کرنے سے متعلق اسرائیلی وزیراعظم کی بیان کو سعودی عرب نے سختی سے مسترد کر دیا۔سعودی وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صیہونی وزیراعظم کا فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کا بیان غزہ میں سنگین جنگی جرائم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی منظور نہیں، فلسطینیوں کو ان کا جائز حق مل کر رہے گا، یہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ امریکا نے اسرائیل کو 7 ارب ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا اعلان کردیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق محکمہ خارجہ نے کانگریس کے جائزے کے بغیر اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت کا اعلان کیا‘ اسرائیل کو فروخت کیے جانے والے اسلحہ میں ہزاروں ہیل فائر میزائل اور بم شامل ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کے ساتھ قابل قبول نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے بعد فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو اسرائیلی وزیراعظم فلسطینیوں کی امریکی صدر نے کہا کہ ایران کے کے مطابق کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
کس پہ اعتبار کیا؟
اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی
اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔
ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔
ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔
ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔
ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔
حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔
ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔
خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا