سندھ کے پانی پر کوئی معاہدہ نہیں کیا جائیگا،سردار محمد بخش
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)کارپوریٹ فارمنگ اور 6 نئے کینالز کے خلاف عوامی تحریک کا مکلی سے ٹھٹھہ تک پُرجوش مارچ، کینالز بنانا بند کرو، سندھ کو خشک ہونے سے بچاؤ، کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے ختم کرو، کینجھر پر قبضہ ختم کرو، ہالیجی جھیل پر قبضہ ختم کرو، کارونجھر کی کٹائی بند کرو، گورکھ کی فروخت بند کرو، کاچھو کے رہائشیوں کو بیدخل کرنا بند کرو” جیسے مطالبات والے پلے کارڈز اٹھائے خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کارپوریٹ فارمنگ اور 6 نئے کینالز کے خلاف پُرجوش نعرے بازی کی گئی۔ گرین کارپوریٹ انیشی ایٹو پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کو دی گئی زمینیں واپس لے کر مقامی بے زمین ہاریوں کو دینے کا مطالبہ کیا گیا۔مارچ سے خطاب کرتے ہوئے عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار، مرکزی نائب صدر حورالنسا پلیجو، سندھیانی تحریک کی مرکزی صدر عمرہ سموں، عوامی تحریک ضلع ٹھٹھہ کے صدر رزاق چانڈیو، مٹھا خان لاشاری اور گھنور خان زئورو دیگر رہنماؤں نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے ملک کے وجود پر حملہ ہیں اور سندھ، بلوچستان سمیت تمام مظلوم قوموں کی زمینوں اور وسائل پر قبضے کی سازش ہیں۔رہنماؤں نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کے ادارے کا قیام آئین کا قتل ہے، یہ قائداعظم کے جمہوری اصولوں کے خلاف ہے اور کانگریس کی مرکز پرست سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ملک کو 1940ء کی قرارداد کے بجائے جنرل ایوب کے ون یونٹ کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلاول اور شہباز کی اتحادی حکومت نے ملک میں بدترین آمریت مسلط کی ہے۔پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے میڈیا کو عدلیہ کی طرح قید کیا گیا ہے، پیکا ایکٹ ترمیمی بل آزادی اظہار پر پابندی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔رہنماؤں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو جھوٹے بیانات اور زبانی دعووں کے بجائے آئینی فورمز پر 6 نئے کینالز کو مسترد کرانا چاہیے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے لیے مولانا کے دربار تک جانے والا بلاول 6 نئے کینالز کے خلاف کیوں متحرک نہیں ہو رہا؟ بلاول اور آصفہ سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں 6 نئے کینالز کے خلاف قراردادیں کیوں منظور نہیں کروا رہے؟ بلاول کی مجرمانہ خاموشی ثابت کرتی ہے کہ وہ دریائے سندھ اور زمینیں فروخت کرکے وزیرِاعظم بننا چاہتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نئے کینالز کے خلاف کارپوریٹ فارمنگ کہا کہ
پڑھیں:
لیاقت آباد،فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں کا لوڈ شیڈنگ کیخلاف احتجاج،مرکزی شاہراہ بند
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-02-25
کراچی (اسٹاف رپورٹر) لیاقت آباد کے فرنیچر اور کپڑا مارکیٹ کے دکانداروں اور فرنیچر فیکٹری مالکان نے بجلی کی طویل اور بار بار ہونے والی لوڈ شیڈنگ کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہوئے ڈاکخانہ چورنگی سے لیاقت آباد نمبر 10 جانے والی مرکزی شاہراہ بند کردی، جس سے علاقے کی تجارتی زندگی اور ٹریفک بدستور معطل رہی۔ احتجاجی رہنماؤں اور دکانداروں کا مؤقف ہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بجلی کی غیر متوقع بندش نے فروخت، پیداواری عمل اور ملازمین کی موجودگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فرنیچر فیکٹریاں پیداوار روکنے پر مجبور ہیں اور کپڑے کے تاجروں نے کہا کہ گاہک بازار آنے سے خوفزدہ ہیں جس کے باعث روزانہ کا کاروبار دھڑام سے کم ہو گیا ہے۔ ایک نام ظاہر نہ کرنے والے دکاندار نے کہا ہم روزانہ کے اخراجات اور مزدوروں کی تنخواہوں کا حساب لگا کر چلتے ہیں۔ طویل لوڈ شیڈنگ کے سبب ہماری زندگیاں گُھٹ کر رہ گئی ہیں۔ مظاہرین نے انتظامی ٹیم کو متنبہ کیا کہ اگر مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا اور نقصانات کا ازالہ نہ کیا گیا تو احتجاج کو مزید تیزی سے وسعت دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی دکاندار جنریٹر چلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، جب کہ جنریٹر چلانے والوں پر ایندھن کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور گاہکوں کی آمد نہ ہونے کے باعث سرمایہ کاری کے اخراجات پورے نہیں ہو رہے۔ پولیس نے احتجاج کے دوران مرکزی شاہراہ پر نفری تعینات کی اور راستے کو خالی کرانے کی کوششیں کیں، تاہم چند گھنٹوں تک اہم راستہ بند رہا جس سے شہریوں کو جدوجہد کرنا پڑی۔ علاقہ مکینوں نے احتجاج کی حمایت بھی کی اور کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر لوڈ شیڈنگ کی طوالت بچوں، بزرگوں اور کاروبار کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ دکانداروں نے مطالبہ کیا کہ بجلی کی مستقل اور شیڈولڈ فراہمی کو یقینی بنایا جائے، متاثرہ تاجروں کو وقتی مالی امداد یا ریلیف پیکج دیا جائے۔ جن علاقوں میں فریکوئنسی/ٹرانسفارمر مسائل ہیں‘ ان کی فوری مرمت ہو، طویل مدتی حل کے لیے حکام اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات ہوں۔ حکومتی یا بجلی فراہم کرنے والے محکمے کی جانب سے تاحال احتجاج کے حوالے سے باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ پولیس نے کہا ہے کہ ہفتے کے اندر اگر حکام کو کوئی حل نہ ملا تو حالات کے مطابق احتجاج کو منطقی شکل دی جائے گی۔ شہریوں نے متبادل راستے اختیار کیے اور حکومتِ سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین اور دکانداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ متعلقہ محکموں سے باضابطہ میٹنگ کا انتظار کریں گے، بصورتِ دیگر احتجاج کو بڑھائیں گے۔