خط کے چرچے، خط کا جواب، یوم سیاہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
ملک کے طول و ارض میں خان اور ان کے سہولت کاروں کے خطوط کے چرچے، گزشتہ دنوں خان کا ایک خط سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ذریعے منظر عام پر آیا اور اب تک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ بنیادی سوال کس کے ایڈریس پر بھیجا؟ کسی نے دیکھا پڑھا نہ سنا، کیسا جواب کس کو جواب ’’ایک طویل خامشی سب کے جواب میں‘‘ مخصوص شخصیت کے نام ہوتا تو بھی قاصد کو کہہ کر لوٹا دیا جاتا جہاں سے لائے ہو وہیں لے جائو، طاقت کے مرکز میں زیرک لوگ بیٹھے ہیں۔ ’’خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر‘‘ مگر خط کسی کے ہاتھ نہ آیا، خان کے بیرون ملک سے ہینڈل کیے جانے والے ٹوئٹر ایکس کے ذریعہ ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز اور ہر معاملہ میں اپنی رائے مسلط کرنے کے شوقین مزاج ویلاگرز اور تجزیہ کاروں کے ہاتھ آ گیا، جو ہفتہ بھر اسی خط کو پیٹتے رہے، جن کے نام لکھا گیا ان کی طرف سے کھلے خط کا کھلا جواب ہمیں اس خط سے کوئی دلچسپی نہیں، ہمیں ملا ہی نہیں جواب کیوں دیں، بین السطور جواب آیا کہ ہماری طرف سے جواب ہی سمجھیں، خط لکھنے والے مایوس اور بے چین دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئیں، تب شکایات اور منت سماجت سے بھرا دوسرا خط بھی سامنے آ گیا۔ غالب کے ساتھ بھی ایسی ہی واردات ہوئی تھی۔ محبوب نے ہر بار دھتکار دیا تو خطوط نویسی پر اتر آئے، قاصد کے آتے آتے خط اور لکھ رکھوں، میں جانتا ہوں کیا وہ کہیں گے۔ جواب میں خان کو بھی خطوط نویسی کا چسکا پڑ گیا۔ کیا بُرا چسکا ہے۔ آدمی کہیں کا نہیں رہتا، گنڈا پور کے ذریعے زبانی پیغامات بھیجے بقول نصیر ترابی ’’عبارتیں تھیں تغافل تھا رنجشیں تھیں مگر، بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا بے وفائی نہ تھی‘‘ قاصد عقل و فہم سے عاری، بڑھکیں مارنے کا عادی، بے اعتبار ٹھہرا، ڈبل گیم پکڑی گئی۔ پارٹی کی صدارت گئی، کرپشن کی تحقیقات شروع، الٹی آنتیں گلے پڑیں، طویل چارج شیٹ تیار، اثاثے11 کروڑ، اسلام آباد حملوں کے لیے 56 کروڑ کہاں سے دئیے صوابی جلسہ کے لیے 50 لاکھ کہاں سے آئے، جیل میں ڈانٹ پڑی، باہر رابطے منقطع، اختیارات سے محروم، جنید اکبر بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فی الحال ان کی جانب سے بھی بڑھکوں کی ابتدا ہوئی ہے۔ 26 بار ’’جی سر‘‘ کہنے میں کچھ وقت لگے گا، کیسے؟ سر جی کہلانے والوں کا اٹل فیصلہ ہے کہ سسٹم نے چلنا ہے خان کو طویل عرصہ جیل میں رہنا ہے ’’آزمودہ را آزمودن خطا است‘‘ کہیں سے طوفان کے تھپڑوں کا خطرہ نہیں، ادھر خان مایوس ہیں نا امید نہیں، میڈیا والوں سے کہا ’’جلد باہر آ رہا ہوں‘‘ کسی نے نہیں پوچھا کیسے باہر آئیں گے، جیل سے بنی گالہ تک کوئی سرنگ کھود لی ہے یا کوئی طیارہ جیل کے گیٹ نمبر 5 پر تیار کھڑا ہے۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی مگر چہرہ بتا رہا ہے کہ تمام راستے اور دروازے کھڑکیاں بند ہو گئی ہیں۔ مذاکرات ناکام ہو گئے۔ کوئی مطالبہ پورا نہیں ہوا تو 8 فروری کو یوم سیاہ منانے کی کال دے دی، صوابی جلسے میں لاکھوں افراد ہونے چاہئیں تاکہ پھر اسلام آباد کا رخ کیا جائے۔ صوابی جلسہ میں بڑی تعداد میں لوگ لائے گئے، گنڈا پور نے ریاست پر تھو تھو کی، جنید اکبر نے گولیوں کی دھمکی دی۔ تند و تیز تقریریں، تقریروں سے کہیں انقلاب آتے ہیں کارکنوں کو 26 نومبر کو بڑی پھینٹی لگی ہے وہ اسلام آباد کی ’’سیر‘‘ کو نہیں آئیں گے۔ ’’صوابی کے جلسہ پر ہو جن کی امید، نا امیدی ان کی دیکھنا چاہیے‘‘ ملک بھر میں کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا، اسلام آباد پُرسکوں، سندھ بلوچستان اور پنجاب خاموش۔ پنڈی، ملتان میں جلوس نکلا جاوید ہاشمی کے داماد، مہر بانو سمیت چند گرفتاریاں ہوئیں، لاہور والے نیوزی لینڈ کا میچ دیکھتے رہے، یہ کال بھی بیکار گئی یوم سیاہ کے مقابلے میں حکومت نے یوم تعمیر و ترقی منایا جس میں کہا گیا کہ مشکل حالات، سیاسی انتشار اور ان گنت رکاوٹوں کے باوجود ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑی معیشت ایک سال میں ترقی کی راہ پر گامزن تمام اہداف حاصل کر لیے، برآمدات میں 5 ارب ڈالر کا اضافہ، ترسیلات زر بڑھ گئے مہنگائی کی شرح 34 فیصد سے گھٹ کر سنگل ڈیجیٹ میں آ گئی، آرمی چیف کی حکومت کو تھپکی ’’مجھے پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل پر کامل یقین ہے‘‘ حکومت کے پائوں اس تھپکی سے مزید مضبوط ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے پائوں اکھڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ خان نے مار دھاڑ کی کال حالات کا بغور جائزہ
لینے کے بعد دی ہے۔ 10 فروری کو جوڈیشل کمیشن کا اجلاس وکلاء نے ہڑتال کی کال دی تھی مال روڈ کی بلڈنگ والے دھرنے کی کال ناکام ہو گئی۔ ججوں نے بھی خط لکھنا شروع کر دئیے آئینی بحران آئینی طوفان میں بدلنے کا خطرہ ہے۔ 12، 13 فروری کو ترک صدر آ رہے ہیں۔ 19 فروری سے چیمپیئنز ٹرافی کے میچز شروع ہو رہے ہیں۔ ان دنوں جلسے جلوس مظاہرے، کنٹینر، آنسو گیس، غلیلیں، جلائو گھیرائو، فائرنگ، لاشوں کی تلاش، تازہ قبروں سے لاشیں نکال کر 268 کی تعداد پوری کرنے کی کوششیں کامیاب ہوں گی یا 26 نومبر جیسا حال ہو گا۔ اللہ ہمارے پیارے خان پر رحم کرے بُرے دن آ رہے ہیں جی ایچ کیو حملہ کیس میں 34 ہزار صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹس اور ہر ملزم کے خلاف 118 مشاہداتی سیٹ پیش کیے گئے ہیں ادارے کیس کے بارے میں سنجیدہ ہیں۔ جیل سے باہر گینگ آف فائیو سمیت 80 ارکان گزشتہ 11 ماہ کے دوران تنخواہوں کی مد میں 21 کروڑ 19 لاکھ 49 ہزار 707 روپے اور ٹی اے ڈی اے کے سلسلے میں 14 کروڑ 22 لاکھ 57 ہزار 914 روپے وصول کر چکے، تنخواہوں میں ماہانہ ڈھائی تین لاکھ اضافہ کارکردگی کیا ہے۔ گیدڑوں جیسی آوازیں، پلے کارڈز کی نمائش، تقریروں میں ذاتی حملے سپیکر ڈائس کا گھیرائو، شام سے رات 12 بجے تک ٹی وی سکرینوں پر تند و تیز تبصرے جمہوریت سے دلچسپی نہ قانون سازی میں کوئی کردار 50 سے زائد ارکان اسمبلی رجسٹر میں حاضری لگا کر غائب ہو جاتے ہیں مزے آ رہے ہیں خان کی رہائی کوئی نہیں چاہتا۔ اک شور قیامت ہے کہ خان آئندہ دو ماہ میں جیل سے باہر ہوں گے۔ خان نے دوسرے خط میں اپنے ہارڈ لائنرز اور سر پر کفن باندھ کر اسلام آباد آنے والوں سے کہا ہے کہ اسلام آباد والوں سے آئندہ انتخابات کی تاریخ لے کر واپس پلٹیں، سسٹم نے عوام میں جڑیں مضبوط بنا لی ہیں کوئی تاریخ نہیں دے گا، خان کے باہر آنے کی خبر درست ہے تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کیوں خاموش ہے۔ سہولت کار پچھلی صفوں میں کیوں دھکیلے جا رہے ہیں خان کے جان سے پیارے لیکن خون کے پیاسے ویلاگرز بیرون ملک کیوں فرار ہو رہے ہیں حکومت اور طاقت ور اسٹیبلشمنٹ ایسے لیڈر کو دوبارہ گود کیوں لے گی جس نے 45 ہزار فلسطینیوں کے قتل عام پر اسرائیل کی مذمت میں ایک لفظ نہ کہا 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر پر پی ٹی آئی کی ایک ریلی نہ نکلی لیکن پھینٹی کھانے اسلام آباد آنے کیلئے بے تاب ہیں جنہیں آنے والے حالات کا پتا ہے وہ مطمئن ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: اسلام آباد فروری کو رہے ہیں کی کال
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)