Nai Baat:
2025-11-03@06:09:57 GMT

آرٹیکل 200 اور سیاسی ہنگامہ

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

آرٹیکل 200 اور سیاسی ہنگامہ

رواں ماہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد لاہور، بلوچستان، سندھ ہائیکورٹس سے تین ججز جن میں جسٹس محمد سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائی کورٹ تبادلہ کر دیا گیا۔ ہائیکورٹ ججز کی دوسری ہائیکورٹ ٹرانسفر پر ہیجانی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور اس امر کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ خود اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے اس اقدام کو غیر قانونی اور آئین سے فراڈ قرار دیا۔ کہیں چند وکلاء اور چند وکلاء تنظیمیں حکومتی اقدام کی مذمت کر رہی ہیں تو کہیں ججز کی عاشق معشوق خط و کتابت میڈیا کی زینت بن رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایک جج اور نئے نویلے خط لکھنے والے سپریم کورٹ کے چار ججوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ٹرانسفر ہونے والے ججوں کے لیے دوبارہ سے حلف اُٹھانا لازم ہے۔ یاد رہے کہ آئینی عہدیداران و اداروں کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی نوٹیفیکیشن/ حکم نامہ/ہدایت نامہ کے ساتھ آئینی و قانونی شق کا حوالہ دینا لازم قرار پاتا ہے۔ اب ہائیکورٹ ججز تبادلوں کے نوٹیفکیشن کا مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر درج ہے کہ صدر مملکت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 200 کے تابع ججز کا تبادلہ کیا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا کہ کیا آئین میں آرٹیکل 200 کا اضافہ یا اس آرٹیکل میں ترامیم 26 ویں آئینی ترمیم کی بدولت ہوئی ہیں۔ یا پھر یہ آرٹیکل 1973 ہی سے آئین کا حصہ ہے؟ اسکا سادہ اور آسان سا جواب یہی ہے کہ آرٹیکل 200 اسی دن سے آئین کا حصہ ہے جس دن سے آئین نافذ العمل ہوا۔ آرٹیکل 200 کیا ہے؟ آرٹیکل 200 کے مطابق: صدر، ہائیکورٹ کے کسی جج کو ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں منتقل کر سکتا ہے، لیکن کسی جج کو اس کی رضامندی کے بغیر اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کے بغیر تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں، جج سے مراد ہائیکورٹ کا جج جبکہ چیف جسٹس (ہائیکورٹ) نہیں ہے مگر ہائیکورٹ کا ایسا جج جو قائم مقام چیف جسٹس ہائیکورٹ کے طور ذمہ داریاں ادا کر رہا ہو۔ جہاں کسی جج کو ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ کے علاوہ کسی اور جگہ پر جج کے علاوہ کسی اور عہدے پر تعینات کیا جاتا ہے، تو وہ اس مدت کے دوران جس کے لیے وہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر کام کرتا ہے جس میں اس کا تبادلہ ہوا ہے، یا اس طرح کے دوسرے عہدے پر فائز ہے، اس کی تنخواہ کے علاوہ الاؤنسز اور مراعات کا حقدار ہو گا جسکا تعین صدارتی حکم نامے کے ذریعہ کیا جائے گا۔ اس آرٹیکل میں ہائی کورٹ سے مراد ہائی کورٹ کا کوئی بھی بینچ ہے۔
محترم قارئین! اُمید ہے آرٹیکل 200 کے مطالعہ سے یہ بات تو طے ہو چکی ہو گی کہ حال ہی میں ہائیکورٹ ججز تبادلوں کا عمل کسی طور پر غیرآئینی و غیر قانونی یا فراڈ نہیں ہے۔ بلکہ یہ اقدام عین آئین کے مطابق ہے۔ اب یہاں پھر اک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخ میں اس سے پہلے بھی کبھی ہائیکورٹ ججز کے تبادلے ہوئے ہیں۔ جی بالکل تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سابق چیف جسٹس صاحبان، جن میں جسٹس سردار محمد اسلم سال 2003 تا فروری 2008 تک لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج فرائض انجام دیتے رہے پھر 9 فروری 2008 اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنا دیئے گئے۔ جسٹس اقبال حمید الرحمان 2006 لاہور ہائیکورٹ میں جج تعینات ہوئے اور جنوری 2011 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ اسی طرح جسٹس بلال خان بھی 2008 تک لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج فرائض سرانجام دیتے رہے اسکے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعینات کیے گئے۔
یہاں اک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں جج تعینات ہونے کے لیے جج کا اسلام آباد کا ڈومیسائل ہونا لازم ہے؟ اسکا جواب اسلام آباد ایکٹ، 2010 کے سیکشن 3 میں موجود ہے: جسکے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ ایک چیف جسٹس اور دیگر ججوں پر مشتمل ہو گی جو آئین کے مطابق پاکستان کے صوبوں اور دیگر علاقوں سے مقرر کیے جائیں گے۔

ججز تبادلوں پر معترض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ آئین و قانون میں ٹرانسفر کی اجازت تو ہے مگر چونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کو ٹرانسفر کرنے کا اقدام حکومت کی بدنیتی یعنی موجودہ ججز کو کنٹرول کرنا ہے تو اسکا سادہ سا جواب یہی بنتا ہے کہ جب ججز آئین و قانون میں درج اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر سیاست کرنا شروع کریں گے تو پھر سیاستدانوں کے پاس سوائے سیاست کرنے کے کوئی چارہ نہیں ہو گا کیونکہ سیاست کرنا تو پھر سیاستدانوں کا ہی کام ہے نا کہ معزز جج صاحبان کا۔

بحیثیت قانون و سیاست کے طالب علم، میں اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ کسی بھی معاملے پر میں نہ مانوں والی سیاست و بیان بازی اور خط و کتابت سے پہلے آئین و قانون میں درج شقوں کا مطالعہ کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ اور یہ بات کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ معزز جج صاحبان کو خط و کتابت اور بیان بازی کرنے سے پہلے آئین پاکستان کا ازسر نو مطالعہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ اسلام ا باد ہائی ہائیکورٹ ججز ہائیکورٹ میں ہائیکورٹ کے ہائی کورٹ ا رٹیکل 200 کے مطابق چیف جسٹس کورٹ کے پیدا ہو

پڑھیں:

سپریم کورٹ: پاراچنار حملہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

سپریم کورٹ میں پاراچنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواستِ ضمانت پر سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔

عدالت نے ملزم کو وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

سماعت کے دوران سی ٹی ڈی کے وکیل نے بتایا کہ پاراچنار قافلے پر حملے میں 37 افراد جاں بحق اور 88 زخمی ہوئے تھے۔

اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس واقعے میں صرف ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے؟

انہوں نے مزید سوال کیا، ’جو حملہ آور پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟‘

وکیل سی ٹی ڈی نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث 9 افراد کی ضمانت سپریم کورٹ پہلے ہی خارج کر چکی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے موجودہ صورتِ حال پر استفسار کیا کہ:

اب راستے کھل گئے ہیں؟

وکیل سی ٹی ڈی نے جواب دیا کہ صبح 9 بجے سے دوپہر 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا:

جہاں پاراچنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔

عدالت نے بعد ازاں ملزم کو قانونی معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • تاجکستان سے بھارتی فوج کی بے دخلی، آینی ایئربیس کا قبضہ کھونے پر بھارت میں ہنگامہ کیوں؟
  • سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل
  • نئی گاج ڈیم کی تعمیر کا کیس،کمپنی کے نمائندے آئندہ سماعت پر طلب
  • توہین عدالت میں توہین ہوتی ہے تشریح نہیں ،عدالت عظمیٰ
  • نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: غیر قانونی گیسٹ ہاؤسز اور ہاسٹلز کیخلاف سی ڈی اے کو کارروائی کی اجازت
  • عمران، بشریٰ کو سزا سنانے والے جج کی تعیناتی کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
  • بلوچستان ہائیکورٹ میں 2 ایڈیشنل ججز کی تقرری کے لیے نامزدگیاں طلب
  • سپریم کورٹ: پاراچنار حملہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی
  • 190 ملین پاؤنڈ: سیشن جج کی تعیناتی چیلنج کرنے کا کیس نومبر کے دوسرے ہفتے میں لگانے کی ہدایت