Nai Baat:
2025-11-03@17:56:54 GMT

مکہ معظمہ میں !!!

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

مکہ معظمہ میں !!!

شہر نبویؐ میں اتنے دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔آخر کار یہاں سے رخصت ہونے کا دن آ ن پہنچا ۔میں نے مسجد نبویؐ میں نماز ظہر ادا کی۔ جلد یہاں دوبارہ آنے کی دعا مانگی۔ پیارے نبی ؐ کی مسجد پر ایک الوداعی نگاہ ڈالی اور ہوٹل کی سمت چل پڑی۔ وقت مقررہ پر کوچ آئی اور ہم دونوں اس میں سوار ہوکر اس مبارک شہر سے روانہ ہو گئے۔شہر نبویؐ کو خدا حافظ کہتے وقت دل اداس تھا، تاہم اس بات کی خوشی تھی کہ ہم مکہ مکرمہ جارہے ہیں۔کوچ پاکستانی زائرین سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ دیر سفر کے بعد ہم میقات پر پہنچ گئے۔ میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والے زائرین احرام باندھتے ہیں۔بس کنڈکٹر نے مائیک پر سواریوں کو کچھ ہدایات دیں۔ سب کو آدھ گھنٹے کا وقت دیا کہ احرام باندھ کر واپس آ جائیں۔ میں اور فہد صاحب بھی بس سے اترے۔ مسجد کے غسل خانوں اور وضو خانوں کے باہر خلق خدا کا ہجوم تھا ۔ وضو کرنے، احرام باندھنے اور نوافل کی ادائیگی کے بعد ہم واپس بس میں آن بیٹھے۔ کچھ دیر انتظار کے بعدسب مسافر واپس آ گئے تو بس چل پڑی۔ بس میں لبیک ، اللھم لبیک ، کے ورد کی آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔ راستے میں ہم بھی تلبیہ کا ورد کرتے رہے۔ تلبیہ کا ترجمہ ہے کہ ـ، ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، میں حاضر ہوں، بے شک حمد و ستائش ِ، نعمتیں اور فرماروائی تیرے ہی لئے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ تلبیہ پڑھنے کی نہایت فضیلت ہے۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان یہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیںزمین کے آخری کونے تک تمام پتھر ، درخت اور مٹی کے ذرے بھی تلبیہ پڑھتے ہیں۔ بذریعہ بس مدینہ سے مکہ جانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔راستے میں دو تین مرتبہ مختصر پڑاو کرنا پڑتا ہے۔ گھنٹوں سفر کے بعد ، مغرب کے وقت بس ایک پاکستانی ہوٹل کے سامنے رک گئی۔ یہاں بھی کنڈکٹر نے ہدایت جاری کی کہ آدھ ، پون گھنٹہ بعد سب لوگ بس میںواپس آجائیں۔ سب مسافروں نے یہاں کھانا کھایا۔ چائے پی۔ نماز پڑھی۔ اور بس میں آن بیٹھے۔ بس ایک مرتبہ پھر روانہ ہوگئی ۔ تازہ دم مسافر اب گفتگو میں مصروف تھے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے کچھ پٹھان مسافر اپنے موبائل پر سیاسی حالات حاضرہ کی خبریں سننے لگے۔ پھر وہ با آواز بلند ملکی سیاست پر بات کرنے لگے۔ قومی سیاست سے مجھے نہایت دلچسپی ہے۔ تجسس سے مجبور میں نے بھی اس عوامی گفتگو پر کان کھڑے کر لئے۔ ان مسافروںکی سیاسی پسند میرے سیاسی خیالات سے مطابقت رکھتی تھی۔میں کافی دیر دلچسپی سے ان کی گفتگو سنتی رہی اور پھر میری آنکھ لگ گئی۔

طویل سفر کے بعد بس مکہ مکرمہ کی حدود میں داخل ہو گئی۔ بخیر و عافیت یہاں تک پہنچنے پر میں نے دل میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ اس روئے زمین پر واقع کوئی شہر، کوئی جگہ، کوئی مقام مکہ مکرمہ سے زیادہ برکت اور فضیلت والا نہیں ہے۔اس شہر کی حرمت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہاں میرے رب کا گھر یعنی بیت اللہ قائم ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں مکہ کی فضیلت کا بیان ملتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ البلد میں اللہ پاک نے اس شہر کی حرمت کی قسم اٹھائی ہے۔ کتنا مبارک ہے یہ شہر جسے میرے رب نے میرے پیارے نبیؐ کی پیدا ئش کیلئے پسند فرمایا۔ یہیں میرے حضورؐ کا بچپن گزرا۔ یہاں آپؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اس شہر میں آپ ؐ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ یہاں حضور ؐ نے اپنی زندگی کے کم و بیش 53 برس گزارے۔ چالیس برس کی عمر میں حضورؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے تیرہ برس تک اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اس عرصہ میں کفار مکہ حضور کو ہر طرح کے ذہنی اور جسمانی مصائب سے دوچار کرنے کیلئے کوشاں رہے۔ آخر کار ایک دن حضرت جبرائیل ؑ نے حضور ؐ تک اللہ کا پیغام پہنچایا کہ آپ یہاں سے ہجرت فرما جائیں۔اللہ کے حکم پر حضورؐ نے اس شہر سے ہجرت فرمائی۔

شہر مکہ سے حضورؐ کو نہایت محبت اور عقیدت تھی۔ مدینہ آنے کے بعد بھی آپ ؐ مکہ کو یاد فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ نے اللہ رب العزت کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ، اے مکہ، تو اللہ تعالی کی ساری زمین سے افضل اور اللہ کو ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکل جانے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں ہرگز نہ جاتا۔ مکہ کے امن کیلئے حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی۔ قرآن پاک کی سورۃ بقرہ میں اس دعا کا ذکر ہے کہ اے پروردگار! اس شہر کو پر امن بنا دے۔ مکہ واقعتا ایک پر امن شہر ہے۔ حرم کی حدود میں ہر ایک کو امان حاصل ہے۔ صرف انسانوں کو نہیں، حیوانات کو بھی۔ حرم مکہ میں شکار کی ممانعت ہے۔

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد بس نے تمام مسافروں کو باری باری مختلف ہوٹلوں کے سامنے اتارنا تھا۔ کچھ مسافروں کے ہوٹل حرم شریف کے نہایت قریب تھے، کچھ کے دور اور کچھ کے کافی دور۔ ہمارا ہوٹل حرم کے قریب تھا، لہٰذا ہماری باری کافی بعد میں آئی۔ مجھے یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کا رویہ مسافروں کے ساتھ مناسب نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہیں۔ مدینہ میں مختلف ہوٹلوں کے آگے سے مسافروں کو سوار کرتے وقت بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ ابھی مسافر اپنی سیٹ پر بیٹھتا بھی نہیں تھا کہ ڈرائیور بس چلا دیتا۔ ایک بوڑھا مرد اور ایک خاتون جس نے بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا وہ گرتے گرتے بچے۔ اس موقع پر مجھے کنڈکٹر سے کہنا پڑا کہ وہ خواتین اور بوڑھے مسافروں کا تو کچھ لحاظ کرئے۔ مسافروں اور کنڈکٹر کے درمیان کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ مکہ میں بھی ڈرائیور مسافروں کو ہوٹل سے دور اتارتا رہا۔ مسافر اس پر احتجاج کرتے رہے۔ کسی کو بھاری بھرکم سامان سمیت سڑک کے دوسری طرف اتار کر مشورہ دیتا کہ آگے ٹیکسی لے کر جائیں۔عمرہ کے تمام سفر میں یہ ایک افسوسناک تجربہ تھا جس سے مجھے دوچار ہونا پڑا۔بعد ازاں میں نے متعلقہ نمبروں پر بس کے عملے کی شکایت بھی کی۔ تاکہ آئندہ وہ اپنے رویے سے باز رہیں۔ عمرہ کے بعد مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستانی عملے کا عمومی رویہ یہی ہے۔
بہرحال اپنا ہوٹل آنے پر ہم بھی بس سے اترے۔ ہوٹل اچھا تھا۔ حرم کے قریب تھا۔ ہم پیدل چل کر حرم میں جا سکتے تھے۔ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ہوٹل کی بسیں بھی حرم جاتیں اور وہاں سے واپس آتیں۔ یعنی آمدورفت کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس طویل سفر نے ہمیں تھکا دیا تھا۔ لہٰذا فوری طور پر حرم جانے کی ہمت نہیں تھی۔ ہم نے عشاء کی نماز ہوٹل کے کمرے میں ہی اداکی ۔ سوچا کہ پہلے چند گھنٹے آرام کرتے ہیں ۔انشااللہ تہجد کے وقت حرم شریف میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کریں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مکہ مکرمہ کے بعد واپس ا

پڑھیں:

پاکستان کی سفارتی کامیابیاں دنیا تسلیم کرتی ہے، عطاء اللہ تارڑ

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے ”پاکستان کی سفارتی کامیابیاں“ کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوشش اور محنت سے ہم نے سفارتی محاذ پر نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، اور اس میدان میں خدمات انجام دینے والے تمام افسران قوم کا فخر ہیں۔

عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان کی فارن سروس دنیا کی بہترین سروسز میں شمار ہوتی ہے، جس کی عظیم روایات ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سفارت کاری محض ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک فن ہے جو تجربے، صبر اور محنت سے پروان چڑھتا ہے۔ “مجھے فخر ہے کہ ہماری فارن سروس نے ہمیشہ پاکستان کا نام عالمی سطح پر بلند کیا”، وزیر اطلاعات نے کہا۔

انہوں نے اس موقع پر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے، مگر اس کے باوجود ملک پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات لگائے گئے۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ پہلگام واقعہ کے فوراً بعد بھارت نے بلا جواز پاکستان پر الزام تراشی کی، حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ دوست ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں پوری دنیا سے ہمیں بھرپور حمایت حاصل ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نے بھارت کو پہلگام واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی۔

عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے اپنے سے چار گنا بڑی طاقت کو شکست دی، اور ہماری مسلح افواج نے دشمن کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فضائیہ کا کردار معرکہ حق میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔

وزیر اطلاعات نے انکشاف کیا کہ ہماری کوسٹ گارڈ نے بھارت کے لیے جاسوسی کرنے والے ایک ملاح کو گرفتار کیا جس نے بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کی پوری کہانی دنیا کے سامنے بیان کی۔ عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ بھارت ہمیشہ کی طرح پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، لیکن قوم متحد ہے اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے : عطاء اللہ تارڑ
  • بھارت ابھی تک پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے، عطا اللہ تارڑ
  • 13 آبان استکبارستیزی اور امریکہ کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے، حوزه علمیہ قم
  • پاکستان کی سفارتی کامیابیاں دنیا تسلیم کرتی ہے، عطاء اللہ تارڑ
  • تجدید وتجدّْ
  • خوبصورت معاشرہ کیسے تشکیل دیں؟
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ