Nai Baat:
2025-09-18@14:51:09 GMT

مکہ معظمہ میں !!!

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

مکہ معظمہ میں !!!

شہر نبویؐ میں اتنے دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔آخر کار یہاں سے رخصت ہونے کا دن آ ن پہنچا ۔میں نے مسجد نبویؐ میں نماز ظہر ادا کی۔ جلد یہاں دوبارہ آنے کی دعا مانگی۔ پیارے نبی ؐ کی مسجد پر ایک الوداعی نگاہ ڈالی اور ہوٹل کی سمت چل پڑی۔ وقت مقررہ پر کوچ آئی اور ہم دونوں اس میں سوار ہوکر اس مبارک شہر سے روانہ ہو گئے۔شہر نبویؐ کو خدا حافظ کہتے وقت دل اداس تھا، تاہم اس بات کی خوشی تھی کہ ہم مکہ مکرمہ جارہے ہیں۔کوچ پاکستانی زائرین سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ دیر سفر کے بعد ہم میقات پر پہنچ گئے۔ میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والے زائرین احرام باندھتے ہیں۔بس کنڈکٹر نے مائیک پر سواریوں کو کچھ ہدایات دیں۔ سب کو آدھ گھنٹے کا وقت دیا کہ احرام باندھ کر واپس آ جائیں۔ میں اور فہد صاحب بھی بس سے اترے۔ مسجد کے غسل خانوں اور وضو خانوں کے باہر خلق خدا کا ہجوم تھا ۔ وضو کرنے، احرام باندھنے اور نوافل کی ادائیگی کے بعد ہم واپس بس میں آن بیٹھے۔ کچھ دیر انتظار کے بعدسب مسافر واپس آ گئے تو بس چل پڑی۔ بس میں لبیک ، اللھم لبیک ، کے ورد کی آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔ راستے میں ہم بھی تلبیہ کا ورد کرتے رہے۔ تلبیہ کا ترجمہ ہے کہ ـ، ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، میں حاضر ہوں، بے شک حمد و ستائش ِ، نعمتیں اور فرماروائی تیرے ہی لئے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ تلبیہ پڑھنے کی نہایت فضیلت ہے۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان یہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیںزمین کے آخری کونے تک تمام پتھر ، درخت اور مٹی کے ذرے بھی تلبیہ پڑھتے ہیں۔ بذریعہ بس مدینہ سے مکہ جانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔راستے میں دو تین مرتبہ مختصر پڑاو کرنا پڑتا ہے۔ گھنٹوں سفر کے بعد ، مغرب کے وقت بس ایک پاکستانی ہوٹل کے سامنے رک گئی۔ یہاں بھی کنڈکٹر نے ہدایت جاری کی کہ آدھ ، پون گھنٹہ بعد سب لوگ بس میںواپس آجائیں۔ سب مسافروں نے یہاں کھانا کھایا۔ چائے پی۔ نماز پڑھی۔ اور بس میں آن بیٹھے۔ بس ایک مرتبہ پھر روانہ ہوگئی ۔ تازہ دم مسافر اب گفتگو میں مصروف تھے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے کچھ پٹھان مسافر اپنے موبائل پر سیاسی حالات حاضرہ کی خبریں سننے لگے۔ پھر وہ با آواز بلند ملکی سیاست پر بات کرنے لگے۔ قومی سیاست سے مجھے نہایت دلچسپی ہے۔ تجسس سے مجبور میں نے بھی اس عوامی گفتگو پر کان کھڑے کر لئے۔ ان مسافروںکی سیاسی پسند میرے سیاسی خیالات سے مطابقت رکھتی تھی۔میں کافی دیر دلچسپی سے ان کی گفتگو سنتی رہی اور پھر میری آنکھ لگ گئی۔

طویل سفر کے بعد بس مکہ مکرمہ کی حدود میں داخل ہو گئی۔ بخیر و عافیت یہاں تک پہنچنے پر میں نے دل میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ اس روئے زمین پر واقع کوئی شہر، کوئی جگہ، کوئی مقام مکہ مکرمہ سے زیادہ برکت اور فضیلت والا نہیں ہے۔اس شہر کی حرمت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہاں میرے رب کا گھر یعنی بیت اللہ قائم ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں مکہ کی فضیلت کا بیان ملتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ البلد میں اللہ پاک نے اس شہر کی حرمت کی قسم اٹھائی ہے۔ کتنا مبارک ہے یہ شہر جسے میرے رب نے میرے پیارے نبیؐ کی پیدا ئش کیلئے پسند فرمایا۔ یہیں میرے حضورؐ کا بچپن گزرا۔ یہاں آپؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اس شہر میں آپ ؐ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ یہاں حضور ؐ نے اپنی زندگی کے کم و بیش 53 برس گزارے۔ چالیس برس کی عمر میں حضورؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے تیرہ برس تک اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اس عرصہ میں کفار مکہ حضور کو ہر طرح کے ذہنی اور جسمانی مصائب سے دوچار کرنے کیلئے کوشاں رہے۔ آخر کار ایک دن حضرت جبرائیل ؑ نے حضور ؐ تک اللہ کا پیغام پہنچایا کہ آپ یہاں سے ہجرت فرما جائیں۔اللہ کے حکم پر حضورؐ نے اس شہر سے ہجرت فرمائی۔

شہر مکہ سے حضورؐ کو نہایت محبت اور عقیدت تھی۔ مدینہ آنے کے بعد بھی آپ ؐ مکہ کو یاد فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ نے اللہ رب العزت کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ، اے مکہ، تو اللہ تعالی کی ساری زمین سے افضل اور اللہ کو ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکل جانے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں ہرگز نہ جاتا۔ مکہ کے امن کیلئے حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی۔ قرآن پاک کی سورۃ بقرہ میں اس دعا کا ذکر ہے کہ اے پروردگار! اس شہر کو پر امن بنا دے۔ مکہ واقعتا ایک پر امن شہر ہے۔ حرم کی حدود میں ہر ایک کو امان حاصل ہے۔ صرف انسانوں کو نہیں، حیوانات کو بھی۔ حرم مکہ میں شکار کی ممانعت ہے۔

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد بس نے تمام مسافروں کو باری باری مختلف ہوٹلوں کے سامنے اتارنا تھا۔ کچھ مسافروں کے ہوٹل حرم شریف کے نہایت قریب تھے، کچھ کے دور اور کچھ کے کافی دور۔ ہمارا ہوٹل حرم کے قریب تھا، لہٰذا ہماری باری کافی بعد میں آئی۔ مجھے یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کا رویہ مسافروں کے ساتھ مناسب نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہیں۔ مدینہ میں مختلف ہوٹلوں کے آگے سے مسافروں کو سوار کرتے وقت بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ ابھی مسافر اپنی سیٹ پر بیٹھتا بھی نہیں تھا کہ ڈرائیور بس چلا دیتا۔ ایک بوڑھا مرد اور ایک خاتون جس نے بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا وہ گرتے گرتے بچے۔ اس موقع پر مجھے کنڈکٹر سے کہنا پڑا کہ وہ خواتین اور بوڑھے مسافروں کا تو کچھ لحاظ کرئے۔ مسافروں اور کنڈکٹر کے درمیان کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ مکہ میں بھی ڈرائیور مسافروں کو ہوٹل سے دور اتارتا رہا۔ مسافر اس پر احتجاج کرتے رہے۔ کسی کو بھاری بھرکم سامان سمیت سڑک کے دوسری طرف اتار کر مشورہ دیتا کہ آگے ٹیکسی لے کر جائیں۔عمرہ کے تمام سفر میں یہ ایک افسوسناک تجربہ تھا جس سے مجھے دوچار ہونا پڑا۔بعد ازاں میں نے متعلقہ نمبروں پر بس کے عملے کی شکایت بھی کی۔ تاکہ آئندہ وہ اپنے رویے سے باز رہیں۔ عمرہ کے بعد مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستانی عملے کا عمومی رویہ یہی ہے۔
بہرحال اپنا ہوٹل آنے پر ہم بھی بس سے اترے۔ ہوٹل اچھا تھا۔ حرم کے قریب تھا۔ ہم پیدل چل کر حرم میں جا سکتے تھے۔ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ہوٹل کی بسیں بھی حرم جاتیں اور وہاں سے واپس آتیں۔ یعنی آمدورفت کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس طویل سفر نے ہمیں تھکا دیا تھا۔ لہٰذا فوری طور پر حرم جانے کی ہمت نہیں تھی۔ ہم نے عشاء کی نماز ہوٹل کے کمرے میں ہی اداکی ۔ سوچا کہ پہلے چند گھنٹے آرام کرتے ہیں ۔انشااللہ تہجد کے وقت حرم شریف میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کریں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مکہ مکرمہ کے بعد واپس ا

پڑھیں:

کشمیر کی باغبانی صنعت پابندیوں کی زد میں کیوں ہے، ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ

آغا سید روح اللہ نے کہا کہ باغبانی کی صنعت کشمیر کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے لیکن اسکے باوجود ٹرانسپورٹ پر پابندیوں کے سبب یہ شعبہ شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سرینگر سے منتخب رکن پارلیمان آغا سید روح اللہ مہدی نے سیب سے لدے ٹرکوں کی وادی کشمیر سے بہار نقل و حرکت پر بار بار عائد کی جانے والی پابندیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ گزشتہ سال بھی ٹرکوں کو جان بوجھ کر روکا گیا تھا اور اس سال پھر وہی صورتحال دہرائی جا رہی ہے، جس سے کاشتکاروں اور تاجروں کو ناقابل تلافی معاشی نقصان سے جوجھنا پڑ رہا ہے۔ آغا سید روح اللہ نے زور دے کر کہا کہ باغبانی کی صنعت کشمیر کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔

انہوں نے بتایا کہ باغبانی سے منسلک وادی کی معیشت کا تقریباً 70 فیصد حصہ ہے، جو شعبہ سیاحت سے کہیں زیادہ اہم ہیں، لیکن اس کے باوجود ٹرانسپورٹ پر پابندیوں اور شاہراہ کی بندشوں کے سبب یہ شعبہ شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج سیب کا سیزن عروج پر ہے اور ٹرکوں کو روکنا محض انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے کاشتکاروں اور تاجروں کی معاشی بقا پر حملہ ہے۔ ممبر پارلیمنٹ نے حکام پر زور دیا کہ سیب کو بیرونی منڈیوں تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس مسئلے کو مسلسل نظر انداز کیا گیا تو یہ کشمیر کی معیشت کے لئے مزید تباہ کن ثابت ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ٹی 20 ایشیاکپ: افغانستان کا سری لنکا کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
  • توشہ خانہ ٹو کیس میں اہم پیش رفت: دو گواہان کے حیران کن انکشافات
  • ’بینظیر انکم سپورٹ پروگرام بند ہونا چاہیے‘، رانا ثنا اللہ نے ایسا کیوں کہا؟
  • اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی
  • قائم مقام صدرکی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی اقدامات کی اپیل
  • جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • کشمیر کی باغبانی صنعت پابندیوں کی زد میں کیوں ہے، ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • گلبرگ ٹائون :اساتذہ کی ٹریننگ اور طلبہ کیلیے پی بی ایل پروگرام کا آغاز