Nai Baat:
2025-07-26@14:47:32 GMT

مکہ معظمہ میں !!!

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

مکہ معظمہ میں !!!

شہر نبویؐ میں اتنے دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا ۔آخر کار یہاں سے رخصت ہونے کا دن آ ن پہنچا ۔میں نے مسجد نبویؐ میں نماز ظہر ادا کی۔ جلد یہاں دوبارہ آنے کی دعا مانگی۔ پیارے نبی ؐ کی مسجد پر ایک الوداعی نگاہ ڈالی اور ہوٹل کی سمت چل پڑی۔ وقت مقررہ پر کوچ آئی اور ہم دونوں اس میں سوار ہوکر اس مبارک شہر سے روانہ ہو گئے۔شہر نبویؐ کو خدا حافظ کہتے وقت دل اداس تھا، تاہم اس بات کی خوشی تھی کہ ہم مکہ مکرمہ جارہے ہیں۔کوچ پاکستانی زائرین سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ دیر سفر کے بعد ہم میقات پر پہنچ گئے۔ میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والے زائرین احرام باندھتے ہیں۔بس کنڈکٹر نے مائیک پر سواریوں کو کچھ ہدایات دیں۔ سب کو آدھ گھنٹے کا وقت دیا کہ احرام باندھ کر واپس آ جائیں۔ میں اور فہد صاحب بھی بس سے اترے۔ مسجد کے غسل خانوں اور وضو خانوں کے باہر خلق خدا کا ہجوم تھا ۔ وضو کرنے، احرام باندھنے اور نوافل کی ادائیگی کے بعد ہم واپس بس میں آن بیٹھے۔ کچھ دیر انتظار کے بعدسب مسافر واپس آ گئے تو بس چل پڑی۔ بس میں لبیک ، اللھم لبیک ، کے ورد کی آوازیں سنائی دینے لگی تھیں۔ راستے میں ہم بھی تلبیہ کا ورد کرتے رہے۔ تلبیہ کا ترجمہ ہے کہ ـ، ’’میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، میں حاضر ہوں، بے شک حمد و ستائش ِ، نعمتیں اور فرماروائی تیرے ہی لئے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔ تلبیہ پڑھنے کی نہایت فضیلت ہے۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان یہ پڑھتا ہے تو اس کے دائیں بائیںزمین کے آخری کونے تک تمام پتھر ، درخت اور مٹی کے ذرے بھی تلبیہ پڑھتے ہیں۔ بذریعہ بس مدینہ سے مکہ جانے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔راستے میں دو تین مرتبہ مختصر پڑاو کرنا پڑتا ہے۔ گھنٹوں سفر کے بعد ، مغرب کے وقت بس ایک پاکستانی ہوٹل کے سامنے رک گئی۔ یہاں بھی کنڈکٹر نے ہدایت جاری کی کہ آدھ ، پون گھنٹہ بعد سب لوگ بس میںواپس آجائیں۔ سب مسافروں نے یہاں کھانا کھایا۔ چائے پی۔ نماز پڑھی۔ اور بس میں آن بیٹھے۔ بس ایک مرتبہ پھر روانہ ہوگئی ۔ تازہ دم مسافر اب گفتگو میں مصروف تھے۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے کچھ پٹھان مسافر اپنے موبائل پر سیاسی حالات حاضرہ کی خبریں سننے لگے۔ پھر وہ با آواز بلند ملکی سیاست پر بات کرنے لگے۔ قومی سیاست سے مجھے نہایت دلچسپی ہے۔ تجسس سے مجبور میں نے بھی اس عوامی گفتگو پر کان کھڑے کر لئے۔ ان مسافروںکی سیاسی پسند میرے سیاسی خیالات سے مطابقت رکھتی تھی۔میں کافی دیر دلچسپی سے ان کی گفتگو سنتی رہی اور پھر میری آنکھ لگ گئی۔

طویل سفر کے بعد بس مکہ مکرمہ کی حدود میں داخل ہو گئی۔ بخیر و عافیت یہاں تک پہنچنے پر میں نے دل میں اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔ اس روئے زمین پر واقع کوئی شہر، کوئی جگہ، کوئی مقام مکہ مکرمہ سے زیادہ برکت اور فضیلت والا نہیں ہے۔اس شہر کی حرمت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہاں میرے رب کا گھر یعنی بیت اللہ قائم ہے۔ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ میں مکہ کی فضیلت کا بیان ملتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ البلد میں اللہ پاک نے اس شہر کی حرمت کی قسم اٹھائی ہے۔ کتنا مبارک ہے یہ شہر جسے میرے رب نے میرے پیارے نبیؐ کی پیدا ئش کیلئے پسند فرمایا۔ یہیں میرے حضورؐ کا بچپن گزرا۔ یہاں آپؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اس شہر میں آپ ؐ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ یہاں حضور ؐ نے اپنی زندگی کے کم و بیش 53 برس گزارے۔ چالیس برس کی عمر میں حضورؐ کو نبوت عطا ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے تیرہ برس تک اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اس عرصہ میں کفار مکہ حضور کو ہر طرح کے ذہنی اور جسمانی مصائب سے دوچار کرنے کیلئے کوشاں رہے۔ آخر کار ایک دن حضرت جبرائیل ؑ نے حضور ؐ تک اللہ کا پیغام پہنچایا کہ آپ یہاں سے ہجرت فرما جائیں۔اللہ کے حکم پر حضورؐ نے اس شہر سے ہجرت فرمائی۔

شہر مکہ سے حضورؐ کو نہایت محبت اور عقیدت تھی۔ مدینہ آنے کے بعد بھی آپ ؐ مکہ کو یاد فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ نے اللہ رب العزت کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا ، اے مکہ، تو اللہ تعالی کی ساری زمین سے افضل اور اللہ کو ساری زمین سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکل جانے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں ہرگز نہ جاتا۔ مکہ کے امن کیلئے حضرت ابراہیم ؑ نے دعا کی تھی۔ قرآن پاک کی سورۃ بقرہ میں اس دعا کا ذکر ہے کہ اے پروردگار! اس شہر کو پر امن بنا دے۔ مکہ واقعتا ایک پر امن شہر ہے۔ حرم کی حدود میں ہر ایک کو امان حاصل ہے۔ صرف انسانوں کو نہیں، حیوانات کو بھی۔ حرم مکہ میں شکار کی ممانعت ہے۔

مکہ مکرمہ میں داخل ہونے کے بعد بس نے تمام مسافروں کو باری باری مختلف ہوٹلوں کے سامنے اتارنا تھا۔ کچھ مسافروں کے ہوٹل حرم شریف کے نہایت قریب تھے، کچھ کے دور اور کچھ کے کافی دور۔ ہمارا ہوٹل حرم کے قریب تھا، لہٰذا ہماری باری کافی بعد میں آئی۔ مجھے یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ بس کے ڈرائیور اور کنڈکٹر کا رویہ مسافروں کے ساتھ مناسب نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا کہ وہ بہت جلدی میں ہیں۔ مدینہ میں مختلف ہوٹلوں کے آگے سے مسافروں کو سوار کرتے وقت بھی ان کا یہی رویہ تھا۔ ابھی مسافر اپنی سیٹ پر بیٹھتا بھی نہیں تھا کہ ڈرائیور بس چلا دیتا۔ ایک بوڑھا مرد اور ایک خاتون جس نے بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا وہ گرتے گرتے بچے۔ اس موقع پر مجھے کنڈکٹر سے کہنا پڑا کہ وہ خواتین اور بوڑھے مسافروں کا تو کچھ لحاظ کرئے۔ مسافروں اور کنڈکٹر کے درمیان کچھ تلخ کلامی بھی ہوئی۔ مکہ میں بھی ڈرائیور مسافروں کو ہوٹل سے دور اتارتا رہا۔ مسافر اس پر احتجاج کرتے رہے۔ کسی کو بھاری بھرکم سامان سمیت سڑک کے دوسری طرف اتار کر مشورہ دیتا کہ آگے ٹیکسی لے کر جائیں۔عمرہ کے تمام سفر میں یہ ایک افسوسناک تجربہ تھا جس سے مجھے دوچار ہونا پڑا۔بعد ازاں میں نے متعلقہ نمبروں پر بس کے عملے کی شکایت بھی کی۔ تاکہ آئندہ وہ اپنے رویے سے باز رہیں۔ عمرہ کے بعد مجھے کسی نے بتایا کہ پاکستانی عملے کا عمومی رویہ یہی ہے۔
بہرحال اپنا ہوٹل آنے پر ہم بھی بس سے اترے۔ ہوٹل اچھا تھا۔ حرم کے قریب تھا۔ ہم پیدل چل کر حرم میں جا سکتے تھے۔ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ہوٹل کی بسیں بھی حرم جاتیں اور وہاں سے واپس آتیں۔ یعنی آمدورفت کا نظام نہایت عمدہ تھا۔ اس طویل سفر نے ہمیں تھکا دیا تھا۔ لہٰذا فوری طور پر حرم جانے کی ہمت نہیں تھی۔ ہم نے عشاء کی نماز ہوٹل کے کمرے میں ہی اداکی ۔ سوچا کہ پہلے چند گھنٹے آرام کرتے ہیں ۔انشااللہ تہجد کے وقت حرم شریف میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کریں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: مکہ مکرمہ کے بعد واپس ا

پڑھیں:

فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا

لبنان کے بائیں بازو اور حزب اللہ سمیت تمام طبقات میں یکساں مقبول مزاحمتی ہیرو جارجس ابراہیم عبد اللہ 40 سال بعد فرانس سے وطن واپس پہنچ گئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جارجس ابراہیم عبد اللہ کو فرانس کی جیل سے اس شرط پر رہائی ملی تھی کہ وہ فوری طور پر اپنے وطن لبنان چلے جائیں گے۔

جارجس ابراہیم عبد اللہ کو پیرس کی اپیل عدالت نے 17 جولائی کو رہا کرنے کی منظوری دی تھی۔ ان کی رہائی یورپ کی جدید تاریخ کی سب سے طویل سیاسی قید کی داستان کا اختتام ہے۔

جارجس عبد اللہ کو 1987 سے امریکی فوجی اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارتکار یاکوف بارسمانتوف کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔

اگرچہ انہوں نے کبھی اس قتل میں ملوث ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھا لیکن وہ اس لبنانی گروپ کے بانیوں میں شامل تھے جو فلسطینی اور عرب اتحاد کے حق میں تھا۔

اس لبنانی گروپ کا مقصد لبنان سے غیر ملکی فوجوں بالخصوص اسرائیل کو نکالنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانا تھا۔

ان کی رہائی کے لیے کئی بار عدالتوں نے سفارش کی مگر بالخصوص امریکا اور اسرائیل کے سیاسی دباؤ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوسکا تھا۔

ان کی سزا کی کم از کم مدت 1999 میں مکمل ہوچکی تھی مگر متعدد بار کی درخواستوں کے باوجود انھیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔

74 سالہ عبد اللہ اب اپنے شمالی لبنان کے گاؤں قوبایات واپس آئے ہیں جہاں انہیں لبنانی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔

ان کے حامی ان کی رہائی کو انصاف کا دیرینہ اقدام قرار دے رہے ہیں اور ان کی وطن واپسی کو ایک تاریخی لمحہ سمجھا جا رہا ہے۔

لبنانی کمیونسٹ پارٹی اور حزب اللہ نے عبد اللہ کو مزاحمت کا ہیرو قرار دیا ہے جبکہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں نے اس موقع پر خاموشی اختیار کی ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق عبد اللہ کی فلسطینی اور سیکولر شناخت نے انہیں لبنان کی مسیحی سیاسی جماعتوں سے الگ کر دیا ہے۔

لبنان میں عام طور پر نوجوان نسل ان کے بارے میں زیادہ واقف نہیں ہے کیونکہ آج کے ملک کو معاشی اور سیاسی بحرانوں اور ہجرت کا سامنا ہے۔

تاہم جارجس ابراہیم عبد اللہ کی تصاویر اور یادیں سوشل میڈیا پر دوبارہ گردش کر رہی ہیں، اور وہ کچھ حلقوں میں اپنی اصول پسندی کی وجہ سے عزت کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں۔

ان کی وطن واپسی کے موقع پر کئی عوامی پروگرام منعقد کیے جائیں گے جن میں سیاسی رہنما، اہل خانہ، انسانی حقوق کے کارکن اور سرگرم کارکن شامل ہوں گے۔

 

متعلقہ مضامین

  •  عطا تارڑ اور  بدر شہباز  کی پی پی رہنما  قمر کائرہ کی عیادت
  • گستاخ اہل بیت مولوی عطاء اللہ بندیالوی گرفتار
  • گستاخ اہل بیت مولوی عطا اللہ بندیالوی گرفتار
  • غزہ میں انسانی تباہی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی سیستانی
  • غزہ میں بڑی انسانی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی السیستانی
  • سی ٹی ڈی کی کارروائی، 3 دہشتگرد ہلاک
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • گلگت بلتستان میں سیلاب؛ جاں بحق افراد کی تعداد 9ہوگئی، 500 سے زائد گھر تباہ
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • کرایہ