Nai Baat:
2025-11-04@00:58:43 GMT

ہارس اینڈ کیٹل شو

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

ہارس اینڈ کیٹل شو

سالہا سال بعد پنجاب حکومت ہارس اینڈ کیٹل شو کے روائتی میلہ کا انعقاد کر رہی ہے ، گزشتہ روز اس کا باقاعدہ افتتاح بھی ہو گیا ،اس کے انعقاد کی ذمہ داری کا بوجھ پہلی بار پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی لاہور کے کندھوں پر ہے،میلہ اسپاں و مویشیاں عرصہ دراز سے پنجاب کی روائت چلی آرہی تھی مگر پھر نہ جانے کیوں اس کا انعقاد رک گیا ،ایسے میلے ٹھیلے عام شہریوں کیلئے مسرت وانبساط کا سامان لئے ہوتے ہیں تو دوسری طرف خوشیوں کے رنگ بکھیرتے ہیں،دور دراز سے لوگ ان میلوں میں شرکت کیلئے آتے ہیں،میلہ مویشیاں سے ہر کسی کو لائیو سٹاک سے دلچسپی پیدا ہوتی ہے ،مویشی جہاں پالنے والوں کی دودھ، مکھن، دہی، پنیر،کریم اور ملائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں،وہاں ملکی معیشت کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں،دودھ کو رب کریم نے اپنا نور قرار دیا ہے اور یہ نور ان مویشیوں کی بدولت ہمیں نصیب ہوتا ہے،مویشی کے چرم نہ صرف مقامی صنعت میں خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں بلکہ ان کی بر آمد سے بھاری زر مبادلہ بھی کمایا جاتا ہے،ہڈیاں،آنتیں اور چربی بھی بہت سی صنعتوں کا خام مال ہیں خاص طور پر پولٹری فیڈ کا یہ لازمی جز ہیں،مویشیوں کو رب کریم نے قرآن پاک میں ’’زینت‘‘ قرار دیا ہے،کسان ،کاشتکار اور لائیو سٹاک کا آپس میں اٹوٹ رشتہ ہے،یہی نہیں مگس بانی اور پولٹری بھی کسان کی زینت اور آمدن کا معقول ذریعہ ہیں،مویشی دودھ کیساتھ ہماری گوشت کی ضروریات کو بھی پورا کرتے ہیں اب تو گوشت کی بر آمد بھی ایک منافع بخش کاروبار بن چکی ہے، یوں مویشی صرف زینت ہی نہیں بلکہ بنیادی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ اور بہترین ذریعہ آمدن بھی ہیں۔

ماضی قریب میں عمران خان حکومت نے لائیو سٹاک کی ترقی کیلئے دیہاتیوں کو کٹے اور مرغی پال سکیموں کی طرف راغب کیا جس کا آج تک مذاق اڑایا جاتا ہے مگر گھر کے قریب آسان اور سستے ذریعہ معاش کیلئے یہ بہترین سکیم تھی،وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے برسوں بعد اس شو کے انعقاد کا اعلان کیا ہے جو ایک خوش آئند بات اور ماضی کی صحت مند روایت کو زندگی دینے کے مترادف ہے،عالمی معیار کے ہارس اینڈ کیٹل شو کا آغاز 9فروری کو ہو چکا ، شو کو’’اتحاد،ترقی اور ثقافت کی بحالی‘‘کا عنوان دیا گیا ہے،،10فروری سے باقاعدہ شروع ہونے والے شو میں 70بین الاقوامی ٹیمیں شرکت کرینگی،شو کے پروگرام شہر کے مختلف مقامات پر ہونگے،جن میں نیزہ بازی،تیر اندازی،بز کشی،پولوکے مقابلے ہونگے،ثقافتی تہوار میں پھولوں کی نمائش،آرائش گل کے مقابلے بھی ہونگے،گھوڑوں،پالتوجانوروں اور مویشیوں کے اس میلے میں پنجاب کی ثقافت اور زراعت دونوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور انہیں فروغ ملے گا،موجودہ تلخ ماحول میں یہ ایک صحت مند تفریح بھی ہو گی اور عالمی سطح پر ملک کا مثبت چہرہ بھی پیش کرنے میں مدد ملے گی اور روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے،یہ شو پنجاب کے مختلف شہروں قصبوں سے آئے لوگوں کو ماضی کی شاندار تفریح سے بھی روشناس کرائے گا اور ایک صحت مند روایت کو بھی نئی زندگی ملے گی۔
اس شو کے ذریعے دیہات میں بسنے والوں کو ڈیری اور پولٹری کیساتھ شہد کی صنعت کو بھی فروغ ملے گا،دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوگا،بہت سی صنعتوں کو خام مال ملے گا اور بہت سی متعلقہ صنعتوں کا کاروبار چمکے گا،ڈیری مصنوعات،گوشت،چرم کی بر آمد سے کثیر زر مبادلہ بھی میسر آئے گا یوں اسے قال تقلید مثال قرار دیا جا سکتا ہے،مقامی سطح پر بیروز گار افراد کو منافع بخش روزگار بھی حاصل ہو گا،نوجوان طبقہ فضولیات سے نکل کر تعمیری کام میں مگن ہو جائیگا تو معاشرہ میں بھی امن اور سکون آئے گا،ماضی میں اس حوالے سے ایسے میلوں میں مویشیوں میں مقابلے بھی ہوتے تھے،زیادہ دودھ دینے والی بھینس گائے،بہت طاقتور بیل،خوبصورت بھیڑ بکریوں کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا،یہ بھی ایک تعمیری اور مثبت عمل تھا جو بیکار افراد کو زندگی کا مقصد فراہم کرتا اور کچھ کرنے کی لگن دیتا تھا،اگر ہم صرف مویشیوں کی افزائش اور ان کی مصنوعات کی برآمد کو فروغ دیں تو یہ ہماری دم توڑتی معیشت کیلئے آب حیات ثابت ہو سکتا ہے۔

اس خوبصورت اور بامقصد شو کے انتظامات پارکس اور ہارٹیکلچر اتھارٹی لاہور کے سپرد کئے گئے ہیں ،پی ایچ اے کی انتظامیہ کیلئے یہ کسی چیلنج سے کم نہیں اور کامیاب انعقاد ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی ،یہ ایک رجحان ساز ایکٹویٹی شمار ہو گی،پی ایچ اے پہلے ہی ا س چیلنج سے نبرد آزما ہے،اسے شہر لاہور کی ماند پڑتی خوبصورتی اور ماضی کی دلکشی لوٹانے کا ہدف دیا گیا ہے اور پی ایچ اے تندہی کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے میں مگن ہے،کہیں مصروف اور معروف شاہراہوں کے اطراف شجر کاری ہو رہی ہے تو کہیں آرائشی پودے لگائے جا رہے ہیں،کہیں موسمی پھولوں کے پودے لگا کر نگاہوں کو خیرہ اور تنفس کو خوشبو کا تحفہ دیا جا رہا ہے،شہر میں بہنے والے گندے نالے جو مچھروں کی نرسری تھے، بدبو تعفن کا گڑھ تھے ان کے کناروں کو سایہ دار اور پھل دار درختوں سے سجایا جا رہا ہے،ہر طرف رنگ برنگے خوشبو لٹاتے پودے لہلہاتے دکھائی دے رہے ہیں تو کہیں سڑکوں کی گرین بیلٹس میں رنگ و خوشبو کا سامان کیا جا رہا ہے،سچ یہ ہے کہ قلیل اور مختصر مدت میں پی ایچ اے نے شہر کا نقشہ بدل ڈالا ہے،جس سڑک سے گزر یں ہر طرف نیلے، پیلے، سبز، گلابی،سر خ پھول اور سبزہ آنکھوں کو راحت بخشتا دکھائی پڑتا ہے۔
پنجا ب حکومت نے ہر ضلع میں پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹیاں بھی قائم کر دی ہیں ،ایک دور تھا شہر کی سڑکوں پر آم،جامن اور دیگر پھلدار درختوں کی بھرمار ہوتی تھی،بڑے بڑے خوبصورت اور تادیر تازہ رہنے والے پھولوں کے درخت تھے،صنعت میں استعمال ہونے والے منافع بخش اور نقد آور درخت لگائے جاتے تھے،جن سے آمدن بھی ہوتی تھی، مردم شماری کی طرح شجر شماری بھی کی جاتی تھی،مگر آج زیادہ توجہ زیبائشی اور آرائشی پودوں پر ہے،اگر خالی اور بیکار پڑی اراضی پر منصوبہ بندی کے تحت شجر کاری کی جائے تو بے تحاشا منافع کمایا جا سکتا اور مومیاتی تبدیلیوں سے بچا جا سکتا ہے، موسموں کی شدت کی واحد وجہ درختوں کی کمی ہے،زرعی اراضی بھی تیزی سے کم ہو رہی ہے حکومت اگر پی ایچ اے کی طرز پر ایگریکلچر اتھارٹی بنا دے اور اسے کسانوں کاشتکاروں کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری کیساتھ زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار کا ٹاسک دے تو ملک بھی خوشحال ہو گا اور حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس لئے ہمیں زراعت،شجر کاری،بے آباد اراضی کی آباد کاری،لائیو سٹاک،پولٹری،شہد کی پیداوار پر توجہ دینا ہو گی،پی ایچ اے ہمارے سامنے ہے اس کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ہم آسان اور سستے ذریعہ معاش حاصل کر کے نئی نسل کو بامقصد زندگی دے سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: لائیو سٹاک بھی ہو

پڑھیں:

پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل

پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز

لاہور (آئی پی ایس )پاکستان کے صحت کے شعبے میں ایک تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی)جگر کے 1000 کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل کر کے دنیا کے بڑے ٹرانسپلانٹ مراکز میں شامل ہو گیا ہے۔پی کے ایل آئی وہ خواب ہے جو وزیراعظم شہباز شریف نے بطور وزیراعلی پنجاب 2017 میں دیکھا تھا۔ ایک ایسا ادارہ جو پاکستان کے عوام کو جگر اور گردے کی بیماریوں کے علاج کی بین الاقوامی معیار کی سہولتیں ملک میں ہی فراہم کرے۔ آج وہ خواب حقیقت بن چکا ہے، اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں اس ادارے کی بدولت بچائی جا چکی ہیں۔پی کے ایل آئی اب تک جگر کے 1000 ٹرانسپلانٹس کے علاوہ، 1100 گردے اور 14 بون میرو ٹرانسپلانٹس کے ساتھ 40 لاکھ سے زائد مریضوں کو علاج فراہم کر چکا ہے۔

اس وقت تقریبا 80 فیصد مریضوں کو جدید ٹیکنالوجی اور عالمی معیار کے مطابق بالکل مفت علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ استطاعت رکھنے والے مریضوں کے لیے علاج کے اخراجات 60 لاکھ روپے تک ہیں، جو خطے کے دیگر ممالک کی نسبت انتہائی کم ہیں۔یہی وہ منصوبہ تھا جسے بدقسمتی سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قومی مفاد برخلاف اقدامات اور بعد ازاں تحریک انصاف کی حکومت نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا۔ پی کے ایل آئی کے فنڈز منجمد کیے گئے، انتظامیہ کو غیر ضروری تحقیقات میں الجھایا گیا، اور سب سے افسوسناک فیصلہ یہ کیا گیا کہ عالمی معیار کے ٹرانسپلانٹ سینٹر کو کووڈ اسپتال میں بدل دیا گیا۔دنیا کی طبی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں کہ ایک جدید ترین ٹرانسپلانٹ سینٹر کو قرنطینہ ہسپتال میں تبدیل کر کے بند کر دیا جائے۔اس نتیجے میں 2019 میں صرف چار جگر کے ٹرانسپلانٹ کیے جا سکے۔ تاہم، جب 2022 میں وزیراعظم شہباز شریف نے دوبارہ حکومت سنبھالی، تو انہوں نے اس قومی اثاثے کو بحال کیا، وسائل فراہم کیے اور ایک بار پھر ادارے کو اپنے اصل مقصد کی جانب گامزن کیا۔نتیجتا، 2022 میں 211، 2023 میں 213، 2024 میں 259 اور 2025 میں اب تک 200 سے زائد کامیاب جگر کے ٹرانسپلانٹس مکمل کیے جا چکے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، بیرونِ ملک جگر کے ٹرانسپلانٹ پر اوسطا 70 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالر خرچ آتا ہے، جس میں سفری اخراجات، قیام اور ذہنی اذیت شامل نہیں۔ ماضی میں ہر سال تقریبا 500 پاکستانی مریض علاج کے لیے بھارت جاتے تھے، جہاں نہ صرف کروڑوں روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے بلکہ غیر انسانی رویے کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔پی کے ایل آئی نے ان تمام مشکلات کا خاتمہ کرتے ہوئے علاج کے دروازے ملک کے اندر ہی کھول دیے ہیں، جس سے اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچایا گیا ہے۔پی کے ایل آئی صرف ٹرانسپلانٹ تک محدود نہیں، بلکہ اس کے یورالوجی، گیسٹروانٹرولوجی، نیفرو لوجی، انٹروینشنل ریڈیالوجی، ایڈوانس اینڈوسکوپی اور روبوٹک سرجریز کے شعبے بھی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز کی خصوصی سرپرستی اور عملی تعاون سے یہ ادارہ مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ انتظامیہ کے مطابق، پی کے ایل آئی اب نہ صرف ایک ہسپتال بلکہ قومی وقار، خود انحصاری اور انسانیت کی خدمت کی علامت بن چکا ہے۔یہ ادارہ وزیراعظم شہباز شریف کے ویژن، قومی خدمت کے جذبے اور عزم کا عملی ثبوت ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربین الاقوامی میڈیا کیلئے مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر،نوٹیفکیشن جاری بین الاقوامی میڈیا کیلئے مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر،نوٹیفکیشن جاری گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب پی پی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے، حافظ نعیم مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی ملاقات پاکستان سے اب تک 8لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے حق سچ کی آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے، مریم نواز TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • عبدالرحمن کی سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی سے ملاقات
  • کراچی: پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس کے دوسرے ایڈیشن کا آغاز
  • لاہور ہائیکورٹ: جعلی دودھ فروخت کرنیوالے ملزم کی ضمانت مسترد
  • الجبیل: پی ای ایف کی جانب سےایگزیکٹوبزنس اینڈ پروفیشنل سمٹ کا انعقاد
  • پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ جگر کی 1000 پیوندکاریاں کر کے دنیا کے صف اول کے اسپتالوں میں شامل
  • لشکری رئیسانی کا مائنز اینڈ منرلز بل سے متعلق سیاسی رہنماؤں کو خط
  • پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل
  • امریکا میں سفیر پاکستان کا پاک-امریکا بزنس کانفرنس اینڈ ایکسپو 2025 کا افتتاح 
  • مٹیاری: شہر بھرمیں کیمیکل ملے دودھ کی چائے فروخت ہونے لگی
  • ’ماشا اینڈ دی بیئر‘ اور روسی قدامت پسندوں کی بے چینی کا سبب کیوں بنا گیا؟