سی سی ڈی کے انسپکٹر اور اہلکاروں پر شہری اغواء کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
کاہنہ کے علاقے میں ایک شہری ولید کو مبینہ طور پر سی سی ڈی کے انسپکٹر جاوید اور کچھ اہلکاروں نے اغواء کر لیا۔
ذرائع کے مطابق، ولید کو گھر کے قریب سے اغواء کیا گیا اور بعد میں اہل خانہ سے لاکھوں روپے تاوان وصول کرنے کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ اغواء میں شامل اہلکاروں میں توصیف کانسٹیبل بھی شامل تھے۔
پولیس نے معاملے کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے اور مزید تفصیلات سامنے آنے کا انتظار ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی راز ہاتھ میں، فیض حمید پر خفیہ دستاویزات رکھنے کا سنگین الزام
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں باخبر ذرائع کے مطابق 14 سال قید کی سزا پانے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر ریٹائرمنٹ کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھنے کا بھی الزام عائد کیا گیا۔
ذرائع نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ دستاویزات کون سی تھیں، تاہم بتایا گیا ہے کہ وہ انہیں رکھنے کے مجاز نہیں تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو چار الزامات پر ٹرائل کے بعد سزا سنائی گئی۔ ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت ایک الزام ریٹائرمنٹ کے بعد حساس دستاویزات اپنے پاس رکھنے سے متعلق تھا، جبکہ سیاسی سرگرمیوں کا الزام سیاستدانوں، خصوصاً پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقاتوں اور روابط سے جوڑا گیا۔ 2023 میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد حساس عہدوں پر فائز افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا گیا ہے۔
روزنامہ دی نیوز نے دسمبر 2024 میں رپورٹ کیا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً 50 سیاستدانوں سے رابطہ رکھا۔ ذرائع کے مطابق گرفتاری سے قبل انہیں ان سرگرمیوں پر متعدد بار خبردار بھی کیا گیا تھا، مگر انہوں نے یہ روابط ختم نہیں کیے۔
ایک اور الزام ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے سے متعلق تھا، جس میں ان پر عہدے کے غلط استعمال کے ذریعے رقم حاصل کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا۔ یہ کیس ہاؤسنگ سوسائٹی کے موجودہ سی ای او کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی بنیاد پر بنا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ 2017 میں رینجرز اور آئی ایس آئی اہلکاروں نے ہاؤسنگ پروجیکٹ کے دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونا، نقد رقم اور قیمتی اشیا قبضے میں لیں۔ بعد ازاں الزام لگایا گیا کہ کچھ سامان واپس کرنے کے بدلے رقم اور دیگر مالی تقاضے کیے گئے، تاہم سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو متعلقہ فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔
ٹرائل میں ایک الگ الزام بحریہ ٹاؤن کے ایک سابق ملازم کو نقصان پہنچانے سے بھی متعلق تھا، جسے بھی کیس کا حصہ بنایا گیا۔