سوڈان میں شہید ہونے والے بنگلہ دیشی فوجی اہلکاروں کی تفصیل جاری
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
سوڈان کے متنازع علاقے ابیئی میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے دوران ڈرون حملے کے نتیجے میں بنگلہ دیشی فوج کے 6 اہلکار شہید اور 8 زخمی ہو گئے۔ بنگلہ دیش آرمی نے شہید ہونے والے اہلکاروں کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:انقلاب منچہ کے کنوینیئر پر حملہ: بنگلہ دیشی حکومت کا ملزم کی گرفتاری میں مدد پر 50 لاکھ ٹکا انعام کا اعلان
بنگلہ دیش آرمی کے جاری کردہ بیان کے مطابق اقوامِ متحدہ کے تحت خدمات انجام دینے والے 6 بنگلہ دیشی امن دستے کے اہلکار ہفتے کے روز اس وقت شہید ہوئے جب ایک علیحدگی پسند مسلح گروہ نے سوڈان کے علاقے ابیئی میں قائم کدوگلی لاجسٹک بیس پر ڈرون حملہ کیا۔ حملہ مقامی وقت کے مطابق سہ پہر 3 بج کر 40 منٹ سے 3 بج کر 50 منٹ کے درمیان کیا گیا۔
The Inter-Services Public Relations (#ISPR) today disclosed the identities of the six Bangladeshi peacekeepers who were killed in a drone attack on a United Nations peacekeeping base in Sudan yesterday.
— The Daily Star (@dailystarnews) December 14, 2025
شہید ہونے والے اہلکاروں میں کارپورل محمد مسعود رانا (ضلع ناٹور)، پرائیویٹ محمد مومن الاسلام (ضلع کریگرام)، پرائیویٹ شمیم رضا (ضلع راجباری)، پرائیویٹ شانٹو منڈول (ضلع کریگرام)، میس ویٹر محمد جہانگیر عالم (ضلع کشور گنج) اور لانڈری ورکر محمد سبوج میاں (ضلع گائی بندھا) شامل ہیں۔
ڈرون حملے میں ایک سینئر افسر سمیت 8 اہلکار زخمی ہوئے جن میں لیفٹیننٹ کرنل خندکار خالق الزمان (ضلع کوشتیا)، سارجنٹ محمد مستقم حسین (ضلع دیناج پور)، کارپورل افروزہ پروین اتی (ڈھاکہ)، لانس کارپورل محبوب الاسلام (برگونا)، پرائیویٹ محمد میزباال کبیر (کریگرام)، پرائیویٹ امّہ ہانی اختر (رنگ پور)، پرائیویٹ چمکی اختر (مانیک گنج) اور پرائیویٹ محمد منظر احسن (نوآکھلی) شامل ہیں۔
The U.S. Embassy notes Bangladesh's long history of support to UN Peace Keeping Operations, and extends its condolences to the families, friends and colleagues of the six Bangladeshi UN peacekeepers killed in Sudan and hopes for a speedy recovery for the eight who were injured. pic.twitter.com/LE2z6BdXuO
— U.S. Embassy Dhaka (@usembassydhaka) December 14, 2025
بنگلہ دیش آرمی کے مطابق تمام زخمی اہلکاروں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ شدید زخمی پرائیویٹ محمد میزباال کبیر کی کامیاب سرجری کر دی گئی ہے اور وہ انتہائی نگہداشت میں ہیں، جبکہ دیگر 7 اہلکاروں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بہتر علاج کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
بنگلہ دیشی فوج نے اس واقعے کو ایک ’بہیمانہ دہشت گردانہ حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شہید ہونے والے اہلکاروں کی قربانی عالمی امن و استحکام کے لیے بنگلہ دیش کے پختہ عزم کی واضح علامت ہے۔ فوج کی جانب سے شہدا کے لواحقین سے اظہارِ تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا بھی کی گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امن مشن بنگلہ دیش بنگلہ دیشی فوجی یو این امن مشنذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ بنگلہ دیش بنگلہ دیشی فوجی یو این امن مشن شہید ہونے والے پرائیویٹ محمد بنگلہ دیشی بنگلہ دیش کے لیے
پڑھیں:
شہید مدافع حرم، محمد مقداد مہدی
اسلام ٹائمز: شہید مقداد مہدی کی شہادت سے چار سال قبل انکے قریبی دوست شہید علی رضا کی شہادت کے موقع پر شہید مقداد مہدی نے شہید علی رضا کی یاد میں کہا کہ ’’تم چلو ہم پیچھے آتے ہیں۔‘‘ بس شہید علی رضا کی شہادت کے چار سال بعد شہید مقداد مہدی کو بھی شہادت کا شرف حاصل ہوگیا۔ شہید مقداد مہدی کو شہادت کا اتنا شوق تھا کہ شہداء کے ترانے سنتے ہوئے اکثر مسکرا کر کہا کرتے تھے، یہ سارے ترانے ہم پر بنے ہیں اور اسی طرح کہتے کہ چلو جو پہلے گیا، وہ اوروں کی شفاعت کرے گا۔ رپورٹ: سید شاہریز علی
بعض ایمان والے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا اپنے خدا پر توکل ناقابل بیان اور محمد (ص) و آل محمد (ع) سے عشق لامحدود ہوتا ہے، ایسا ہی ایک مومن، بندہ خدا نوجوان شہید محمد مقداد مہدی تھا، جس نے مئی 1982ء کو جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر میں ایک شیعہ مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، محمد مقداد مہدی نوجوانی سے ہی دین کی خدمت میں پیش پیش رہتا تھا، زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی اور ناصرف اپنی ذات کی حد تک فکری تربیت کی بلکہ دیگر نوجوانوں کو بھی عشق آل محمد سے سرشار ہوتے ہوئے دینی امور کی جانب راغب کیا، شہید مقداد مہدی نے درس و تدریس کی خاطر مدرسہ میں داخلہ لیا، اس دوران شہید نوجوانوں کے لئے مؤثر برنامہ ریزی کرتے اور مختلف مذہبی پروگرامات کو تشکیل دیتے تھے۔ 2013ء میں جب بھکر کے علاقہ کوٹلہ جام میں تکفیری فرقہ پرست جماعت سپاہ صحابہ نے شرانگیزی اور دہشتگردی کی، تو شہید مقداد مہدی نے قانون کو ہاتھ میں لئے بغیر علاقہ میں قیام امن کی کوششیں کیں۔
شہید محمد مقداد مہدی سے راقم کی ملاقات 2014ء میں ہوئی، اس مختصر اور یادگار ملاقات میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نوجوان کی منزل بہت عظیم ہے اور ایسا ہی ہوا، شہید اپنی شہادت کی آرزو لیکر حرم بی بی سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی داعش کے درندوں سے حفاظت کیلئے شام روانہ ہوگئے، قبل ازیں مقداد مہدی نے اپنے والدین سے اجازت طلب کی، والدین کیلئے انکار ناممکن تھا، کیونکہ مقصد ہی اس قدر بلند تھا۔ شہید کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ انہوں نے محاذ جنگ میں نڈر اور بے باک انداز سے داعش کے درندوں کیخلاف جنگ کی۔ ایک بار شہادت سے قبل بھی محاذ میں زخمی ہوئے، لیکن محاذ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ آپ کے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے چار دوستوں کے ساتھ مل کر دشمن کی اہم ترین معلومات اور منصوبے کی خبریں حاصل کیں، جو جنگی محاذ میں انتہائی موثر ثابت ہوئیں۔ شہید مقداد مہدی ایک باوقار، کم گو، محنتی، نڈر اور متقی انسان تھے، خاندان، گھر اور دوستان میں خوش اخلاقی کا ایک بہترین نمونہ تھے۔
شہید اپنے بہن، بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دین کی ذمہ داریاں بھی احسن انداز میں نبھاتے تھے۔ نیند کم اور کام زیادہ کے فارمولے کو اپنی زندگی میں اپنائے ہوئے تھے، جو شائد ان کی کامیابی کا راز تھا۔ دوست ان کو محفلوں کی جان کہا کرتے تھے، شہید کے احباب کا کہنا ہے کہ شہید نماز جمعہ میں ہر حال میں شرکت کرتے تھے اور دوستوں کو بھی شرکت کی دعوت دیتے تھے۔ نماز اور کسی کارگاہ میں اگر کوئی شرکت نہ کرتا تو خود ان کو گھر لینے پہنچ جاتے تھے۔ ایک دوست جو نماز جمعہ میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو انہوں نے شہید سے سواری نہ ہونے باعث نہ آنے کا عذر پیش کیا، کچھ ہی لمحوں بعد شہید مقداد مہدی اس کے دروازے پر اسے ساتھ لے جانے کیلئے پہنچ گئے۔ اس موقع پر اس دوست نے پوچھا کہ آپ دینی امور، جاب کے ساتھ ساتھ گھر والوں کے لیے کیسے وقت نکل لیتے ہیں۔؟ کیسے مینج کرتے ہیں۔؟ تو شہید نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ وقت کا حساب گھنٹوں سے نہیں بلکہ منٹ اور سیکنڈز کے مطابق رکھو تو وقت میسر ہوتا ہے، خدا کی طرف ایک قدم بڑھاؤ، خدا کئی قدم بڑھا دیتا ہے۔
شہید مقداد مہدی کی شہادت سے چار سال قبل ان کے قریبی دوست شہید علی رضا کی شہادت کے موقع پر شہید مقداد مہدی نے شہید علی رضا کی یاد میں کہا کہ "تم چلو ہم پیچھے آتے ہیں۔" بس شہید علی رضا کی شہادت کے چار سال بعد شہید مقداد مہدی کو بھی شہادت کا شرف حاصل ہوگیا۔ شہید مقداد مہدی کو شہادت کا اتنا شوق تھا کہ شہداء کے ترانے سنتے ہوئے اکثر مسکرا کر کہا کرتے تھے یہ سارے ترانے ہم پر بنے ہیں اور اسی طرح کہتے کہ چلو جو پہلے گیا، وہ اوروں کی شفاعت کرے گا۔ آخر آج سے ٹھیک 9 سال قبل یعنی 11 دسمبر 2016ء کو شام ہی میں محمد مقداد مہدی کی دفاع حرم میں شہادت ہوگئی۔ 18 جنوری 2017ء کو شہید کی نماز جنازہ حرم بی بی معصومہ قم میں علامہ سید جان علی شاہ کاظمی کی اقتداء میں ادا کی گئی اور جسد مبارک کو بہشت معصومہ میں دفن کیا گیا۔ یوں شہید اپنی آرزو، تمنا اور منزل پانے میں کامیاب ہوگیا۔