UrduPoint:
2025-04-26@04:59:35 GMT

جرمن انتخابات: چانسلر شولس اور حریف میرس میں پہلا مباحثہ

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

جرمن انتخابات: چانسلر شولس اور حریف میرس میں پہلا مباحثہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 فروری 2025ء) جرمنی میں 23 فروری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل رائے شماری کے جائزوں کے مطابق قدامت پسند سی ایس یو ⁄ سی ڈی یو بلاک تیس فیصد حمایت کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ اس کے بعد 20 فیصد کے ساتھ اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر اور سولہ فیصد کے ساتھ شولس کی ایس پی ڈی تیسرے نمبر پر ہے۔

تقریباً 90 منٹ تک جاری رہنے والی بحث کے دوران، چانسلر اولاف شولس اور مستقبل کے جرمن چانسلر کے لیے پسندیدہ امیدوار، فریڈرش میرس، نے ملک کے مستقبل اور مختلف امور کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے۔

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

شولس نے اگلے کم از کم چار سالوں کے لیے جرمنی کو اپنے دفاع کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم دو فیصد مختص کرنے پر زور دیا، جب کہ میرس کا کہنا تھا کہ وہ جی ڈی پی کا کم ا‍ز کم تین فیصد چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

چانسلر شولس نے کہا کہ برلن صرف اسی صورت میں دفاعی اخراجات میں اضافہ کر سکے گا جب روکاوٹ کو ہٹا دے۔

میرس کا کہنا تھا کہ جرمنی کو دو فیصد سے زیادہ کی ضرورت ہے، "لیکن پہلے اسے قدم بہ قدم دو فیصد تک پہنچنے کی ضرورت ہو گی۔" انہوں نے کہا کہ جرمنی ایک "مضبوط معیشت" میں مزید ترقی کے ساتھ دفاع کے لیے مزید فنڈز وقف کر سکتا ہے۔

جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے ایلس وائیڈل کو بطور چانسلر امیدوار منتخب کر لیا

میرس نے کہا کہ وہ "ملکی بجٹ کی ضروریات کی از سر نو ترجیحات طے کریں گے۔

" انہوں نے مزید کہا کہ جرمنی "سبسڈی کو کم کر سکتا ہے" اور "عوامی خدمات اور ۔۔۔۔ وہاں کام کرنے والوں کی تعداد پر نگاہ ڈال سکتا ہے۔" جرمنی ٹرمپ سے کیسے نمٹے گا؟

مباحثے کے موڈریٹرز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بھی دونوں رہنماؤں سے سوالات کیے۔ اس نے صدر ٹرمپ کے اکثر غلط رویے کی طرف اشارہ کیا، پھر میرس سے پوچھا کہ کیا وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ امریکی صدر"توقعات کے قابل" ہیں جیسا کہ انھوں نے ماضی میں کہا تھا۔

میرس کا جواب تھا، "یہ درست ہے کہ وہ ممکنہ طور پر غیر متوقع ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "بحر اوقیانوس کے اس جانب متحد ہونا ہمارے لیے اہم ہے۔" انہوں نے بتایا کہ کس طرح ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن گرین لینڈ کے بارے میں ٹرمپ کے تبصروں سے "بہت فکر مند" تھے، اور کہا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے ان سے اس پر بات کی تھی۔

میرس نے کہا، "ہمیں ایک مشترکہ یورپی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یورپ ایک ساتھ مل کر امریکہ کے مقابلے میں زیادہ آبادی والا علاقہ ہے، اور ہم اقتصادی طاقت کے لحاظ سے بھی اہم ہیں، اور اگر ایک متحدہ محاذ کو برقرار رکھا جائے تو اس سے دوستانہ اور باہمی طور پر فائدہ مند سمجھوتوں تک پہنچنا ممکن ہو گا۔

اس دوران شولس نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جیسا کہ انہوں نے ماضی میں کیا تھا۔

انہوں نے کہا، "وہ حکمت عملی جو میں پہلے ہی استعمال کر چکا ہوں، یعنی واضح الفاظ اور دوستانہ گفتگو۔"

انہوں نے جرمنی کی امریکہ کے ساتھ کام کرنے کی خواہش پر زور دیا لیکن کہا "ہمیں اپنے آپ کو جھکانا نہیں چاہیے۔"

شولس نے کہا، "ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔" شولس کا کہنا تھا کہ وہ پہلے یورپی رہنما ہیں جنہوں نے کہا کہ گرین لینڈ پر قبضے کی تجویز ناقابل غور ہے۔

غزہ کے لیے ٹرمپ کے منصوبے پریہ رہنما کیا سوچتے ہیں؟

دونوں سیاست دانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ پر قبضہ کرنے اور اسے دوبارہ ترقی دینے کی تجویز کو مسترد کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

شولس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کی پٹی کو "مشرق وسطیٰ کے رویرا" میں تبدیل کرنے کے منصوبے کو وہاں تباہی اور مصائب کی حد کو دیکھتے ہوئے ایک "اسکینڈل" قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے، یہ حیران کن ہے۔

میرس نے کہا کہ وہ اس رائے سے متفق ہیں۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہ تجویز نئے امریکی صدر کے پیش کردہ متعدد "پریشان کن" خیالات میں سے ایک تھی لیکن "ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ سنجیدگی سے کیا مراد ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ کی نئی شرائط جاری رہتی ہیں تو صبر سے کام لینا دانشمندانہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ج ا ⁄ ص ز ( ڈی پی اے، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کے ساتھ شولس نے سکتا ہے ٹرمپ کے کے لیے

پڑھیں:

بھارتی یوگا گرو حریف مشروب کے خلاف توہین آمیز اشتہار حذف کرنے پر تیار

بھارتی یوگا گرو بابا رام دیو نے دہلی کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ وہ ان اشتہارات کو ہٹا دیں گے جن میں انہوں نے ایک حریف کمپنی کے مشروبات کے بارے میں متنازع بیان دیا تھا۔

نجی اخبار میں برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے حوالے سے شائع خبر کے مطابق رام دیو نے اپنی کمپنی پتنجلی کے میٹھے مشروب کی تشہیر کے لیے بنائی گئی ایک ویڈیو میں الزام عائد کیا تھا کہ کچھ برانڈز نے اپنے منافع کا استعمال مساجد اور مدارس کی تعمیر میں کیا۔

انہوں نے اس برانڈ کا نام تو نہیں لیا لیکن اسے وسیع پیمانے پر روح افزا کے بارے میں سمجھا جاتا ہے، جو ایک اسلامی خیراتی تنظیم ہمدرد لیبارٹریز کی جانب سے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے تیار کیا جانے والا مقبول مشروب ہے۔

یہ ویڈیو وائرل ہو گئی جس سے غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، ہمدرد نے ایک مقدمہ بھی دائر کیا ہے جس میں اشتہارات کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

روح افزا ایک میٹھا مشروب ہے جو بھارت اور پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں مقبول ہے اور عام طور پر اسے شربت کہا جاتا ہے، ہمدرد کی جانب سے 1906 میں متعارف کرایا جانے والا یہ شربت عام طور پر دودھ یا پانی میں ملایا جاتا ہے اور رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے والے مسلمانوں میں بہت مقبول ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں رام دیو نے ’شربت جہاد‘ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے جو ’لو جہاد‘ جیسی اصطلاحات پر مبنی ہے، جس کے ذریعے بنیاد پرست ہندو گروپ مسلم مردوں پر ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، اس معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ مسلمان ہندوؤں کی طرف سے خرچ کیے گئے پیسے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

بی بی سی کے مطابق منگل کو دہلی ہائی کورٹ کے ایک جج نے رام دیو کے بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے ’ناقابل دفاع‘ قرار دیا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • کشمیر تنازع پر ٹرمپ کی لاعلمی، 1947 کا مسئلہ 1500 سال پرانا بنا دیا
  • الجولانی کیجانب سے قابض اسرائیلی رژیم کیساتھ دوستانہ تعلقات کا پہلا اشارہ
  • کیا ٹرمپ 2028 میں بھی صدارتی الیکشن لڑیں گے؟ اشارے واضح ہونے لگے
  • جرمنی کو ایک اور ممکنہ کساد بازاری کا سامنا، بنڈس بینک
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
  • جرمنی، فرانس اور برطانیہ کا غزہ میں فوری امداد کی فراہمی شروع کرنے کا مطالبہ
  • بھارتی یوگا گرو حریف مشروب کے خلاف توہین آمیز اشتہار حذف کرنے پر تیار
  • ٹیسلا کی فروخت، منافع میں کمی، ایلون مسک کا حکومت میں اپنا کردار کم کرنے کا اعلان
  • پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ستمبر میں کرانیکا فیصلہ ، امیدواروں کیلئے تعلیمی قابلیت کی نئی شرط