مہنگی ملک بدری یا سیاسی پیغام؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
انڈیاکے مقامی وقت کے مطابق( بدھ) تقریباً 3بجے صبح امریکانے205غیرقانونی انڈین تارکینِ وطن کوملک بدرکرتے ہوئے فوجی طیارے ’’سی17ــ‘‘کے ذریعے ریاست ٹیکساس کے سین اینٹونیو ایئرپورٹ سے انڈین ریاست پنجاب کے شہرامرتسر کیلئے بھیج دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ یہ اقدام انڈین وزیرِاعظم نریندرمودی کے متوقع امریکی دورے سے قبل سامنے آیاہے،جس کے باعث قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ آیا امریکا اور انڈیاکی مضبوط دوستی میں کوئی دراڑپیداہورہی ہے؟
انڈیاکے معروف وکیل اورایوان بالاکے رکن کپل سبل نے سوشل میڈیاپلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر انڈین وزیراعظم کومخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’’مودی جی،ٹرمپ205غیرقانونی تارکین وطن کو انڈیاواپس بھیج رہے ہیں۔بظاہرانہیں انڈیاجانے والے طیارے میں بٹھانے سے پہلے ہتھکڑیاں لگائی گئی ہیں،مودی جی کچھ توبولیے۔‘‘ ٹرمپ نے حالیہ صدارتی انتخابات میں امریکا میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف بڑے پیمانے پرکریک ڈائون کا آغازکرنے کے نام پرکامیابی حاصل کی تھی اورجب سے وہ وائٹ ہائوس کے مکین بنے ہیں تب سے اس فیصلے پرپوری شدت کے ساتھ عملدرآمد کیاجارہاہے۔
امریکی امیگریشن قوانین میں سختی گزشتہ کچھ سالوں سے دیکھی جارہی ہے اورجوبائیڈن انتظامیہ بھی غیرقانونی تارکینِ وطن کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ نظرآتی تھی ۔ امریکا میں غیرقانونی طورپرداخل ہونے والے انڈین شہریوں کی تعدادمیں بھی اضافہ ہواہے،اورامریکی حکومت ان تارکینِ وطن کی واپسی کیلئے سخت اقدامات کررہی ہے۔امریکا کیلئے غیرقانونی امیگریشن ایک بڑامسئلہ بن چکاہے،جس کی وجہ سے وہ تمام ممالک کے تارکینِ وطن کے خلاف یکساں پالیسی اختیار کر رہاہے۔تارکین وطن کوفوجی طیاروں میں لادے جانے کے مناظراس پیغام کا حصہ معلوم ہوتے ہیں کہ ٹرمپ ایسے ’’جرائم‘‘ کے خلاف انتہائی سخت ہیں۔ تارکین وطن کو طیاروں میں لادتے ہوئے انہیں بیڑیوں سے باندھنا اور ہتھکڑیاں لگانابھی اسی حکمت عملی کاحصہ لگتا ہے۔
امریکا میں رہنے والے دنیابھرکے غیر قانونی تارکین وطن کوکمرشل اورفوجی طیاروں کے ذریعے ان کے وطن واپس بھیجاجارہا ہے۔تاہم امریکامیں غیرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کیلئے فوجی طیاروں کااستعمال غیرمعمولی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کی فلائیٹ عام کمرشل پروازکی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔یاد رہے کہ حال ہی میں کولمبیااور میکسیکونے اپنے اپنے غیرقانونی تارکین وطن کولانے والی امریکی فوجی پروازوں کوقبول کرنے سے انکارکردیاتھااور کولمبیا کے صدر گستاوپیٹرو نے کہاتھاکہ وہ صرف سویلین طیاروں کے ذریعے آنے والے ہی اپنے شہریوں کو قبول کریں گے لیکن امریکاکی جانب سے سی17 فوجی طیارے کے ذریعے غیرقانونی انڈین تارکین وطن واپس انڈیا بھیجے جانے کے اعلان کے بعدسے حکومت ہند کی جانب سے اس نوعیت کاکوئی ایسابیان سامنے نہیں آیا۔
ماضی میں انڈین حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کو ان کی شناخت کے بعدقبول کرلیتے ہیں۔ گزشتہ سال بھی بہت سے غیرقانونی تارکین وطن کو یورپی ممالک سے انڈیاواپس بھیجاگیاتھا۔بزنس سٹینڈرڈ کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے 18ہزار غیرقانونی انڈین تارکین وطن کوفوری واپس انڈیابھیجنے کی نشاندہی کی ہے اوراب205تارکین وطن پرمشتمل پہلی کھیپ امریکاسے انڈیاپہنچ چکی ہے۔انڈیامیں سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے ساتھ ساتھ مودی کوبھی تنقیدکانشانہ بنایاجارہاہے اور پوچھا جارہاہے کہ ان کی ’’دوستی میں یہ کیسا مرحلہ آگیا ہے‘‘۔بہت سے صارفین انڈین تارکین وطن کو ہتھکڑیوں میں امریکابدرکرنے پربھی غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
امریکی اداروں کی رپورٹس کے مطابق، امریکامیں سائبرکرائمزمیں ملوث افرادکی ایک بڑی تعدادانڈین تارکینِ وطن پرمشتمل ہے۔ کئی کیسز میں انڈین شہریوں پرمالیاتی دھوکہ دہی ، شناختی چوری،اورآن لائن فراڈجیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔اس کے باعث امریکی حکام سائبر سیکیورٹی قوانین کومزیدسخت بنارہے ہیں اوران مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افرادکے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔یہ پہلوبھی غیرقانونی انڈین تارکینِ وطن کی ملک بدری کے حالیہ فیصلے میں ایک اہم عنصرہوسکتاہے۔
پیوریسرچ سینٹرکے تخمینے کے مطابق 2022ء تک امریکا میں سات لاکھ سے زیادہ مکمل اورقانونی دستاویزات نہ رکھنے والے انڈین رہ رہے تھے۔یہ میکسیکواورسلواڈورکے بعد امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کاتیسراسب سے بڑاگروپ ہیں۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں سے بہت سے انڈین قانونی طور پر امریکامیں داخل ہوئے لیکن ویزے کی مدت ختم ہونے کے بعدبھی وہ مناسب دستاویزات کے بغیر وہیں قیام پذیرہیں۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے بھی ہیں جوبغیردستاویزات کے غیرقانونی طریقے سے مختلف ممالک کی سرحدیں عبورکرتے ہوئے امریکا میں داخل ہوتے ہیں۔امریکی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق صرف دوسال قبل یعنی2023ء میں تقریباً 90ہزار انڈین شہریوں کوامریکامیں غیر قانونی طورپرداخل ہونے پرگرفتارکیاگیاتھا۔
گذشتہ ماہ24جنوری کووائٹ ہاس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پرہتھکڑیوں اوربیڑیوں میں جکڑے تارکین وطن کی ایک ساتھ بندھے ہوئے ایک فوجی طیارے کی طرف جاتے ہوئے تصویریں پوسٹ کی تھیں۔ان کی پوسٹ میں لکھا تھا کہ ’’ملک بدری کی پروازیں شروع ہوگئی ہیں۔ صدرٹرمپ پوری دنیاکو ایک مضبوط اورواضح پیغام دے رہے ہیں:اگرآپ غیرقانونی طور پر امریکامیں داخل ہوئے ہیں توآپ کوسنگین نتائج کا سامناکرناپڑے گا‘‘۔
یاد رہے کہ ٹرمپ غیرقانونی تارکین وطن کو حراست میں لینے اوراپیل کیلئے وقت دینے کے بجائے انہیں گرفتاری کے بعدجلدازجلد ملک بدر کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہیں۔انہوں نے دسمبر 2024ء میں کہاتھاکہ ’’میں نہیں چاہتاکہ وہ اگلے20سالوں تک(امریکامیں موجود)کیمپوں میں پڑے رہیں۔میں انہیں باہر نکالنا چاہتا ہوں، اوران کے ممالک کو انہیں واپس لیناہوگا۔اگرچہ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران تارکین وطن کے معاملے پرباتیں ہوئی تھیں لیکن اب ان کی وائٹ ہائوس میں دوبارہ آمدتارکین وطن کیلئے بڑاچیلنج بن گئی ہے۔ یادرہے کہ امریکی صدرٹرمپ نے گوانتاناموبے میں غیرقانونی تارکینِ وطن کیلئے ایک حراستی مرکز بنانے کاحکم دیاہے جہاں 30ہزار افرادکورکھاجاسکے گا۔
کیوبامیں امریکی بحریہ کے اڈے پر بنایا جانے والاحراستی مرکزوہاں موجودہائی سکیورٹی جیل سے الگ ہوگا جہاں ان’’بد ترین جرائم پیشہ غیرقانونی تارکینِ وطن کورکھاجائے گاجوامریکی عوام کیلئے خطرہ ہیں‘‘۔یادرہے کہ ایک طویل عرصے سے گوانتاناموبے کو غیرقانونی تارکین وطن کو رکھنے کیلئے استعمال کیاجاتارہاہے جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جاتی رہی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ میں سرحدی امور کے سربراہ ٹام ہومن کاکہناہے وہاں پہلے سے موجود مرکزکی توسیع کی جائے گی۔ان کے مطابق اس کا انتظام امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) سنبھالے گی۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس مرکزکی توسیع پرکتنی لاگت آئے گی یایہ کب تک مکمل ہوسکے گالیکن کیوباکی حکومت نے ٹرمپ کے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔
صدرٹرمپ کی جانب سے ملک سے دس لاکھ افرادکے قریب ایسے تارکین وطن کونکالنے کابھی اعلان کیاہے جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں ہیں لیکن اس منصوبے کے راستے میں امریکا کے وہ شہررکاوٹ بن سکتے ہیں جنہیں ’’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘‘قراردیاجاتاہے۔ان میں لاس اینجلس، نیویارک،ہیوسٹن،شکاگواوراٹلانٹاجیسے شہر شامل ہیں،جہاں بناقانونی دستاویزوالے تارکین وطن کی ایک بڑی تعدادموجود ہے اوران شہروں کی مقامی پالیسیاں بھی ملک کے دیگرحصوں کی نسبت نقل مکانی کیلئے زیادہ دوست نوازہیں۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: غیرقانونی تارکین وطن کو غیرقانونی انڈین تارکین تارکین وطن کی امریکا میں کی جانب سے کے مطابق کے ذریعے ملک بدری رہے ہیں کے خلاف کی ایک بہت سے رہے کہ وطن کے
پڑھیں:
سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 ستمبر 2025ء ) وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہےکہ سندھ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ممالک امداد مانگنے پر فورس کر رہی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کے لیے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلز پارٹی کو اس بیانیے میں شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب اس وقت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ مریم نواز اور پنجاب کی انتظامیہ دن رات سیلاب متاثرین کی بحالی اور ریلیف میں مصروف ہیں۔ الحمدللہ پنجاب حکومت اپنے وسائل سے متاثرین کی ہر ممکن مدد فراہم کر رہی ہے اور وفاق یا کسی دوسری تنظیم سے کسی قسم کی امداد کی طرف نہیں دیکھا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے تمام وسائل اور حکومتی مشینری کا رخ متاثرہ علاقوں کی طرف موڑ دیا ہے۔
اس وقت ہمارا فوکس صرف عوامی خدمت ہے، اسی لیے ہم سیاسی تلخیوں کو اتحادی سمجھ کر برداشت کر رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کے جعلی فلسفے اور ناکام تھیوریاں سنیں۔وزیر اطلاعات پنجاب نے کہا کہ منظور چوہدری اور حسن مرتضیٰ اپنے دکھ اور فلسفے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کو سنائیں۔ سندھ میں سیلاب سے کوئی بڑا جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، اس کے باوجود پیپلز پارٹی وفاق کو بیرون ملک امداد لینے پر مجبور کر رہی ہے جو غیر سنجیدہ رویہ ہے۔عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے ہارے ہوئے رہنماؤں کو پہلے سندھ کے عوام کے مسائل کی فکر کرنی چاہیے، جہاں 2022 کے سیلاب متاثرین آج تک امداد کے منتظر ہیں۔