کثیرالملکی بحری مشق امن2025ء
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
سمندر کئی صدیوں سے انسانوں کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ابتداء میں تو سمندر میں چھپے قدرتی خزانوں سے انسان لاعلم تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، دنیا کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا، ممالک دنیاکے نقشے پر اُبھرے، سائنس نے ترقی کی تو سمندری افادیت بھی عیاں ہوتی گئی۔ اقوام عالم کو یہ احساس ہونے لگا کہ سمندر میں چھپے خزانے اُن کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ ملکی آمدن کا ذریعہ بھی ہیں۔ سمندروں پر برتری قائم کرنے اور سمندری خزانوں پر قبضہ جمانے کے لیے طاقت کا استعمال شروع ہو گیا۔ اس کے علاوہ سمندوں کو دفاع اور حفاظت کے لیے استعمال کیا جانے لگا ۔ جہاں سمندر قدرت کی بے پناہ نعمتوں سے مالا مال ہیں وہاں سمندروں کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔ ان خطرات میںبحری قزاقی، غیر قانونی نقل و حرکت، سمندری دہشت گردی اورانسانی اسمگلنگ جیسے خطرات شامل ہیں۔ دنیا کی 80 فی صد تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے اور اس تجارت کو یہ خطرات لاحق ہیں۔اِن خطرات سے مؤثر انداز سے نمٹنا اور سمندری تجارتی راستوں کو محفوظ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر سمندری ماحول پُر امن ہو تو دنیا کے تمام انسان قدرت کے اس بیش بہا قیمتی نعمت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ سمندری وسائل کا منصفانہ استعمال ہوگا، سمندری اُمور پر تحقیق ہوگی، سمندری راستوں سے مال کم لاگت میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچایاجا سکے گا، خطے میں خوشحالی اور ترقی آئے گی اور خاص طور پر سمندر اور اُن میں چھپے خزائن کو محفوظ اور دیرپا بنایا جائے گا – یہ سب کچھ اُس وقت ہی ممکن ہوسکے جب سمندروں کو لاحق خطرات کا ادراک ہوگا اور تمام قومیں ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ سوچ کے ساتھ کاوشیں کریں گیں۔
اقوام ِعالم اور خطے کی بحری اقوام کو ایک جگہ اکھٹا کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت تو لازم ہے ۔دنیا کی اس ضرورت کوپاکستان نے پورا کیا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے امن و سلامتی کا خواہاں رہا ہے اور اس سلسلے میں کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور کئی کثیرالملکی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی گئی۔ اقوام متحدہ کے امن مشن میں پاکستان کی افواج کے کردار اور قربانیوں کو دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس کے علاوہ دنیامیں آنے والی قدرتی آفات میں پاکستان کی امدادی سرگرمیوں کا اعتراف بھی عالمی سطح پر کیا جاتا ہے۔پاکستان کی مسلح افواج پاکستان کی سفیر بن کر پاکستان کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے میں کوشاں ہیں۔
قدرت نے پاکستان کوسمندر جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے ۔ پاکستان کا سمندری علاقہ مختلف پہلوئوں سے اہمیت کا حامل ہے ۔ساحل سمندر اور سمندری حدود کی نگرانی کی ذمہ داری پاکستان بحریہ کی ہے۔پاکستان بحریہ ایک باصلاحیت فوج ہے ۔یہ فوج نہ صرف بحری سرحدوں کی نگہبانی کو یقینی بناتی ہے بلکہ ملکی اقتصادیات کو مضبوط بنانے میں سمندرکی اہمیت اور اس سے جُڑے معاشی فوائد سے بھی بخوبی واقف ہے۔پاکستان نیوی بلیو اکانومی کے بارے میں آگہی کے فروغ میں بھی پیش پیش نظر آتی ہے ۔
سمندری وسائل سے فائدہ اُٹھانے کے لیے سمندروں میں امن کا قیام اور سمندری تجارت کامکمل تحفظ از حد ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بحری تجارت کو درپیش چیلنجز سے مؤثر انداز میں نمٹنا بھی عصر ِ حاضر کی ضرورت ہے۔بحری آلودگی اور سمندری حیات کو لاحق خطرات بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہیں ۔ اسی طرح موسمیاتی تبدیلی بھی میرین ایکوسسٹم میں بگاڑ پیدا کررہی ہے۔ مفادات کے تحفظ اور برتری کو قائم کرنے کی عالمی مسابقت نے کئی میری ٹائم مسائل کو جنم دیا ہے ۔ان تما م مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کی بحری اقوام کا یکجا ہونا اور متفقہ لائحہ عمل کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔پاکستان نیوی نے اس ضرورت کا ادراک کیا اور سال 2007کو امن مشقوں کے سلسلے کی پہلی مشق منعقد کر کے سمندروں پر امن کے قیام کے قومی عزم کا اظہار کیا۔
کثیرالملکی بحری مشق امن ہر دو سال بعدکراچی اور بحیرہ عرب میںمنعقد کی جاتی ہے ۔اس مشق میں دنیا بھر سے عالمی بحری افواج، بحری اُمور کے ماہرین،عالمی مبصرین اور تجزیہ نگار شریک ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی بحری افواج اپنے جہازوں، ایئرکرافٹ،اسپیشل سروس گروپ، میرینزاور دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں کے ساتھ اس مشق میں شریک ہوتی ہیں۔امن مشقوں کے مقاصد عالمی نوعیت کے ہیں جن سے عالمی برادری کو فائدہ حاصل ہوتا ہے، سمندر میں امن قائم ہوتا ہے۔اس مشق میں شریک بحری افواج کے درمیان تعاون کے ذریعے بحری سلامتی اور استحکام کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ بحری قزاقی، دہشت گردی، اسمگلنگ، اور غیر قانونی تجارت جیسے مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متفقہ پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔مشترکہ تربیت اور تعاون کو فروغ دے کر بین الاقوامی ہم آہنگی کو بہتر بنایا جاتا ہے۔سمندروں پر قیام ِ امن کے لیے اتحاد اور تعاون کے ذریعے سمندری قیام ِ امن کا پیغام دیا جاتا ہے۔
امن مشق دو مرحلوں میں منعقد کی جاتی ہے ۔ہاربر فیز کے دوران ورکشاپس، سیمینارز،اسپیشل سروس گروپ کی مشقیںاور ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تاکہ باہمی افہام و تفہیم کو بڑھایا جا سکے۔سمندر مرحلہ(سی فیز) عملی بحری مشقوں پر مبنی ہوتا ہے، ان میںبحری قزاقوں کے خلاف کارروائیاں، سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز، گولہ باری کی مشقیں اور بحری جنگی حکمت عملی شامل ہے۔امن مشق علاقائی اور عالمی بحری سلامتی میں تعاون کے ذریعے بہتری لاتی ہے۔اس مشق میں شریک بحری افواج اپنی حکمت عملیوں، تکنیکوں، اور تجربات کا تبادلہ کرتی ہیں جوبحری قزاقی، اسمگلنگ، اور دہشت گردی کے خلاف ان کی صلاحیتوں کو مضبوط کرتی ہیں۔یہ مشقیں مختلف ممالک کے درمیان اعتماد اور خیرسگالی کو فروغ دیتی ہے، جن میں بڑی طاقتیں اور چھوٹے ممالک شامل ہوتے ہیں۔کم ترقی یافتہ بحری افواج جدید بحری ٹیکنالوجی اور عملی حکمت عملیوں سے آگاہی حاصل کرتی ہیں۔مشترکہ کارروائیوں کی تربیت مشترکہ آپریشنز کرنے کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ان مشقوں کے انعقاد سے علاقائی امن کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔
سال 2007میںامن مشقوں کے سلسلے کی پہلی مشق میں عالمی افواج کی حوصلہ افزاء شرکت کے نتیجے میںپاکستان نے مشق کے اس سلسلے کو ہر دو سال بعد منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس طرح بحیرہ عرب میں سال2013,2011,2009میں بالترتیب دوسری، تیسری اور چوتھی امن مشق کا انعقاد کیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر مشق میں شریک بحری افواج کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور پاکستان کے اس اقدام کو عالمی سطح پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔
امن مشقوں کے سلسلے کی پانچویں مشق امن 2017، 10تا 14فروری کوبحیرہ عرب میں منعقد ہوئی جس میں 36سے زائد عالمی بحری افواج کے جہازوں ، ایئر کرافٹ، ہیلی کاپٹرز ، اسپیشل آپریشنز فورسز/دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیمیںاور میرینز کے ساتھ ساتھ 65سے زائدعالمی مبصرین شریک ہوئے۔ امن مشق 2019میں آسٹریلیا، اٹلی،امریکہ،برطانیہ،پولینڈ،ترکی، چائنا،سری لنکا ، عمان اور ملائیشیاکے جہازوں، ایئرکرافٹ اور اسپیشل آپریشن فورسز و دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں نے شرکت کی۔اسی طرح امن 2021میں بیالیس ممالک کی بحری افوا ج کے جہازوں، ایئرکرافٹ، اسپیشل آپریشن فورسز و دھماکہ خیز مواد کو ناکارہ بنانے والی ٹیموں اور مبصرین نے حصہ لیا۔امن2023مشق کی خاص بات یہ تھی اس مشق کے دوران پہلی پاکستان انٹرنیشنل میری ٹائم نمائش نمائش اور کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔
امن مشقوں کے سلسلے کی نویں مشق امن2025اس سال فروری میں منعقد ہو رہی جس میںدنیا بھر سے پچاس سے زائد ممالک کی بحری افواج اپنے اثاثوں کے ساتھ شرکت کریں گی۔ اس کے علاوہ مبصرین، میری ٹائم ماہرین اور تجزیہ نگا ر بھی اس مشق میں شریک ہوں گے۔ اس مشق کی منفرد خصوصیت پہلی مرتبہ امن ڈائیلاگ کا انعقاد ہے ۔ امن ڈائیلاگ کے دوران بحری افواج ، کوسٹ گارڈز اور ڈیفنس فورسز کے سربراہان علاقائی اور عالمی میری ٹائم سیکیورٹی پر تبادلہ خیال کریں گے اور عصر ِ حاضرکے بحری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مؤثر حل تلاش کریں گے۔
اس مشق کے دوران قائم ہونے والی اعتماد سازی یقینا عالمی بحری امن خصوصاً بحرِہند میں امن و سلامتی کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب کرے گی۔امن مشقوں میں عالمی بحری افواج کی بھر پور شرکت اس امر کی دلیل ہے کہ اقوامِ عالم خطے میں قیام امن کے سلسلے میں کی جانے والی پاکستان کی کاوشوںکو ثمر آور مانتی ہے۔اس مشق کے مسلسل انعقاد سے جہاں بحری امن و استحکام کے حصول کے لئے متفقہ سوچ کے قیام اور عالمی کاوشوں کو یکجا کرنے کا ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا ہوا وہاںپاکستان کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرنے میں بھی یہ مشقیں مدد گار ثابت ہوئی ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: امن مشقوں کے سلسلے کی اس مشق میں شریک اس کے علاوہ پاکستان کی بحری افواج ہے پاکستان عالمی بحری اور سمندری چیلنجز سے میری ٹائم کے دوران کے ذریعے ہوتا ہے کی بحری نے والی جاتا ہے کے ساتھ اور اس کے لیے مشق کے
پڑھیں:
چالیس ممالک کی افواج اور ایک اسرائیل
ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اسرائیل اتنا طاقتور اور مضبوط ہوجائے گا کہ وہ تمام عرب اسلامی ممالک کی سرزمین پر جہاں چاہے حملہ کردے گا اور کوئی اسے اسی انداز میں جواب بھی نہیں دے پائے گا۔ ایک کے بعد ایک اور واردات اسرائیل کرتا جا رہا ہے اور ہم میں سے کوئی ایک اسلامی ملک بھی اس قابل نہیں کہ اسے اس کی اس دلیری کا جواب دے سکے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم ہر بار صرف مذمت کر کے رک جاتے ہیں یا پھر معاملہ پر غور کرنے کے لیے OIC یا عرب سربراہ ممالک کا اجلاس بلا لیتے ہیں اور ایک قرارداد پاس کرا کے اپنے اپنے گھروں کو لو ٹ جاتے ہیں۔
یہ ہم ہر بار دیکھتے رہے ہیں اور آیندہ بھی شاید دیکھتے رہیں گے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم نے چالیس اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل ایک اتحادی گروپ کیوں بنایا ہوا ہے۔ بناتے وقت تو یہ کہا گیا تھا کہ جب بھی کسی اسلامی ملک پر کوئی غیر اسلامی ملک حملہ کرے گا یہ چالیس ممالک ملکر اس کا مقابلہ کریں گے، مگر ایسا لگتا ہے وہ اتحاد بھی باقی تمام اتحادوں کی طرح صرف نام کا اتحاد ہے اورعملاً کوئی اسے کسی کام کی اجازت ہی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اسے اسرائیل اور امریکا کے علاوہ کسی اور ملک کی جارحیت کا جواب دینے کا اختیار ضرور حاصل ہے۔
گزشتہ دو سالوں سے اسرائیل کی جارحیت بہت بڑھتی جارحیت۔ وہ ایک ایک کر کے ہر اسلامی ملک پر حملہ آور ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے اس نے صرف فلسطین کو نشانہ بنایا ہوا تھا مگر اب وہ دیگر اسلامی ممالک کی سرزمین پر بھی حملے کرتا جا رہا ہے۔ قطر سے پہلے اس نے ایران، یمن، لبنان پر بھی حملے کر کے اُن کی جوابی صلاحیت کا پتا لگا لیا اور شاید وہ دن دور نہیں جب وہ سعودی عرب اور پاکستان پر بھی جارحیت کی منصوبہ بندی کر ڈالے۔
ہمیں اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا اور سوچنا ہوگا کہ اگر ایسا ہوا تو ہمارا جواب کیا ہوگا۔ وہی جو آج دیگر اسلامی ممالک کا ہے یا پھر ہماری غیرت جوش مار کر اُسے سبق سکھانے پر مجبور ہوجائیں گی۔ ایسا نہ ہو کہ امریکا بہادر ہمیں صبرکی تلقین کر کے اور اسرائیل کی ہلکی سی مذمت کر کے ہمیں اس جوابی کارروائی سے روک دے اور ہم ازراہ محبت اور ازراہ دوستی اس کی بات مان جائیں۔
امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ ایک طرف اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے تو دوسری طرف عرب اور اسلامی ممالک سے دوستی اور محبت کا اظہار کر کے اُنہیں اپنے دام میں پھنسا لیتا ہے۔کچھ دنوں قبل اس نے سعودی عرب، قطر اور یو اے ای کا دورہ کرکے اپنے ملک کے لیے کئی سودے کر ڈالے اور اُنہیں ہتھیار فراہم کرنے کے عوض اربوں ڈالر کما لیے۔ ہمارے عرب سربراہوں نے اس کے استقبال کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کردیں اور خوشی سے سرشار ہو کر تمام سودوں پر فوراً دستخط بھی کر دیے۔ قطری خلیفہ نے تو جناب ٹرمپ کو ایک بہت ہی بڑے مہنگے دلکش طیارے کا تحفہ بھی دے دیا۔
یہی ٹرمپ آج اس خلیفہ کو اسرائیلی حملے کے بعد جوابی کارروائی نہ کرنے کی تلقین بھی کر رہا ہے اور اندرون خانہ اسرائیل کو شاباشی بھی دے رہا ہے کہ بالکل درست کیا۔ جو ملک تمہارے دشمن افراد کی مہمان نوازی کرے اس ملک پر حملہ کرنا تمہارا استحقاق ہے۔ یہ ہے وہ ڈپلومیسی جس پر آج کا امریکی صدر ٖفخر سے اپنا سینہ چوڑا کر رہا ہے۔ اس کا خیال ہے دنیا اس کی اس حکمت عملی کو پسند بھی کرتی ہے اور داد بھی دیتی ہے۔
پاک بھارت جنگ رکوانے کا بیسیوں اور تیسیوں بار ذکر کر کے سارا کریڈٹ اپنے نام کر کے وہ سمجھ رہا ہے کہ دنیا اس کی اس بات کو من و عن مان لے گی۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی بہت سی جنگیں ہوئیں اور اُن کا سیز فائر بھی ہوا لیکن کسی اور صدر نے اس کا کریڈٹ اس طرح کبھی بھی اپنے نام نہیں کیا۔ کارگل کی جنگ بھی امریکا کے اور صدر نے رکوائی تھی لیکن ہم نے اسے ایسا کریڈٹ لیتے کبھی بھی نہیں دیکھا۔ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی اسے اس بات کا احساس تک نہیں دلاتے کہ یہ تمہارا کریڈٹ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے امن کا نوبل انعام دلوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ امن کا نوبل انعام اس شخص کو ضرور ملنا چاہیے جو اسرائیل کی جارحیت کو روک سکے، مگر یہاں تو ایسا معاملہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی پر اسے امن کا دشمن قرار دینا چاہیے۔
اسلامی ممالک سے زیادہ تو آج دیگر غیر اسلامی ممالک اسرائیل کی اس جارحانہ کارروائیوں پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسرائیل کی مذمت میں وہاں لاکھوں افراد سراپا احتجاج ہیں۔ غزہ کے معصوم اور بے گناہ افراد کے قتل پر اسرائیل کی سرپرستی کرنے والا امن کا داعی کیسے ہوسکتا ہے۔ غزہ پر اسرائیل کے قبضے کو جائز قرار دینے والا کون شخص ہے۔ ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سب دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اس ٹرمپ کی اندھی حمایت کرتے جا رہے ہیں، ہم اگر اس پر تنقید نہیں کرسکتے ہیں تو کم از کم اس کی تعریفیں تو نہ کیا کریں۔
وہ شخص آج ہمارے معدنی ذخائر کی وجہ سے ہم سے پیار و محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے اور ہمارے مقابلے میں بھارت کو نیچا دکھا رہا ہے۔ دیکھا جائے کہ جوجرم بھارت نے روس سے تیل خرید کرکیا ہے ویسا ہی جرم تو ہم بھی کر رہے ہیں۔ یعنی امریکا جسے اپنا بہت بڑا دشمن اور حریف ملک سمجھتا ہے ہم اسی ملک چین سے دوستی اور محبت کے رشتے استوارکیے ہوئے ہیں۔ کل مزاج بدلتے ہی وہ ہم سے بھی کہہ سکتا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو یا چین کے۔ جس طرح نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر بش نے پرویز مشرف سے کہا تھا کہ تم ہمارے دوست ہو یا ہمارے مخالفوں کے۔ نتیجتاً ہم نے اپنا سب کچھ اس پر نثارکر دیا تھا اور اپنی سرزمین کو اگلے کئی سالوں کے لیے دہشت گردی کی آماج گاہ بنا لیا تھا۔ جو بربادی اس کے بعد ہوئی تھی ہم آج تک اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔
ہمیں آج اس رویہ کو یاد کرتے ہوئے اس قدر غافل نہیں ہوجانا چاہیے کہ امریکا ایک بار پھر ہمارے ساتھ وہی طرز عمل اختیار کر ڈالے۔ اسے ہماری چین کے ساتھ دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی، وہ اگر آج اسے نظر اندازکیے ہوئے ہے تو اس کے پیچھے بھی اس کے کچھ خفیہ مقاصد کارفرما ہیں۔ وہ جلد اپنا پینترا بدل کر پھر ہم سے دشمنی مول لے سکتا ہے۔ اسرائیل ہمارے پڑوسی ملک ایران تک پہنچ چکا ہے توکل ہماری سرزمین پر بھی پہنچ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم کیا جوابی کارروائی کر پائیں گے۔ ہمیں آج سے اس کی پلاننگ کرلینا ہوگی۔ یاد رہے کہ پھر امریکا بھی ہمارا دشمن ہوسکتا ہے اور وہ ساری دوستیاں اور مہربانیاں جو وہ آج دکھا رہا ہے عداوت اور دشمنی میں بدل سکتی ہیں۔