نیویارک(نیوز ڈیسک) پاکستان نے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھا دیا۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور مجید بریگیڈ کی دہشت گردی کے خطرات کے خلاف عالمی اقدام کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان کے اندر داعش کی بھرتی کا الزام جھوٹا اور بے بنیاد ہے، داعش کا خطرہ خطے کی حدود سے نکل چکا ہے، یہ تشویش ناک امر ہے کہ داعش کے خطرے کا ذکر تو کیا جا رہا ہے، لیکن پاکستان کو لاحق خطرات، بالخصوص ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ کا کوئی ذکر نہیں ہو رہا۔

منیر اکرم نے انسداد دہشت گردی حکمت عملی پر بہتر عمل کیلئے جنرل اسمبلی کو ذیلی ادارہ بنانے کی تجویز بھی دی۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: سلامتی کونسل میں

پڑھیں:

بھارت کا سپر پاور بننے کا خواب چکنا چور

پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہے اور 24 کروڑ پاکستانیوں کے اس بنیادی حق پر آنچ نہیں آنے دیں گے، پاکستان، ہندوستان کی اجارہ داری کبھی قبول نہیں کرے گا، کشمیرکا کوئی بھی سودا ممکن نہیں، ہم کبھی بھی کشمیر کو بھول نہیں سکتے، ہندوستان جان لے کہ پاکستان کشمیرکوکبھی نہیں چھوڑے گا۔ ان خیالات کا اظہار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے مختلف جامعات کے وائس چانسلرز، پرنسپلز اور سینئر اساتذہ سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

 بلاشبہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پوری قوم کا فخر ہیں جن کی بہترین جنگی حکمت عملی کی بدولت پاکستان سرخرو ہوا۔ ان کی قیادت میں تینوں افواج نے بھارت کے تمام عزائم خاک میں ملادیے۔ ان کی اساتذہ اور طلبہ سے مدلل گفتگوکے جو نکات سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق مسئلہ کشمیر، پانی کی تقسیم اور دہشت گردی سے دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے امن اور استحکام کو ایک مستقل خطرہ لاحق ہے۔

بھارت نے ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ایک مشکوک واقعے کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی، جس سے خطے کا امن خطرے میں پڑگیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے تحمل اور ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہ کرکرارا جواب دیا۔

بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی اور پاکستان نے یہ جنگ جیت لی۔ بین الاقوامی طور پر بھی دیکھیں تو پاکستان جنگ جیت گیا ہے، لیکن دوسری جانب تنازعات کے پرامن حل میں شامل ہونے سے ہندوستان کا انکار یکطرفہ اور بین الاقوامی اصولوں کو نظر اندازکرنے کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی امن اور سفارت کاری پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا اور سنگین تنازع مسئلہ کشمیر ہے۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر کے الحاق کے معاملے پر پیدا ہونے والا یہ تنازع آج تک حل طلب ہے۔

اس تنازعے کے باعث دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگیں اور بے شمار جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ 7 سے 10مئی تک جاری رہنے والے حالیہ تصادم کی وجہ بھی مسئلہ کشمیر ہی ہے،کیونکہ مقبوضہ کشمیرکے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو سیاحوں پر ہونے والے حملے کا الزام بھارت نے پاکستان پر عائد کر دیا، مگر پاکستان کی جانب سے غیرجانبدارانہ تحقیقات کے مطالبے کے باوجود بھارت اس طرف نہیں آیا اور مسلسل مبارزت طلب رہا۔اس طرح بھارتی جنگی جنون جنوبی ایشیا کی دو جوہری قوتوں کو ایک بڑی جنگی کے کنارے پر لے آیا تھا۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیرکا حل نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

یہ تنازع نہ صرف خطے کی سلامتی کو متاثرکرتا ہے بلکہ دو ایٹمی قوتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کی بنیادی وجہ بھی ہے۔ پاکستان کا تاریخی موقف ہے کہ کشمیر کے عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینا ہی اس مسئلے کا واحد قانونی اور اخلاقی حل ہے۔1947میں آزادی کے بعد برصغیرکی ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ عوام کی منشا سے پاکستان یا بھارت میں شمولیت کا انتخاب کر سکتی ہیں، مگر جموں وکشمیر، جس کی اکثریت مسلمان آبادی تھی، کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی منشا کے خلاف بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا۔

اس فیصلے کے خلاف کشمیری عوام نے بغاوت کی جس کے نتیجے میں پہلی پاک بھارت جنگ (1947-48) چھڑگئی۔ تنازعے کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا جہاں قرارداد 47 (1948) اور بعد میں قرارداد 91 (1951) کے ذریعے استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے لیے ایک خصوصی کمیشن (UNCIP) تشکیل دیا گیا، لیکن بھارت کی جانب سے فوجی انخلا نہ کرنے کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

مسئلہ کشمیرکا حل نہ صرف خطے کے امن بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اورکشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق پرامن حل کی حمایت کرتا رہے گا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں ملتا جنوبی ایشیا میں حقیقی امن کا حصول ممکن نہیں۔ قائداعظم نے یونہی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار نہیں دیا تھا۔کشمیر سے نکلنے والے دریا پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے آبِ حیات کا درجہ رکھتے ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار نے پانی کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش پہلے بھی کی اور اب کرنے جا رہا ہے۔

2019میں مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ ’’ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘مودی کی جانب سے یہ الفاظ پانی کو جنگ کے ہتھیارکے طور پر استعمال کرنے کی دھمکی تھی۔ حال ہی میں پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرکے اور بعد ازاں دریائے چناب اور جہلم کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈال کر عملی طور پر بھی یہ ثابت کردیا ہے۔

ان واقعات سے پاکستان کے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ بھارت پانی کے بہاؤکو روک کر پاکستان کے لیے معاشی اور زرعی بحران پیدا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے کیونکہ پاکستان کی زرعی معیشت دریاؤں کے پانی پر انحصارکرتی ہے اور سندھ طاس معاہدہ کے خلاف مغربی دریاؤں پر بھارتی کنٹرول سے متعدد خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔

یہ حقیقت بھی کسی طرح ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں ملوث رہا ہے جسے موجودہ تناظر میں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے مستند شواہد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی جانب سے بارہا بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔ پاکستان بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں شامل ہے۔

بھارت گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران بلوچستان میں ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی خفیہ مہم چلا رہا ہے۔ پاکستان بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کے سالہا سال سے ناقابل تردید ثبوت پیش کررہا ہے۔ 2009 میں مصرکے شہر شرم الشیخ میں دوطرفہ بات چیت کے دوران باضابطہ طور پر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ اٹھایا گیا۔ شرم الشیخ میں پاکستان نے اپنی سرزمین پر بھارتی انٹیلی جنس کارروائیوں پر پہلی مرتبہ خدشات اظہارکیا۔

وکی لیکس 2010میں اس بات کا انکشاف سامنے آیا کہ ’’امریکی سفارتی کیبلز کے مطابق بین الاقوامی مبصرین پاکستان میں بھارتی خفیہ سرگرمیوں بشمول بلوچستان میں بدامنی سے منسلک کارروائیوں سے آگاہ تھے۔‘‘ 2015 میں پاکستان نے اپنی شکایات کو عالمی سطح پر لے جا کر اقوام متحدہ کو ایک تفصیلی ڈوزیئر پیش کیا، جس میں بلوچستان میں دہشت گردی کی سرپرستی میں بھارت کے کردار کا خاکہ پیش کیا گیا۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے ناقابل تردید شواہد اور بھارتی حکومت کا انھیں تسلیم نہ کرنا خطے کو جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بار بار بھارتی دہشت گردی کے شواہد دیے جا رہے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ان پر عمل درآمد کیا جائے۔

بھارتی ریاستی دہشت گردی کا شکار پاکستان تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہیں۔ بھارت پاکستان میں اپنے پراکسیز کے ذریعہ دہشت گردی کرتا ہے، جب پاکستان نے دہشت گردوں کے لیے زمین تنگ کرنا شروع کی تو بھارت اپنی فوج کے ذریعے براہ راست دہشت گردی پر اتر آیا۔ دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے اپنے پراکسی دہشت گردوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔

یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کس طرح ملوث ہے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسی اور طاقت کے ذریعے غلبے کی کوششیں جنوبی ایشیا کو ایک خطرناک نیوکلیئر تصادم کی طرف لے جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں ’’ ہارڈ اسٹیٹ‘‘ کے مزید سخت ہونے کا وقت ہے۔ آخرکار ہمارے ہمسائے نے بھی اس مفروضے پر یقین کیا کہ پاکستان کے اندرونی مسائل اور تقسیم اسے ’’ مناسب جواب‘‘ دینے سے روکیں گے جوکہ غلط ثابت ہوا۔ تاہم یہ سمجھنا اب بھی ضروری ہے کہ مزید جھڑپوں کے امکان کے پیش نظر، اندرونی مسائل حل کرنا زیادہ ضروری ہے۔

اس بات سے قطع نظرکہ 2019 اور 2025میں ہونے والی پاک بھارت جھڑپوں کا اختتام کیسے ہوا، پڑوسی حکومت کی مالی حیثیت اسے اس طرح کی محدود محاذ آرائی کے لیے مستقبل میں بھی متحرک کرے گی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر ہوگا کہ پاکستان بھی اپنی معیشت کو مضبوط، مستحکم بنائے اور قرضوں پر اپنا انحصارکم کرنے پر توجہ دے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا سپر پاور بننے کا خواب چکنا چور
  • بھارت دہشت گردی کا پشت پناہ، جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے،فیلڈ مارشل
  • بھارتی ریاستی دہشت گردی کے مزید شواہد منظر عام پر آگئے، دہشتگرد ڈاکٹر عبدالروف کے افغانستان میں موجودگی کے شواہد پیش
  • 181پاکستانی فوجیوں نے بین الاقوامی امن و سلامتی کے لئے جان کی قربانیاں دیں، شہباز شریف
  • وزیراعظم محمد شہباز شریف کا اقوام متحدہ کے امن دستوں کے عالمی دن پر پیغام
  • اقوام متحدہ امن مشنز کو درپیش خطرات پر قابو پانے کی ضرورت ہے، وزیراعظم کا عالمی دن پر پیغام
  • ’بس بہت ہو چکا‘‘؛ پاکستان کا اقوام متحدہ سے غزہ میں نسل کشی روکنے کا مطالبہ
  • بس بہت ہو چکا‘‘؛ پاکستان کا اقوام متحدہ سے غزہ میں نسل کشی روکنے کا مطالبہ
  • ’’بس بہت ہو چکا‘‘؛ پاکستان کا اقوام متحدہ سے غزہ میں نسل کشی روکنے کا مطالبہ
  • اسرائیل کی غزہ میں امداد کی ناکہ بندی نے انسانی المیے کو جنم دیا ہے: پاکستان