نیپرا نے سیکیورٹی ڈپازٹ ریٹس میں 200 فی صد سے زائد کے اضافے کی درخواست پر ڈسکوز کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔

تفصیلات کے مطابق بجلی کمپنیوں کی صارفین کے سیکیورٹی ڈپازٹ ریٹس 200 فی صد سے زائد تک بڑھانے سے متعلق 8 بجلی کمپنیوں کی درخواست پر نیپرا میں سماعت مکمل ہو گئی۔نیپرا اتھارٹی نے بجلی کمپنیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ڈسکوز کی جانب سے آج کی پریزنٹیشن انتہائی ناقص ہے، ممبر نیپرا رفیق شیخ نے کہا بجلی کمپنیاں مؤثر طریقے سے اپنا کیس ہی ہیش نہیں کر سکیں۔

انھوں نے کہا صارف کا ٹیرف بڑھتا ہے تو وہ بوجھ برداشت کرتا ہے، بجلی کمپنیوں کے نقصانات مقررہ حد سے بڑھتے ہیں تو صارف بوجھ برداشت کرتا ہے، ڈسکوز کی نااہلی سے بجلی صارفین پر دوگنا بوجھ پڑتا ہے۔رفیق شیخ نے کہا بجلی کمپنیاں صارفین سے گارنٹی مانگ رہی ہیں، تو صارف کو کیا گارنٹی دی جا رہی ہے؟ صارفین کو پندرہ پندرہ گھنٹے بجلی نہیں دی جاتی، ابھی کراچی میں تھا وہاں ایک فیڈر پر تین دن بجلی نہیں تھی، کے الیکٹرک نے ایک فیڈر تین دن بند رکھا کہ بلوں کی ادائیگی نہیں تھی، بجلی صارف کے پاس کیا ہے کہ وہ بجلی کمپنی کے خلاف کچھ کر سکے؟

پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ 2010 سے بجلی ٹیرف 400 فی صد تک بڑھ چکا ہے، اس پر ممبر نیپرا رفیق شیخ نے کہا یہ پاور ڈویژن کی ریکوئسٹ ہے، مگر منسٹری سے کوئی آیا ہی نہیں، انھوں نے سوال اٹھایا کہ ایسی سماعت میں ملک کے دیگر حصوں کی کاروباری برادری کی نمائندگی کیوں نہیں آتی؟ کیا ملک بھر کی تنظیموں کا مدعو نہیں کیا جاتا؟

سماعت کے دوران ممبر نیپرا مقصود انور نے سوال اٹھایا کہ اگر ایک صارف ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کی سزا سب کو کیوں دیں؟ کمپنیاں یہ کس طرح تخمینہ لگا رہی ہیں کہ کتنے صارفین ڈیفالٹ کریں گے؟بجلی کمپنیوں نے مؤقف پیش کیا کہ بجلی صارفین سے وصول کردہ سیکیورٹی ڈیپازٹس محفوظ ہیں، ممبر نیپرا مطہر رانا نے سوال کیا کہ زمین کی ویلیو کے حساب سے سیکیورٹی کا تخمینہ کیسے لگایا گیا؟ ڈسکوز نے عجیب منطق پیش کی کہ ’’ہمیں اونر (منسڑی) کی جانب سے کہا گیا تو ہم نے درخواست دے دی۔‘‘

رفیق شیخ نے اس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا ’’یہ کیا جواب ہوا، پھر ہم اونر کو بلا لیتے ہیں، اور اُسی وقت سماعت کر لیں گے۔‘‘بجلی کمپنیوں نے مؤقف پیش کیا کہ سیکیورٹی ڈیپازٹ ریٹس کا اطلاق تمام صارفین پر ہوگا، ممبر نیپرا مطہر رانا نے ریمارکس دیے کہ لوگ پہلے ہی سولر پر جا رہے اس سے جو تھوڑا بہت کام چل رہا وہ بھی ختم جائے گا، تاہم ڈسکوز کے نمائندے نے کہا اس سے بجلی کی کھپت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

ممبر نیپرا رفیق شیخ نے کہا کمپنیوں کو تو کوئی نقصان نہیں صارفین کو نقصان پہنچے گا، نمائندہ ڈسکوز نے بتایا کہ موجودہ صارفین سے سیکیورٹی ڈیپازٹ 12 اقساط میں وصول کرنے کی تجویز ہے، رفیق شیخ نے اعتراض کیا کہ اگر اکاؤنٹس میں پیسے پڑے ہیں تو ڈیٹ سروسنگ سرچارج کیوں لگایا جاتا ہے؟ اگر بجلی کمپنیوں کے پاس اتنی بڑی رقم موجود ہے تو اس کا آڈٹ ہونا چاہیے، نیپرا کے پروفیشنلز سیکیورٹی ڈیپازٹ کا آڈٹ کریں گے۔دریں اثنا، نیپرا اتھارٹی نے سماعت مکمل ہونے پر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، اتھارٹی اعداد و شمار کا جائزہ لے کر فیصلہ بعد میں جاری کرے گی۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: رفیق شیخ نے کہا بجلی کمپنیوں ممبر نیپرا بجلی صارف کیا کہ

پڑھیں:

زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم عدالتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اگر کسی عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست زیر التوا ہو تو اس بنیاد پر اُس فیصلے پر عملدرآمد نہیں روکا جا سکتا۔

یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے تحریر کیا ہے، جسے 3 رکنی بینچ نے سنایا۔ بینچ میں شریک دیگر ججز میں جسٹس شکیل احمد اور جسٹس اشتیاق ابراہیم شامل تھے۔

4 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کے بعد 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں عملدرآمد میں تاخیر کو عدالتی حکم عدولی کے مترادف قرار دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ: ترقی ہر سرکاری ملازم کا بنیادی حق قرار

کیس کا پس منظر

یہ معاملہ 2010 میں بہاولپور کی زمین کے تنازع سے شروع ہوا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ بہاولپور بینچ نے 2015 میں معاملے کو دوبارہ جائزہ لینے کے لیے ریونیو حکام کو ریمانڈ کیا تھا، اور ہدایت دی تھی کہ متعلقہ قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ تاہم ڈپٹی لینڈ کمشنر بہاولپور نے ایک دہائی گزرنے کے باوجود اس حکم پر کوئی فیصلہ نہ کیا۔

عدالت کا اظہارِ برہمی

سپریم کورٹ نے ریونیو حکام کی اس تاخیر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ کے واضح ریمانڈ آرڈر کے باوجود 10 سالہ تاخیر ناقابل قبول ہے۔ ریونیو حکام نے عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا۔ کسی عدالت کا اسٹے آرڈر بھی موجود نہیں تھا، جس کا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اعتراف کیا۔

فیصلے کے اہم نکات و ہدایات

عدالت نے اپنے فیصلے میں درج ذیل اہم نکات اور احکامات دیے:

ریمانڈ آرڈر کو محض اختیاری سمجھنا ایک غیر آئینی اور خطرناک عمل ہے۔ محض اپیل یا نظرثانی کی زیر التوا درخواست، فیصلے پر عملدرآمد کے لیے رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ایسا طرز عمل عدالتی احکامات کی توہین کے مترادف ہے۔ آئندہ ایسی تاخیر یا غفلت ناقابل قبول ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے ایف بی آر کی ٹیکس دہندگان کیخلاف ایف آئی آرز، گرفتاریاں اور ٹرائلز غیر قانونی قرار، سپریم کورٹ کا بڑا، تفصیلی فیصلہ جاری

چیف لینڈ کمشنر کو ہدایات

سپریم کورٹ نے چیف لینڈ کمشنر پنجاب کو ہدایت کی کہ تمام ریمانڈ کیسز کی مکمل مانیٹرنگ کی جائے۔ ایک مربوط پالیسی گائیڈ لائن جاری کی جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کی غفلت نہ ہو۔ آئندہ تین ماہ کے اندر تمام ریمانڈ کیسز کی تفصیلی رپورٹ سپریم کورٹ رجسٹرار کو جمع کروائی جائے۔ چیف لینڈ کمشنر نے عدالت میں یقین دہانی کرائی کہ وہ تمام زیر التوا ریمانڈ کیسز کی باقاعدہ نگرانی کریں گے۔

پٹیشنز غیر موثر قرار دے کر نمٹا دی گئیں

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں زیر سماعت تمام پٹیشنز کو غیر مؤثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ آف پاکستان

متعلقہ مضامین

  • ( 9 مئی مقدمات)ضمانت منسوخ ، عمران خان کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
  • لاہور کے 9 مئی مقدمات میں ضمانت منسوخ ہونے پر بانی پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • شازیہ منظور نے جان بوجھ کر دھکے دے کر ریمپ واک کے دوران اسٹیج پر گرایا، علیزے شاہ
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • سوتیلی ماں سے بڑھ کر ظالم
  • غریب بجلی صارفین کو سبسڈی کی مد میں نقد رقم دینے کا فیصلہ
  • آڈٹ رپورٹ ابتدائی مرحلے میں ہے، مکمل جانچ باقی ہے، پاور ڈویژن کا مؤقف
  • زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ