ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلوں کے سائے میں میونخ سکیورٹی کانفرنس کا انعقاد
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2025ء) امریکہ اور یورپ کے درمیان روایتی قریبی تعلقات کئی دہائیوں سے میونخ سکیورٹی کانفرنس کا پرتو رہے ہیں اور بعض اختلافات کے باوجود، ہمیشہ سے یہی ایک مضبوط بنیاد رہی ہے۔ سب نے مل کر کام کیا اور ایک دوسرے کا احترام بھی کیا ہے۔
لیکن جب سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے ہیں، اس طرح کا یقین ٹوٹتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس بار کی میونخ سکیورٹی کانفرنس، جو جمعے کے روز سے شروع ہونے والی ہے، بحر اوقیانوس کے درمیان کشیدہ تعلقات کی عکاسی کر رہی ہے۔میونخ سکیورٹی کانفرنس میں زیلنسکی متحرک
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان نئی کشیدگی؟ایک بات تو یقینی ہے: ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت کے پہلے چند ہفتوں کے بعد اب واشنگٹن سے ایک مختلف ہوا چل رہی ہے۔
(جاری ہے)
"امریکہ فرسٹ" ٹرمپ کا اٹل منتر ہے، چاہے یہ ان کے اتحادیوں کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔یہ نیا تناؤ ممکنہ طور پر میونخ کے معزز ہوٹل "بائریشر ہوف" کے کانفرنس رومز میں منعقد ہونے والی گفتگو کے دوران مباحثے کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے، جہاں 14 سے 16 فروری کے درمیان سیاستدان، فوجی رہنما اور ماہرین ملاقات کرنے والے ہیں۔
میونخ سکیورٹی کانفرنس (ایم ایس سی) میں ساٹھ سربراہان مملکت اور حکومتوں کی شرکت کی توقع ہے، جسے سکیورٹی پالیسی کے لیے دنیا کا سب سے اہم فورم سمجھا جاتا ہے۔
مہاجرت اور روس عالمی سلامتی کے لیے بڑے چیلنجز ہیں
نئی امریکی انتظامیہ کی طرف سے اس میں نائب امریکی صدر جے ڈی وینس اور وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنی حاضری کی تصدیق کی ہے، لیکن نئے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نہیں آ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ کانفرنس کے چیئر کرسٹوف ہیوسگین نے اعلان کیا ہے کہ امریکی کانگریس کے اب تک کے سب سے بڑے وفود میں سے ایک کی شرکت کی توقع ہے۔
مہمانوں میں نیٹو کے نئے سکریٹری جنرل مارک روٹے بھی شامل ہیں۔ یورپ کی طرف سے مسائلایم ایس سی ایک غیر رسمی میٹنگ ہے، جس میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تقریب خیالات کے کھلے تبادلے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور تنازعات کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاتا ہے۔
البتہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کے حوالے سے ایک نیا، تیز لہجہ اپنا رکھا ہے۔
اس حوالے سے "میونخ سکیورٹی رپورٹ" میں ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران کا ایک اقتباس شامل کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا، "یورپی ممالک ہمارے ساتھ تجارت اور نیٹو دونوں جگہوں پر چیر پھاڑ کر رہے ہیں۔"میونخ سکیورٹی کانفرنس: یوکرین کے لیے مدد جاری رہے گی، جرمن چانسلر
ٹرمپ نے یورپ سے کہا، "اگر آپ ادائیگی نہیں کرتے ہیں، تو ہم بھی آپ کی حفاظت نہیں کریں گے۔
"ٹرمپ کے مطابق یورپی نیٹو پارٹنرز کی اپنی فوجوں میں ناکافی سرمایہ کاری ان کے لیے ایک کانٹا ہے۔ اس موضوع کے تعلق سے وہ کئی بار جرمنی پر بھی تنقید کر چکے ہیں۔
اس سے پہلے تک واشنگٹن نیٹو کے اخراجات کا ایک بڑا حصہ ادا کرتا رہا ہے اور یورپ کو قابل اعتماد فوجی تحفظ کی پیشکش کی ہے۔ اب ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یہ شرائط کے ساتھ ہونا چاہیے۔
ان کا مطالبہ رہا ہے کہ اتحادی اپنی مجموعی گھریلو پیداوار کا پانچ فیصد دفاع پر خرچ کریں۔ ادھر جرمنی دو فیصد لاگت کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔میونخ سکیورٹی کانفرنس شروع، یوکرائنی بحران حاوی
ریپبلکن ٹرمپ پہلے ہی یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ بین الاقوامی اداروں سے امریکی فنڈز میں زبردست کٹوتی بھی کر سکتے ہیں۔ "میونخ سکیورٹی رپورٹ" کے مطابق، ٹرمپ کے کیمپ نے یہ دلیل دے کر بھی جواز پیش کیا ہے کہ امریکہ جیسی عالمی طاقت کے پاس بھی وسائل محدود ہیں اور اسے اپنے ملک کی بھلائی کے لیے ان کا استعمال کرنا چاہیے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، "درحقیقت، 'وسائل کی کمی' کا تصور ریپبلکن خارجہ پالیسی کی سوچ کا ایک مرکزی حصہ بن گیا ہے۔" یوکرین امن منصوبے کا خاکہ؟پہلے امریکہ نے ہی یوکرین کی امداد کی رہنمائی کی تھی، تاہم اب اس کی امداد پر بھی منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ یقینی طور پر یوکرین کے صدر وولود یمیر زیلنسکی اور یوکرین کے لیے ٹرمپ کے ایلچی کیتھ کیلوگ کے لیے بات کرنے کے لیے موضوعات کی کوئی کمی نہیں ہے، جن کی میونخ میں ملاقات کی توقع ہے۔
چین دوست ہے، حریف ہے، یا دونوں؟
یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کیلوگ سکیورٹی کانفرنس کے دوران ہی یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ کا منصوبہ پیش کر سکتے ہیں۔
البتہ کانفرنس کے چیئرمین ہیوسگن محتاط ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ہمیں امید ہے کہ میونخ کو استعمال کیا جائے گا اور ہمارے پاس یہ اشارے بھی ہیں کہ یوکرین میں امن کی جانب پیش رفت کے لیے اسے استعمال کیا جائے گا۔
"ہیوسگن نے امید ظاہر کی کہ میونخ میں ایک امن منصوبہ شکل اختیار کر سکتا ہے۔ تاہم سفارت کار نے اس بات پر زور دیا کہ یوکرین کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کو برقرار رکھنا ہو گا۔
ہیوسگن اس سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے خارجہ پالیسی کے مشیر اور نیویارک میں اقوام متحدہ میں جرمن سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
تاہم ایم ایس سی میں روسی حکومت کے نمائندوں کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔
اس پر ہیوسگن نے زور دے کر کہا کہ دعوت دینے کا مطلب "مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار ہے اور جب تک صدر پوٹن کییف میں زیلنسکی کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت تک ایسی بات چیت ممکن ہے۔" تاہم میونخ میں روسی اپوزیشن اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔میونخ سکیورٹی کانفرنس سے بائیڈن اور میرکل کا خطاب
گرین لینڈ کے لیے ٹرمپ کی کوششٹرمپ کی جانب سے ضرورت پڑنے پر گرین لینڈ سمیت بعض علاقوں کو طاقت کے ذریعے ضم کرنے کی دھمکیوں سے بھی یورپ میں بے چینی اور غم و غصہ پیدا ہوا ہے۔
ٹرمپ کے توسیعی منصوبوں کے پیچھے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا ہاتھ ہے اور اگر وہ میونخ میں ان منصوبوں کی توثیق کرتے ہیں، تو امکان ہے کہ انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، خاص طور پر یورپی یونین اور یورپی ریاستوں کے نمائندوں کی جانب سے۔ٹرمپ کی دھمکی کے جواب میں انہوں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کو بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنی چاہیے۔
جرمن چانسلر اولاف شولس نے ایک بیان میں کہا تھا، "سرحدوں کی سالمیت بین الاقوامی قانون کا ایک بنیادی اصول ہے۔ یہ اصول ہر ایک پر لاگو ہونا چاہیے۔"کانفرنس کے چیئر ہیوسگن نے بھی کانفرنس سے پہلے بین الاقوامی قانون کی اہمیت پر بار بار زور دیا ہے، "میرے خیال میں، اقوام متحدہ کے چارٹر میں بیان کردہ آرڈر کا کوئی بہتر متبادل نہیں ہے۔
"میونخ سکیورٹی کانفرنس: ’خبردار! خطرناک دعوت نامے مت کھولیں‘
جرمن انتخاباتاس سال کی کانفرنس میں جرمنی کی اپنی گھریلو پالیسی ایک خاص کردار ادا کرے گی۔ میونخ کانفرنس 23 فروری کو جرمنی کے وفاقی انتخابات سے صرف ایک ہفتہ قبل ہو رہی ہے۔
ملک کے کئی سرکردہ سیاست دانوں نے اس کانفرنس میں اپنی حاضری کی تصدیق کی ہے، جس میں سی ڈی یو کے رہنما اور سرکردہ امیدوار فریڈرش میرس بھی شامل ہیں۔
رائے شماری کے مطابق میرس کی جماعت کو انتخابات میں برتری حاصل ہے اور جرمنی کے اگلے چانسلر کے طور پر وہ مقبول شخصیت ہیں۔دیگر موضوعات کے علاوہ، امکان ہے کہ وہ اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ جرمنی میں کتنی رقم کی سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ جرمنی اور یورپ اپنی سلامتی کے لیے مزید کچھ کیسے کر سکتے ہیں، بلکہ اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال چکے ہیں، تو اس موضوع پر میونخ سکیورٹی کانفرنس میں پہلے سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بحث ہونے کا امکان ہے۔
ص ز/ ج ا (نینا ورخاؤزر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میونخ سکیورٹی کانفرنس بین الاقوامی کانفرنس میں کانفرنس کے میونخ میں کے درمیان اور یورپ ٹرمپ کی چکے ہیں ٹرمپ کے ہیں کہ کا ایک ہے اور کے لیے رہی ہے کیا ہے رہا ہے گیا ہے
پڑھیں:
ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )امریکہ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی جانب سے مبینہ طور پر ایک گروپ چیٹ میں یمن پرحملے کی تفصیلات شیئر کیے جانے کے بعد انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ان کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں نجی چیٹ گروپ میں امریکی وزیر دفاع کی اہلیہ، بھائی اور ان کے ذاتی وکیل بھی شامل تھے.(جاری ہے)
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں ہر کوئی ان سے خوش ہے امریکی جریدے کے مطابق وائٹ ہاﺅس حکام نے اس واقعے کی سنگینی کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے تاہم صدرٹرمپ نے اس کی تردید نہیں کی انہوںنے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں وزیر دفاع پر کافی بھروسہ ہے انہوں نے کہا کہ یہ وہی پرانا کیس ہے جسے میڈیا دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. ہیگستھ کی سگنل چیٹ کی خبر سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے شائع کی تھی تاحال ہیگسٹھ نے ان خبروں پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ وائٹ ہاﺅس کی جانب سے نیویارک ٹائمز کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس چیٹ میں کوئی خفیہ معلومات شیئر نہیں کی گئیں جبکہ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ”ڈیفنس ٹیم ہڈل“ نامی یہ نجی گروپ ہیگستھ نے خود بنایا تھا اور15 مارچ کو چیٹ گروپ میں بھیجے گئے پیغام میں حوثی جنگجوﺅں پر حملے میں حصہ لینے والے جنگی جہازوں کی تفصیلات اور شیڈول تک شامل تھا. امریکی وزیردفاع ہیگستھ کی بیوی جینیفر فاکس نیوز کی سابق پروڈیوسر ہیں اور ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اس سے قبل ہیگستھ کو اپنی بیوی کو غیر ملکی راہنماﺅں کے ساتھ حساس نوعیت کی ملاقاتوں میں اپنے ہمراہ لے جانے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ہیگستھ کے بھائی اور ان کے ذاتی وکیل ٹم پارلا وزارتِ دفاع کے عہدیدار ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ ان تینوں افراد کو یمن میں امریکی حملے کی پیشگی اطلاع کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں کو ”سگنل“ چیٹ گروپ میں حساس معلومات شیئر کرنے پر تنقید کا سامنا ہے اس سے قبل گذشتہ ماہ بھی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایک صحافی کو سگنل ایپ کے ایک ایسے گروپ چیٹ میں شامل کر لیا تھا جہاں اعلیٰ امریکی حکام حوثی جنگجوﺅں پر حملے کے منصوبے کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے تاہم یہ گروپ امریکی مشیربرائے قومی سلامتی مائیکل والٹزکی جانب سے بنایا گیا تھا”سی بی ایس“ نیوز نے بھی اپنے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے میں ہیگستھ نے نجی چیٹ گروپ میں یمن میں جاری فضائی حملوں کے بارے میں تفصیلات شیئر کی تھیں گذشتہ ماہ” دی ایٹلانٹک “میگزین کے چیف ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں سگنل میسیجنگ ایپ کے ایک ایسے گروپ میں شامل کیا گیا تھا جس میں قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز اور نائب صدر جے ڈی ونس نامی اکاﺅنٹ بھی شامل تھے گولڈبرگ کے مطابق انہوں نے حملوں سے متعلق ایسے خفیہ فوجی منصوبے دیکھے ہیں جن میں اسلحہ پیکجز، اہداف اور حملے کے اوقات بھی درج تھے اور یہ بات چیت بمباری ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہو رہی تھی. گولڈ برگ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کی قسمت اچھی تھی کہ ان کے نمبر کو گروپ میں شامل کیا گیا تھا ان کے مطابق کم از کم یہ کسی ایسے شخص کا نمبر نہیں تھا جو حوثیوں کا حامی تھا کیونکہ اس چیٹ گروپ میں ایسی معلومات شیئر کی جا رہی تھیں جس کے نتیجے میں اس آپریشن میں شامل افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا.