اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے ملاقات پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہ پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی واقعہ ہے کہ مالیاتی ادارے کے نمائندے عدلیہ کے ججز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، ججز کی تقرری کے حوالے سے پہلے بھی پارلیمنٹ کا کردار تھا اور اب دوبارہ پارلیمنٹ کو اس عمل میں شامل کیا جا رہا ہے، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت کا استحکام عدل و انصاف سے جڑا ہوا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کو ہمارے عدالتی نظام پر کچھ تحفظات ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہاکہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے دی گئی کھانے کی دعوت پر گئے تھے، جہاں مختلف سیاسی امور پر بات چیت ہوئی، اپوزیشن کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا اور مختلف امور پر مشاورت کی جا رہی ہے۔

انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے اور اسٹبلشمنٹ کی مینجمنٹ کے تحت چل رہی ہے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے ادا نہیں کیں اور الیکشن کمیشن ایک کٹھ پتلی ادارہ بن چکا ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ کاکہنا تھا کہ

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اپنی ذمہ داریاں بغیر کسی دباؤ کے ادا کرنی چاہئیں،مدارس کے حوالے سے جو قانون سازی ہونی ہے، وہ وفاقی حکومت کی سطح پر ہو اور صوبے اسی کے مطابق قانون سازی کریں۔

انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی تھی، لیکن آئینی بینچ کی تشکیل بھی ایک مثبت آغاز ہو سکتا ہے، اگر آئینی بینچ کو صحیح طریقے سے کام کرنے دیا جائے تو اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مولانا فضل کہا کہ نے کہا

پڑھیں:

نومبر 1984ء میں سکھوں کی نسل کشی بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے

یکم نومبر 1984ء بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں یکم نومبر 1984ء وہ دن تھا جب ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم کی گئی جس نے ملک کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے سیاہ کر دیا۔ ذرائع کے مطابق 31 اکتوبر 1984ء کو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد شروع ہونے والا یہ خونیں باب سکھ برادری کے قتل عام، لوٹ مار اور خواتین کی بے حرمتی سے عبارت ہے جس کی بازگشت آج بھی عالمی سطح پر سنائی دیتی ہے۔یکم نومبر 1984ء بھارت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب سکھ برادری پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی گئی۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھارت بھر میں سکھوں کا قتل عام شروع ہوا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صرف دہلی میں 2800 سکھو ں کو قتل کیا گیا جبکہ ملک بھر میں 3350 سکھوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر 8 ہزار سے 17ہزار سکھوں کو قتل کیا گیا جبکہ سیکڑوں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

دنیا بھر کے معروف عالمی جریدوں نے اس المناک واقعے کو شرمناک قرار دیا۔ عالمی جریدے ڈپلومیٹ کے مطابق انتہاپسند ہندوئوں نے ووٹر لسٹوں سے سکھوں کی شناخت اور پتے معلوم کئے اور پھر انہیں چن چن کر موت کے گھاٹ اتارا۔ شواہد سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سکھوں کے خلاف اس قتل و غارت کو بھارتی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتی حکومت کی سرپرستی میں سکھوں کے خلاف باقاعدہ نسل کشی کی مہم چلائی گئی۔ انتہاپسند ہندو رات کے اندھیرے میں سکھوں کے گھروں کی نشاندہی کرتے اور اگلے دن ہجوم کی شکل میں حملہ آور ہو کر انہیں قتل کرتے اور ان کے گھروں اور دکانوں کو نذرِ آتش کر دیتے تھے۔ یہ خونیں سلسلہ کئی روز تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔

بھارت میں 1984ء کے قتل عام سے قبل بھی اور بعد میں بھی سکھوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہا۔1969ء میں گجرات، 1984ء میں امرتسر اور 2000ء میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں سکھوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی نہیں بلکہ 2019ء میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مودی حکومت نے ہزاروں سکھوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے بیرون ملک مقیم سکھ رہنمائوں کے خلاف بھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے کارروائیاں جاری رکھیں۔ 18 جون 2023ء کو کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کر دیا گیا جس پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے واضح طور پر کہا کہ اس قتل میں بھارتی حکومت براہِ راست ملوث ہے۔ ان تمام شواہد کے باوجود سکھوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ بیرونِ ملک بھی جاری ہے جس نے دنیا بھر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ: جماعت اسلامی بلوچستان کے امیر مولانا ہدایت الرحمن پریس کانفرنس کررہے ہیں
  • ڈاکٹر شفیق الرحمن تیسری مرتبہ امیر جماعت اسلامی بنگلادیش منتخب 
  • جماعتِ اسلامی کے ’بد ل دو نظام’اجتماعِ عام میں بلوچستان سے لوگ شرکت کرینگے: مولانا ہدایت الرحمٰن
  • نومبر 1984ء میں سکھوں کی نسل کشی بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے
  •  دینی مدارس کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کا رویہ دراصل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے، مولانا فضل الرحمن 
  • ریچھوں کے بڑھتے حملوں سے نمٹنے کیلئے جاپانی حکومت کا انوکھا اقدام
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27ویں ترمیم کی حمایت
  • حکومت پختونخوا میں دہشتگردوں کیخلاف طاقت کا بھرپور استعمال کرے، مولانا فضل الرحمان
  • اسپیکر پنجاب اسمبلی کا بلدیاتی ایکٹ کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ، 27 ویں ترمیم کی حمایت کردی
  • چیئرمین کل مسالک علماء بورڈ مولانا عاصم مخدوم کی اٹلی میں پوپ لیو سے ملاقات