آئی ایم ایف وفد اور ججز کی ملاقات تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے، مولانا فضل الرحمن
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے ملاقات پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ یہ پاکستان اور دنیا کی تاریخ میں ایک غیرمعمولی واقعہ ہے کہ مالیاتی ادارے کے نمائندے عدلیہ کے ججز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، ججز کی تقرری کے حوالے سے پہلے بھی پارلیمنٹ کا کردار تھا اور اب دوبارہ پارلیمنٹ کو اس عمل میں شامل کیا جا رہا ہے، جو ایک اہم پیش رفت ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کا استحکام عدل و انصاف سے جڑا ہوا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف کو ہمارے عدالتی نظام پر کچھ تحفظات ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہاکہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے دی گئی کھانے کی دعوت پر گئے تھے، جہاں مختلف سیاسی امور پر بات چیت ہوئی، اپوزیشن کے درمیان بات چیت کا سلسلہ جاری رہے گا اور مختلف امور پر مشاورت کی جا رہی ہے۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے اور اسٹبلشمنٹ کی مینجمنٹ کے تحت چل رہی ہے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے اپنی ذمہ داریاں مؤثر طریقے سے ادا نہیں کیں اور الیکشن کمیشن ایک کٹھ پتلی ادارہ بن چکا ہے۔
جے یو آئی کے سربراہ کاکہنا تھا کہ
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کو اپنی ذمہ داریاں بغیر کسی دباؤ کے ادا کرنی چاہئیں،مدارس کے حوالے سے جو قانون سازی ہونی ہے، وہ وفاقی حکومت کی سطح پر ہو اور صوبے اسی کے مطابق قانون سازی کریں۔
انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی تھی، لیکن آئینی بینچ کی تشکیل بھی ایک مثبت آغاز ہو سکتا ہے، اگر آئینی بینچ کو صحیح طریقے سے کام کرنے دیا جائے تو اس کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مولانا فضل کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
ملکی تاریخ میں پہلی بار ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
اسلام آباد: وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ “فری انرجی مارکیٹ پالیسی” آئندہ دو ماہ میں حتمی نفاذ کے مرحلے میں داخل ہو جائے گی، جس کے بعد حکومت کی جانب سے بجلی کی خریداری کا عمل مستقل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔
یہ بات انہوں نے عالمی بینک کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کے دوران کہی، جس کی قیادت عالمی بینک کے ریجنل نائب صدر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان و پاکستان، جناب عثمان ڈیون (Ousmane Dione) کر رہے تھے۔
وزیر توانائی نے بتایا کہ نئے ماڈل CTBCM (Competitive Trading Bilateral Contract Market) کے تحت ملک میں بجلی کی آزادانہ تجارت ممکن ہو سکے گی، جس میں “وِیلنگ چارجز” اور دیگر ضروری میکانزم شامل کیے جا رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت حکومت کا کردار صرف ریگولیٹری فریم ورک تک محدود کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس منتقلی کا عمل بتدریج اور جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا تاکہ بجلی کے نظام میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔
ملاقات کے دوران سردار اویس لغاری نے عالمی بینک کے وفد کو حکومت کی جاری توانائی اصلاحات، نیٹ میٹرنگ پالیسی، نجکاری اقدامات، ریگولیٹری بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کی پالیسی کا جھکاؤ واضح طور پر نجی شعبے کے فروغ اور شفافیت کی جانب ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اس تبدیلی میں بھرپور کردار ادا کریں۔
عالمی بینک کے نائب صدر عثمان ڈیون نے پاکستان کے توانائی شعبے میں جاری اصلاحات کو قابلِ تحسین قرار دیا اور کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کی بنیاد ہے، اسی لیے عالمی بینک اس شعبے میں پاکستان کے ساتھ اپنی شراکت داری جاری رکھے گا۔
انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عالمی بینک پاکستان کے لیے ایک پائیدار، قابل اعتماد اور سرمایہ کاری کے لیے موزوں توانائی نظام کی تشکیل میں بھرپور تعاون فراہم کرے گا۔
آخر میں وفاقی وزیر نے عالمی بینک کے وفد کو توانائی اصلاحات پر مبنی جامع کتابچہ بھی پیش کیا اور امید ظاہر کی کہ موجودہ شراکت داری مستقبل میں مزید مستحکم ہو گی۔
صارفین کے لیے “فری انرجی مارکیٹ” کے ممکنہ فوائد:
صارفین کو مختلف بجلی فراہم کنندگان میں سے مسابقتی نرخوں پر بجلی خریدنے کی آزادی ہوگی۔
مارکیٹ میں مسابقت بڑھنے سے بجلی کی قیمتوں میں کمی آنے کا امکان ہے۔
نجی کمپنیاں بہتر سروس فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گی، جس سے کسٹمر سروس، بلنگ کا نظام اور شکایات کے ازالے میں بہتری آئے گی۔
صنعتیں اپنی ضروریات اور استعمال کے مطابق سستا اور مستحکم توانائی معاہدہ کر سکیں گی، جو برآمدات اور پیداواری لاگت پر مثبت اثر ڈالے گا۔
صارفین سولر، ونڈ یا دیگر گرین انرجی ذرائع سے بجلی خریدنے کے آپشنز کو ترجیح دے سکیں گے، جس سے ماحول دوست توانائی کو فروغ ملے گا۔
جن گھریلو یا صنعتی صارفین کے پاس سولر پینل نصب ہوں گے، وہ بجلی فروخت بھی کر سکیں گے، جس سے آمدن حاصل کی جا سکتی ہے۔
جب حکومت بجلی خریدنا بند کرے گی، تو اس پر موجود گردشی قرضوں (circular debt) کا دباؤ کم ہوگا، جس کا بالآخر فائدہ صارفین کو مستحکم نظام کی صورت میں ملے گا۔