کراچی میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلیے وزیر داخلہ سندھ کی ہدایات
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
کراچی: وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے شہر میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہدایات جاری کر دیں۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق وزیر داخلہ سندھ کی زیر صدارت ہونے والے اعلی سطح کے اجلاس میں ٹریفک حادثات کی روک تھام اور سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے حوالے سے مؤثر اقدامات پر غور کیا گیا۔
وزیر داخلہ سندھ نے اجلاس کے دوران کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے دن کے اوقات میں کچرے کے علاوہ تمام بڑی گاڑیوں پر پابندی عائد کی جائے گی، اس کے علاوہ سڑکوں کو بلا جواز بند کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ کمرشل گاڑیوں کے علاوہ دیگر ہیوی ٹریفک کی شہر میں داخلے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے، یہ پابندی 11 بجے رات سے لے کر 6 بجے صبح تک نافذ ہو گی، سالڈ ویسٹ اینڈ مینجمنٹ کی گاڑیوں کے علاوہ ساڑھے تین ہزار ہیوی گاڑیوں کی 15 دن میں ٹیگنگ کی جائے گی، اس کے بعد اگر ان گاڑیوں کی ٹریکنگ نہیں کی جاتی تو ان کا چالان کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی کو بہتر بنانے کے لیے تھانہ اور ٹریفک پولیس کا باہمی تعاون ضروری ہے، اس کے علاوہ شہر میں ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو چالان کے اجراء کے اختیارات دیے جائیں گے اور اس حوالے سے 500 پولیس افسران کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔
اجلاس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ شہر کی سڑکوں پر حادثات کو کم کرنے کے لیے باڈی وارن کیمراز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے اس بات پر زور دیا کہ ٹریفک کے قوانین کی پیروی کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک مؤثر تشہیری مہم چلائی جائے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اس بات پر زور دیا کہ جان لیوا حادثات کی روک تھام کے لیے مشترکہ طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی گاڑیاں قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جائے۔
ڈی آئی جی ٹریفک کراچی نے اجلاس میں بتایا کہ روزانہ کی بنیاد پر 35 ہزار چالان کیے جاتے ہیں اور شہر کے تین روٹس پر بھاری گاڑیاں، جن میں زرعی اجناس، تعمیراتی میٹیریلز اور خوردنی اشیاء شامل ہیں، 24 گھنٹے مصروف رہتی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وزیر داخلہ سندھ سڑکوں پر ٹریفک کو بہتر بنانے میں ٹریفک ٹریفک کے کے علاوہ کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔