سیپکو بجلی چوری کی روک تھام کیلئے پولیس کے ساتھ تعاون کرے،کمشنر سکھر
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
سکھر (نمائندہ جسارت) کمشنر سکھر فیاض حسین عباسی کی زیر صدارت بجلی چوری کی روک تھام اور ایل پی جی کے غیر قانونی فروخت سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا۔کمشنر سکھر فیاض حسین عباسی نے کہا کہ سیپکو حکام بجلی چوری کی روک تھام کے لئے پولیس کے ساتھ کوآرڈینیشن مضبوط کریں۔ جن علاقوں میں بجلی کے بلوں کی 100 فیصد ادائیگی ہو رہی ہے اور کوئی بھی ڈیفالٹر نہیں ہے، وہاں کے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ کمشنر سکھر نے سیپکو حکام کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اسپتالوں اور دیگر سرکاری دفاتر کے ٹرانسفارمروں سے غیر قانونی کنکشنز کی شکایات موصول ہوئی ہیں، وہاں فوری طور پر کارروائی کر کے کنڈے ختم کیے جائیں۔ جن علاقوں میں بجلی چوری زیادہ ہے، وہاں پولیس کے ساتھ مل کر بجلی چوری کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں گی۔ اس ضمن میں کوتاہی اور سستی کے مرتکب سیپکو حکام کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر ڈی آئی جی پولیس سکھر فیصل عبد اللہ چاچڑ نے کہا کہ بجلی چوری کے خلاف آپریشن میں پولیس سیپکو کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے گی، جتنی نفری کی ضرورت ہو گی فراہم کی جائے گی۔ بجلی چوری کے خلاف آپریشن میں ایف آئی آر میں پولیس کو کمپلیننٹ بنایا جارہا ہے، پولیس کا کمپلیننٹ بننا کیس کو کمزور کرے گا۔ اگر عدالت میں کیس مضبوط کرنا ہے تو متعلقہ محکموں کے حکام کو کمپلیننٹ بنانا ہوگا۔ سپرنٹنڈنٹ انجینئر سیپکو سکھر اور گھوٹکی نے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ جن عملداروں نے کام میں سستی دکھائی ہے، ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کمشنر سکھر بجلی چوری کے ساتھ کے خلاف
پڑھیں:
طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے سلامتی کونسل کو ملکی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ملک اور عالمی برادری کے مابین تعاون کی راہ نکال لی جائے گی جس سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال قبل جب وہ افغانستان پہنچیں تو وہاں عبوری حکام میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے۔
ایک حلقہ افغان عوام کی ضروریات کو ترجیح دینے کا حامی تھا تو دوسرا خالص اسلامی نظام کے قیام پر زور دیتا تھا جس نے عوام پر بہت سے پابندیاں نافذ کی ہیں۔(جاری ہے)
Tweet URLطالبان حکام کی جانب سے لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نے ایک پوری نسل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس سے ملک کو طویل المدتی طور پر بہت بھاری نقصان ہو سکتا ہے جبکہ ان پابندیوں سے افغان معاشرے میں شدید بے چینی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔
'یو این ویمن' کے مطابق افغان عوام کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالف ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے افغان معیشت کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔
مثبت اشاریےانہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد قدرے مثبت پیش رفت کی نشاندہی بھی کی جس میں مسلح تنازع اور وسیع پیمانے پر تشدد میں نمایاں کمی بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصوں میں سلامتی کی صورتحال قدرے مستحکم ہو گئی ہے۔
2023 کے اوائل میں پوست کی کاشت پر عائد کی جانے والی پابندی بڑی حد تک برقرار ہے جس کے فوائد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کو بھی حاصل ہو رہے ہیں۔
عام معافی کے حکم پر مجموعی عملدرآمد حوصلہ افزا ہے۔ ملک میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) اور عبوری حکام کے درمیان تعمیری روابط بھی موجود ہیں جن کے نتیجے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ٹیموں کو ملک کی تمام 34 جیلوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔
بحرانوں کا طوفاناوتونبائیووا نے کہا کہ مردوخواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں پر عائد کی جانے والی بڑھتی ہوئی پابندیوں اور ان پر عملدرآمد سے عوام میں عبوری حکام کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔
ملک کو رواں سال انسانی امداد میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کا سامنا ہے اور اگلے سال اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کٹوتیاں جزوی طور پر افغانستان کی خواتین مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
ملکی معیشت اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی کے نتیجے میں اس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کو خشک سالی اور دیگر موسمیاتی حوادث کا سامنا بھی ہے جس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ آئندہ برسوں میں 60 لاکھ آبادی پر مشتمل دارالحکومت کابل دنیا کا ایسا پہلا بڑا شہر بن سکتا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔
مسائل کے حل کی امیدرواں ماہ کے اختتام پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والی روزا اوتنبائیوا نے کہا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں خواتین ملازمین کی رسائی کو روکنے جیسے اقدامات سے اقوام متحدہ کی امدادی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ سلامتی کونسل طالبان حکام سے خواتین کے روزگار پر پابندی کے خاتمے کی اپیل کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا جامع نقطۂ نظر واحد کثیرالجہتی فریم ورک مہیا کرتا ہے جو عالمی برادری اور عبوری حکام کے درمیان رابطے کا ذریعہ اور ایک ایسا سیاسی راستہ ہے جس کے ذریعے ان پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جو افغانستان کی عالمی نظام میں دوبارہ شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔