حکمران طبقہ کی عدالتی ٹکراؤ پر مبنی پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
پاکستان کی عدالتی تاریخ کوئی مثالی تاریخ نہیں بلکہ اسے نظریہ ضرورت کی عدلیہ کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے۔ عدالت نے بھی آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ طاقتور طبقات کے سیاسی مفادات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہماری عدالتوں یا انصاف پر مبنی نظام کی درجہ بندی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح جب بھی عدالت نے اپنی مزاحمت دکھانے کی کوشش کی تو حکمران طبقات ہوں یا اسٹیبلشمنٹ ان دونوں نے اس عدالتی مزاحمت کو ابتدا ہی میں یا تو کمزور کر دیا یا اسے کچل کر رکھ دیا۔ لیکن آج پاکستان کا عدالتی بحران ایک سنگین نوعیت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ عدلیہ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں بھی عدالت عظمیٰ ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کے ججوں نے باقاعدہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خطوط لکھے اور کہا کہ ہمیں عدالتی دباؤ کا سامنا ہے یا مختلف ایجنسیاں ہم پر دباؤ ڈال کر آزادانہ اور منصفانہ فیصلے کرنے سے روک رہی ہے۔ کچھ ججوں نے تو الزام لگایا کہ ان کے گھر والوں کو دھمکیاں اور حراساں بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان ججوں کی کوئی بات نہیں سنی گئی اور چیف جسٹس سمیت کسی نے ان کی داد رسی نہیں کی۔ حالیہ دنوں میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے طلب کرنے پر عدالت عظمیٰ کے مختلف ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا کہ 26 ترمیم کے فیصلے تک اس اجلاس کو موخر کردیا جائے۔ جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججوں کی سنیارٹی کو خراب نہ کیا جائے اور یہ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ بلوچستان سندھ اور پنجاب سے ججوں کو لا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججوں کی سینیارٹی کو خراب کرکے وہاں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چیف جسٹس ہائی کورٹ کے تقرر کو یقینی بنایا جائے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوں یا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان دونوں نے ان تمام ججوں کے خطوط یا ان کے تحفظات پر کوئی جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا اور وہی فیصلہ کیا گیا جو حکمران طبقہ چاہتا تھا یعنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ایسے ججوں کے تقرر کو یقینی بنایا گیا جس سے حکومت کے معاملات میں آسانی پیدا ہو سکے۔ کیونکہ حکومت کو ڈر تھا کہ عدالت عظمیٰ سمیت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایسے جج موجود ہیں جو حکومت کے لیے آگے جا کر خطرہ بن سکتے ہیں۔ حکومت پہلے ہی پی ٹی آئی کے خوف کا شکار ہے اور سمجھتی ہے کہ عدالتی نظام میں پی ٹی آئی کے لیے ہمدردی کا پہلو زیادہ ہے اور ان کو آنے والے دنوں میں عدالتی نظام میں زیادہ ریلیف مل سکتا ہے۔ اس لیے حکومت کی کوشش تھی کہ وہ جج جو پی ٹی آئی کے حامی ہیں یا حکومت کے مخالف ہیں اس میں ایک لکیر واضح کھینچی جائے اور ایسے ججوں کا تقرر یقینی بنایا جائے جو حکومت کی حمایت میں پیش پیش ہوں۔ حکومت نے کمال ہوشیاری سے اس تاثر کو بھی میڈیا میں عام کیا کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں میں ایک بڑا گروپ ایسا ہے جو آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت میں جب بھی عدالت سے کوئی فیصلہ ان کی حمایت میں آتا تو اسے آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ عمران خان کی حمایت سے جوڑ کر دیکھا جاتا تھا۔ مسلم لیگ ن نے تو ہمیشہ سے عدالت پر الزام لگایا کہ موجودہ عدالت کا لاڈلا عمران خان ہے اور عمران خان کو عدالتی پروٹوکول کی وجہ سے زیادہ پزیرائی حاصل ہے۔ حکومت کو جہاں عمران خان سے خطرہ ہے یا اس کی مقبولیت کو وہ اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں وہیں ان کو یہ ڈر بھی ہے کہ موجودہ عدلیہ خود ان کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس لیے عدلیہ کو کنٹرول کرنا یا مرضی کے ججوں کا تقرر کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ حکومت نے اس کھیل میں بار ایسوسی ایشن کو بھی تقسیم کر دیا ہے وکلا تنظیموں کی اس تقسیم نے ان کی جانب سے بھی ایک بڑی مزاحمت کے امکانات کو محدود کر دیا ہے۔ 26 ویں ترمیم کی منظوری نے پہلے ہی عدالتی نظام کو خراب کر کے رکھ دیا ہے۔ بہت سے قانونی ماہرین کے بقول 26 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد ہمارا عدالتی نظام کافی حد تک تقسیم ہو گیا ہے اور اس تقسیم میں عدالتی نظام کو موثر بنانے کے بجائے اس میں کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کر دی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا ایک بڑا دھڑا اس بات کا حامی ہے کہ 26 ویں ترمیم پر فل کورٹ اجلاس بلایا جائے لیکن موجودہ چیف جسٹس فل کورٹ بنانے کے حق میں نظر نہیں آتے اور اس کی ایک وجہ بڑی واضح ہے کہ اگر فل کورٹ بنتا ہے تو اس میں آنے والے فیصلے سے حکومت کو کافی سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو کسی بھی طور پر حکومت کو قبول نہیں ہوگا۔ حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ کسی بھی طرح سے 26 ویں ترمیم پر فل کورٹ نہ بن سکے اور اس پر ان کی نظریں چیف جسٹس آف پاکستان پر ہے کہ وہی حکومت کو اس کھیل میں بڑی سہولت کاری دیں گے۔ وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالت عظمیٰ کے دو سینئر ججوں کے خلاف حکومت ریفرنس لانے پر غور کر رہی ہے۔ یقینی طور پر یہ دو جج منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف جسٹس محسن اختر کیانی کے بقول عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ سمیت تمام ستون گر چکے ہیں۔ اس پر قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار صادق کافی برہم نظر آئے اور رولنگ دی اور کہا کہ جسٹس محسن کیانی کا یہ بیان پارلیمنٹ پر حملہ ہے اور ہم پارلیمنٹ کی سلامتی کا تحفظ کریں گے۔ یہ ساری صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ حکومت اور عدلیہ کے درمیان سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ حکومت اپنے اختیارات اور طاقت کو استعمال کر کے عدلیہ کو اپنے ماتحت یا کنٹرول کرنے کا جو ایجنڈا رکھتی ہے اسی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کھیل میں جو بھی جج چاہے وہ عدالت عظمیٰ میں ہو یا ہائی کورٹ میں اگر حکومتی ایجنڈے میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا تو حکومت اس کو دیوار سے لگا کر اپنے عزائم کو مکمل کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ اس وقت تو حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے جسٹس سرفراز ڈوگر کی راہ ہموار کی جائے اور اس تقرر پر وکلا تنظیمیں اور ججوں کو تحفظات ہیں مگر اس پر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ کیونکہ اس وقت ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ شخصی حکمرانی کا غلبہ ہے اور اس وقت حکومت کو آئین اور قانون کے تابع کرنا ہی اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہائی کورٹ کے عدالتی نظام پی ٹی آئی کے کے چیف جسٹس عدالت عظمی میں عدالت ویں ترمیم حکومت کی حکومت کو فل کورٹ کے ججوں کی کوشش ہے اور دیا ہے کے لیے اور اس
پڑھیں:
مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
مصر کے سابق نائب صدر اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ مصر کے سابق نائب صدر محمد البرادعی جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں نے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر خاموشی کے باعث عرب ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: "عالمی سطح پر حکومتوں، تنظیموں اور ماہرین میں اس بات پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے جنگی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے انسانیت کے خلاف دیگر جرائم بھی انجام دیے ہیں۔ مزید برآں، کچھ ممالک جیسے کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، ترکی اور بولیویا نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے اور بنگلہ دیش، بولیویا، جزر القمر، جیبوتی، چلی اور میکسیکو جیسے ممالک نے عالمی فوجداری عدالت میں بھی اسرائیل کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔ لیکن عرب حکومتوں کی اکثریت نے اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہم ہی اس مسئلے کے حقیقی مدعی ہیں۔" انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں گا۔"
محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور بڑی تعداد میں صارفین نے ان کے اس پیغام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ عرب حکومتیں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے اظہار کو اپنے ملک کے اندر مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایک مصری صافر نے جواب میں لکھا: "اگر آپ، محترم ڈاکٹر صاحب، حقیقت بیان کرنے سے خوفزدہ ہیں تو ہم کیا کریں؟ عرب ڈکٹیٹرز نے اسرائیل کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اسے اپنی عوام کو ڈرا سکیں۔" ایک اور صارف نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ عرب حکومتیں بین الاقوامی اداروں کی مدد حاصل کرنے کی بجائے امریکہ سے مداخلت کی درخواست کرتی ہیں۔ اس نے مزید لکھا: "یہ صورتحال مجھے کچھ ایسے مخالفین کی یاد دلاتی ہے جو نظام کے اندر سے اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ یوں سزا پانے سے بچ سکیں۔" کلی طور پر محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور ان تمام پیغامات میں غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر عرب حکومتوں کی خاموشی قابل مذمت قرار دی گئی ہے۔
یاد رہے جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023ء میں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس رژیم نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام دے کر نسل کشی کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جیسے برازیل، نکارا گویا، کیوبا، آئرلینڈ، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور ترکی نے اس مقدمے کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ نے اکتوبر 2024ء میں عدالت کو 500 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی تھی جس میں غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔ غاصب صیہونی رژیم نے آئندہ دو ماہ میں اپنی دفاعیات عدالت میں پیش کرنی ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 2027ء میں عدالت کا حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔