عمران کی اپیل ناکام، ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ، الجزیرہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
کراچی (نیوز ڈیسک) قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر روکنے کی اپیل کے باوجود ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ان کے اپنے حمایتی بھی اس مہم کا حصہ نہیں بن سکے۔
پاکستانیوں کیلئے اپنے اہل خانہ کی کفالت کسی بھی سیاسی حکمت عملی سے زیادہ اہم ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے مسلسل دوسرے ماہ 3 ارب ڈالر سے زائد رقوم پاکستان بھیجی ہیں۔
گزشتہ دسمبر میں بانی پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ ترسیلات زر بھیجنا محدود کریں۔
اس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا، کیونکہ پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے یہ رقوم انتہائی اہمیت رکھتی ہیں۔ اس اپیل کے باوجود، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق جنوری 2025 میں ترسیلات زر میں 25 فیصد اضافہ ہوا اور 3 ارب ڈالر کی حد مسلسل دوسرے مہینے برقرار رہی۔
معاشی ماہرین کے مطابق، زیادہ تر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے رقوم بھیجنا کسی سیاسی نظریے کی حمایت یا مخالفت کا معاملہ نہیں بلکہ ان کے گھر والوں کی بنیادی ضروریات کا تقاضا ہے۔ انہیں کسی بھی سیاسی مہم سے نہیں روکا جا سکتا۔
ریاض میں مقیم احمد کبیر، جو کہ دیر سے تعلق رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ “ہم اپنے خاندان کے لیے باہر جاتے ہیں، اگر ہم ان کی مدد نہیں کریں گے تو یہاں رہنے کا فائدہ کیا؟”۔
اسی طرح جدہ میں ریستوران چلانے والے راجہ بابر سرور نے بھی کہا کہ وہ سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ان کا مقصد صرف اپنے بچوں کی کفالت ہے۔
معاشی تجزیہ کار ساجد امین جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر بنیادی طور پر مجبوری کے تحت آتی ہیں۔ “یہ رقوم گھریلو اخراجات کے لیے ضروری ہوتی ہیں، اور زیادہ تر پاکستانیوں کے پاس اسے روکنے کا آپشن نہیں ہوتا،”
روپے کی قدر میں استحکام اور غیر قانونی مالیاتی چینلز کے خلاف حکومتی کارروائی نے بھی بینکنگ چینلز کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافے میں کردار ادا کیا ہے۔
ترسیلات زر میں کمی کے بجائے مسلسل اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے اپنے اہل خانہ کی کفالت کسی بھی سیاسی حکمت عملی سے زیادہ اہم ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ترسیلات زر میں کے لیے
پڑھیں:
وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک ذاتی اپیل
محترم وزیر اعظم،یہ کسی سیاسی جماعت کا منشور نہیں، بلکہ ایک انسان کی پکار ہے۔یہ ایک قوم کی فریاد نہیں، بلکہ ان دریاؤں کے گواہ کی صدا ہے،جو پلوں پر یقین رکھتا ہے، دیواروں پر نہیں۔23 اپریل 2025 کو، ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ایک ایسا معاہدہ جو جنگوں، بموں اور دہائیوں کی دشمنی کے باوجود قائم رہا۔پینسٹھ برس تک اس نے یہ ثابت کیا کہ دشمنی کے سائے میں بھی انسانیت زندہ رہ سکتی ہے، مگر اب ایک ہی فیصلے نے اس پل کو توڑ دیا۔آپ جانتے ہوں گے، وزیر اعظم صاحب، تاریخ میں کبھی کسی مہذب قوم نے دریا کو ہتھیار نہیں بنایا۔کسی جمہوریت نے، کسی آئین پسند ریاست نے، بغیر تحقیق، بغیر قانونی عمل اور بغیر اخلاقی جواز کے،دو سو بیس ملین انسانوں کا پانی نہیں روکا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے اور خطرناک بھی ہے۔ پانی ہتھیار نہیں، یہ ایک امانت ہے۔پانی صرف ایک وسیلہ نہیں بلکہ یہ زندگی ہے،یہ مقدس ہے،یہ ہماری تہذیب کی روح ہے۔سَرَسوتی سے سندھ، گنگا سے چناب تک ۔۔ ہمارے خمیر میں یہی پانی رواں دواں ہے۔اسے انتقام کے جذبے میں روک دینا طاقت نہیں بلکہ اخلاقی زوال ہے۔کربلا کو یاد کیجئے۔جب حسین ابن علیؑ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر دریا بند کیا گیا،تو یہ صرف انسانوں کے خلاف جرم نہ تھابلکہ یہ ضمیر کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ ظالموں نے جنگ جیتی ہو گی،مگر تاریخ نے ہمیشہ پیاسوں کا ساتھ دینے والوں کو یاد رکھا ہے۔ آج بھی ہم کربلا کا ماتم صرف خون کے لیے نہیں کرتے بلکہ اس پیاس کے لیے کرتے ہیں جس پر حق والوں کو پانی نہ دیا گیا،اور ان لوگوں کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے خود پانی نہیں پیا جب تک مظلوم پیاسے تھے۔ تو پھر ایک مبینہ دہشت گرد کی سزا دو سو بیس ملین انسانوں کو کیوں؟
آپ کے پاس کشمیر میں پانچ لاکھ فوجی ہیں،پہلگام جانے والے راستے پر بارہ چیک پوسٹس ہیں۔ اگر نظام ناکام ہوا، تو اس کی سزا پوری قوم کو کیوں؟تحقیقات کہاں ہیں؟ ثبوت کہاں ہے؟کیا اب ہر حملے کے بعد اجتماعی قحط معمول بنے گا؟ کیا ریاست کی سیکیورٹی کی ناکامی پورے خطے کو سزا دینے کا جواز ہے؟ یہ کوئی قومی دفاع نہیں ہے بلکہ ریاستی انتقام ہے اور تاریخ میں یہ عمل قابل فخر نہیں ہو سکتا۔دریاؤں کی جنگ میں کوئی فتح نہیں ہوتی۔آپ ان دریاؤں کو نہ جغرافیائی لحاظ سے قید کر سکتے ہیں،نہ اخلاقی لحاظ سے۔نہ آپ کے پاس مکمل بند، نہ ذخیرہ، نہ اخلاقی جواز، مگر ایک چیز ضرور ہے اور وہ ہے دنیا میں ہندوستان کی ساکھ۔ کیا آپ ایک لمحے کی تالیاں سننے کے لیےیہ مقام داؤ پر لگائیں گے؟جنیوا کنونشن، ویانا معاہدہ، اور عالمی بینک کے تحت سندھ طاس معاہدہ اسی لیے بنائے گئے تھےکہ انتقام کو لگام دی جائے،جذبات کو قانون نہ بننے دیا جائے،تہذیب کو غصے کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچایا جائے۔ وزیر اعظم صاحب،ایسا قدم اٹھائیے کہ تاریخ آپ کو یاد رکھے، بطور ایک رہنما، جس نے دشمن کو سزا نہیں دی بلکہ انسانیت کا ساتھ دیا۔ دریائوں کو رواں کیجئے۔ معاہدے کو بحال کیجئے۔ بلندی کا راستہ اپنائیے، کیونکہ امن کمزوری نہیں۔ عظمت ہے۔ امن وہ طاقت ہے جو صبر سے جنم لیتی ہے۔ امن ہی سے تہذیبیں باقی رہتی ہیں۔ دعا ہے کہ تاریخ اس مہینے کو وہ مہینہ نہ لکھے جب بھارت نے دریاؤں کو روکا بلکہ وہ لمحہ یاد رکھے جب اس کا وزیر اعظم روشنی کی طرف پلٹا۔ باادب،خطے کا بیٹا، دریاؤں کا طالب علم۔انتقام نہیں۔۔ انصاف کا قائل۔
(اقبال لطیف کے انگریزی مضمون سے ترجمہ )