‏قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سردار سرفراز ڈوگر کی سنیارٹی کے معاملے پر ‏اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کا مؤقف چیف جسٹس پاکستان سے برعکس ہونے کے حوالے سے حقائق سامنے آگئے۔

رپورٹ کے مطابق ‏اٹارنی جنرل کا تحریری طور پر جوڈیشل کمیشن میں اپنایا گیا موقف سامنے آگیا، ‏چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی سنیارٹی لسٹ میں جسٹس سرفراز ڈوگر کا نام نہیں ہونا چاہیے تھا، ‏چیف جسٹس پاکستان نے صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا اٹارنی جنرل نے میرے موقف کی تائید کی تھی۔

‏اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اور بات کہی تھی اور تحریری طور پر بھی مؤئقف جمع کرایا اور اس کے منٹس بھی جاری کیے جائیں گے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ  ‏چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کے تحفظات سے متفق نہیں، ‏ہائی کورٹ سے جج کا ٹرانسفر عارضی نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏جج کا ٹرانسفر پبلک انٹرسٹ کے تحت کیا گیا، جس کیلئے صدر مملکت،متعلقہ چیف جسٹسز ہائی کورٹ سے مشاورت کی گئی،‏ جسٹس سرفراز ڈوگر سے کہا گیا وہ مفاد عامہ کے تحت اپنی رضا مندی کا اظہار کریں، ‏ٹرانسفر ہونے والے جج نے مفاد عامہ کے تحت ہی تبادلے کیلئے رضامندی ظاہر کی نہ ہی زاتی مفاد کیلئے، ‏جسٹس سرفراز ڈوگر کی سینارٹی سب سے نیچے نہیں کی جاسکتی، نہ ہی جج سول سرونٹ ہوتا ہے۔

منصور عثمان اعوان نے کہا کہ ‏سنیارٹی سے متعلق سول سرونٹ ملازمین کے رولز کا اطلاق اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر نہیں ہو سکتا، نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے ججز سرول سرونٹ ہوتے ہیں، ‏آئین پاکستان نے ججز کیلئے الگ سے جج کی سروس پر شرائط و ضوابط طے کر رکھے ہیں،  ‏کسی جج کی سینارٹی کا معاملہ جوڈیشل کمیشن میں نہیں اٹھایا جاسکتا، ‏سینارٹی کا معاملہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت درخواست دائر کرکے ہی عدالتی سائیڈ پر طے ہو سکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ‏جب ایک جج ایک ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر دوسری ہائیکورٹ میں آتا ہے اسے نئے حلف لینے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، ‏آئین میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ ایک جج ٹرانسفر ہوکر دوبارہ حلف لے گا، ‏ایک جج کی نئی تقرری اور تبادلے میں فرق ہے، ‏آرٹیکل 202 کے تحت جب ایک جج کا تقرر ہوتا ہے تو اسے تبادلے پر نئے حلف کی ضرورت نہیں ہے۔

‏منصور عثمان اعوان نے ماضی میں لاہور ہائی کورٹ کیلے جسٹس فرخ عرفان اور مظاہر  نقوی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان اور انور کانسی کی سنیارٹی کا اشو بھی ہائی لائٹ کیا اور بتایا کہ کہ وہ سپریم کورٹ میں ہی طے ہوا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: منصور عثمان اعوان چیف جسٹس پاکستان اسلام آباد ہائی اٹارنی جنرل نے سرفراز ڈوگر ہائی کورٹ نے کہا کہ کے تحت ایک جج

پڑھیں:

ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد:

صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ میں  9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی،  جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔  بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

متعلقہ مضامین

  • مشال یوسف زئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق اہم درخواست دائر
  • این اے 18ہری پور میں انتخابی دھاندلی کا معاملہ، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کر دیا
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان سے جیل ملاقات نہ کروانے پر توہین عدالت کی درخواست خارج
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ججز ٹرانسفر کیس؛ رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کا جواب سپریم کورٹ میں جمع
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • جج ہمایوں دلاور کے خلاف مبینہ سوشل میڈیا مہم‘اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی