چین اور امریکہ کے تعلقات میں مجموعی طور پر استحکام رہا ہے، چینی سفیر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بھی بڑھ گیا ہے، شے فنگ
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
بیجنگ : امریکہ میں چین کے سفیر شے فنگ کو امریکہ میں چائنا جنرل چیمبر آف کامرس کی 20 ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا اور انہوں نے کلیدی تقریر کی تھی۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا نے بتا یا کہ 300 سے زائد چینی اور امریکی تاجروں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے سامنے شے فنگ نے کہا کہ گزشتہ سال ایک پیچیدہ اور شدید صورتحال کے باوجود چین اور امریکہ کے تعلقات میں مجموعی طور پر استحکام رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بھی بڑھ گیا ہے۔ امریکی تجارتی خسارے کی ریکارڈ بلند سطح کے برعکس، چین کا غیر ملکی تجارتی پیمانہ ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، جو آٹھ سال پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد سے زیادہ ہے، جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ ٹیرف کی جنگ اور تجارتی جنگیں مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں، چین کی ترقی کو روکنا تو دور کی بات ہے۔امریکہ چین کی وجہ سے پریشان ہے، لیکن چین امریکہ کی وجہ سے پرُ سکون ہے۔حالیہ برسوں میں، امریکہ نے ہمیشہ “چینی ابھرتی ٹیکنالوجی کو روکنا” ہی اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر دیکھا ہے، جو صنعتوں کی بحالی، تکنیکی ناکہ بندی، ٹیرف رکاوٹوں اور دیگر ذرائع کے ذریعے چین کی ترقی کی رفتار کو سست کرنے کی کوشش کرتا ہے،اور یہ تشویش پیدا ہونے کی وجہ امریکہ کا اپنے نظام پر اعتماد تھا جو اب کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے .
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چین اور امریکہ کے کرتا ہے کی وجہ چین کی ہے اور کیا ہے
پڑھیں:
برطانیہ اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا
برطانیہ اور بھارت نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کردیئے، جس کے تحت ٹیکسٹائل سے لے گاڑیوں تک کی اشیا پر محصولات کم کیے جائیں گے اور کاروباری اداروں کو زیادہ مارکیٹ رسائی حاصل ہوگی۔
دونوں ممالک نے مئی میں اس تجارتی معاہدے پر بات چیت مکمل کی تھی، یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کرنے نے عالمی تجارت کو متاثر کر رکھا ہے۔
دنیا کی پانچویں اور چھٹی بڑی معیشتوں کے درمیان طے پانے وال یہ معاہدہ 2040 تک دوطرفہ تجارت میں مزید 25.5 ارب پاؤنڈ (34 ارب ڈالر) کے اضافے کا ہدف رکھتا ہے۔
یہ برطانیہ کا یورپی یونین سے 2020 میں علیحدگی کے بعد سب سے بڑا تجارتی معاہدہ ہے، اگرچہ اس کے اثرات یورپی یونین سے علیحدگی کے اثرات کے مقابلے میں محدود ہوں گے۔
بھارت کیلئے یہ کسی ترقی یافتہ معیشت کے ساتھ اس کا سب سے بڑا اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ ہے، جو مستقبل میں یورپی یونین کے ساتھ ممکنہ معاہدے اور دیگر خطوں سے مذاکرات کے لیے ایک نمونہ فراہم کر سکتا ہے۔
یہ معاہدہ توثیقی عمل کے بعد نافذ العمل ہوگا جو ممکنہ طور پر ایک سال کے اندر مکمل ہوگا۔
برطانوی وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ’بڑے فوائد‘ لائے گا اور تجارت کو سستا، تیز تر اور آسان بنائے گا۔
انہوں نے کہاہم ایک نئے عالمی دور میں داخل ہو چکے ہیں، اور یہ وہ وقت ہے جب ہمیں پیچھے ہٹنے کے بجائے گہری شراکت داریوں اور اتحاد بڑھا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
نریندر مودی نے کہا کہ یہ دورہ ’دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ دونوں ممالک نے دفاع اور ماحولیاتی شعبوں میں شراکت داری پر بھی اتفاق کیا اور جرائم کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔
معاہدے کے تحت شراب پر عائد محصول فوری طور پر 150 فیصد سے کم ہو کر 75 فیصد ہو جائے گا، اور آئندہ دہائی میں بتدریج کم ہو کر 40 فیصد تک آ جائے گا۔
برطانوی حکومت کے مطابق بھارت گاڑیوں پر محصولات کو ایک کوٹہ نظام کے تحت 100 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرے گا۔ اس کے بدلے بھارتی مینوفیکچررز کو بالخصوص الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کے شعبے میں برطانیہ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوگی۔
وزارت کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بھارت کی 99 فیصد برآمدات بشمول ٹیکسٹائل پر برطانیہ میں کوئی محصول نہیں لگے گا، جبکہ برطانیہ کے 90 فیصد ٹیرف لائنز میں کمی کی جائے گی، اور برطانوی کمپنیوں کو اوسطاً 15 فیصد کے بجائے صرف 3 فیصد محصول ادا کرنا پڑے گا۔