بیجنگ : امریکہ میں چین کے سفیر شے فنگ کو امریکہ میں چائنا جنرل چیمبر آف کامرس کی 20 ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا اور انہوں نے کلیدی تقریر کی تھی۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا نے بتا یا کہ 300 سے زائد چینی اور امریکی تاجروں اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے سامنے شے فنگ نے کہا کہ گزشتہ سال ایک پیچیدہ اور شدید صورتحال کے باوجود چین اور امریکہ کے تعلقات میں مجموعی طور پر استحکام رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بھی بڑھ گیا ہے۔ امریکی تجارتی خسارے کی ریکارڈ بلند سطح کے برعکس، چین کا غیر ملکی تجارتی پیمانہ ایک نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، جو آٹھ سال پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد سے زیادہ ہے، جس سے ایک بار پھر ثابت ہوتا ہے کہ ٹیرف کی جنگ اور تجارتی جنگیں مسئلے کو حل نہیں کر سکتیں، چین کی ترقی کو روکنا تو دور کی بات ہے۔امریکہ چین کی وجہ سے پریشان ہے، لیکن چین امریکہ کی وجہ سے پرُ سکون ہے۔حالیہ برسوں میں، امریکہ نے ہمیشہ “چینی ابھرتی ٹیکنالوجی کو روکنا” ہی اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر دیکھا ہے، جو صنعتوں کی بحالی، تکنیکی ناکہ بندی، ٹیرف رکاوٹوں اور دیگر ذرائع کے ذریعے چین کی ترقی کی رفتار کو سست کرنے کی کوشش کرتا ہے،اور یہ تشویش پیدا ہونے کی وجہ امریکہ کا اپنے نظام پر اعتماد تھا جو اب کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے .

چین مسلسل اصلاحات پر انحصار کرتا ہے، اورتسلسل کے ساتھ دیجیٹل معیشت ، سیٹلائٹ نیویگیشن ،اور صنعتی پیداوار کو بڑھا کر امریکہ کے ساتھ بیشتر شعبوں میں تقریباً برابری کی سطح پر ہے جبکہ بعض شعبوں میں جزوی حد تک بہتر بھی ہے۔ امریکہ کسی کو اپنے ہم پلہ ہونے کی حقیقت کو قبول ہی نہیں کرتا ہے، جبکہ کثیر القطبی بین الاقومی پیٹرن کے مطابق ڈھلنا اس کیلئے اور بھی مشکل ہے۔ امریکہ کی تزویراتی بے چینی کے برعکس، چین نے ہمیشہ “اپنے آپ کا ایک بہتر ورژن بننے” کا ارادہ کیا ہے، بیرونی دباؤ کو اندرونی محرک قوت میں تبدیل کیا ہے، اور اپنی نظر ترقیاتی راستے ، مسائل کے حل، لوگوں کے روز گار اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانے پر مرکوزرکھی ہے .۔ امریکی ناکہ بندی اور جبر کے سامنے چین نے زیادہ پرسکون اور ٹھنڈے دماغ سے کام لیا ، اور اس محاذ آرائی کی گرفت میں نہیں آیا ہے، بلکہ صنعتی چینز کی لچک کو بہتر بنا کر، کھلے پن اور تعاون کو وسعت دے کر ادارہ جاتی اصلاحات کو گہرا کرکے زیادہ جامع ترقیاتی ماڈل تیار کیا ہے۔ یہ سکون تاریخی تجربات سےہی پیدا ہوتا ہے: سرد جنگ کے دوران بالادستی کے لیے امریکہ اور سوویت یونین کی جدوجہد سے لے کر ڈیجیٹل دور میں گلوبلائزیشن کے ناقابل تلافی رجحان تک، چین نے واضح طور پر محسوس کیا ہے کہ ایک ملک کی حقیقی مسابقت دوسرے ممالک کو دبانے میں نہیں ہے، بلکہ اس بات میں ہے کہ آیا وہ وقت کے رجحان کے مطابق خود جدت طرازی کو مکمل کرسکتا ہے یا نہیں۔راستے کا انتخاب مستقبل کا تعین کرتا ہے اور چین اور امریکہ کے درمیان ذہنیت میں فرق کے پیچھے دو ترقیاتی فلسفوں کا ٹکراؤ ہے۔ امریکہ نے “چھوٹے صحن اور اونچی دیواروں” کے ذریعے بالادستی برقرار رکھنے کی کوشش کی ، لیکن وہ بکھرے ہوئے اسٹریٹجک وسائل اور داخلی تضادات میں اضافے کے مخمصے میں پھنس گیا۔ دوسری طرف چین کی ترقی پر مبنی عملی سفارتکاری کے عمل نے “انسانیت کے ہم نصیب معاشرے ” کے تصور کے ذریعہ تعاون کے دائرے کو زیادہ وسیع کیا اور زیادہ بین الاقوامی شناخت حاصل کی ہے۔ مختصر یہ کہ امریکہ کی بے چینی “مطلق برتری” کے جنون کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، جبکہ چین کا سکون ترقی کے قانون کے احترام پر مبنی ہے۔اپنی مذکورہ تقریر میں امریکہ میں چین کے سفیر شے فنگ نے صدر شی جن پھنگ کی جانب سے 17 جنوری کو صدر ٹرمپ کے ساتھ فون پر گفتگو کے دوران ظاہر کیے گئے خیالات کا حوالہ دیا: مذاکرات اور مشاورت مسائل کے حل کا صحیح راستہ ہے، اور دونوں فریقوں کو باہمی احترام، امن بقائے باہمی اور جیت جیت والے تعاون کے اصولوں کی بنیاد پر رابطے برقرار رکھنے، اختلافات کو منظم کرنے اور تعاون کو وسعت دینی چاہیے۔ چین اور امریکہ کے مشترکہ مفادات کیلئے دوطرفہ تعاون کی وسیع گنجائش موجود ہے اور وہ دونوں ممالک اور دنیا کے فائدے کے لئے باہمی کامیابی اور مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لئے شراکت دار اور دوست بن سکتے ہیں۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: چین اور امریکہ کے کرتا ہے کی وجہ چین کی ہے اور کیا ہے

پڑھیں:

ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق

امریکا اور چین نے کسی بھی ممکنہ تنازع یا غلط فہمی کو کم کرنے کے لیے فوج سے فوج کے براہِ راست رابطے بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی جنوبی کوریا میں ہونے والی تاریخی ملاقات کے بعد کیا گیا۔

امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ نے بتایا کہ انہوں نے اپنے چینی ہم منصب ڈونگ جون سے فون پر بات چیت کے دوران یہ فیصلہ کیا، تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو کم کرنے کے طریقہ کار قائم کیے جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیے: ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات کے اثرات آنا شروع، ٹرمپ نے چین پر عائد ٹیکس میں کمی کا اعلان کردیا

ہیگستھ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امن، استحکام اور مضبوط تعلقات دونوں طاقتور ممالک کے مفاد میں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے، جبکہ چین نے تائیوان کے معاملے پر واشنگٹن کو محتاط رہنے کا مشورہ دیا۔

یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گزشتہ برسوں میں بحیرہ جنوبی چین اور تائیوان آبنائے میں امریکی اور چینی افواج کے درمیان متعدد خطرناک تصادم کے واقعات پیش آئے تھے۔

ماہرین کے مطابق یہ عسکری رابطے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں اور ممکنہ تصادم سے بچنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا ٹرمپ چین شی جی پنگ فوجی رابطہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی سفیر کی سعودی شوریٰ کونسل کے سپیکر سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات، اقتصادی و تجارتی تعاون پر تبادلہ خیال
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • مضبوط و پائیدار پاک امریکہ تعلقات بہتر معاشی روابط اور موثر سرمایہ کاری سے وابستہ ہیں: رضوان سعید شیخ
  • برطانیہ اور قطر کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط
  • امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ، خطے میں نئی صف بندی کا آغاز
  • امریکا اور بھارت نے 10 سال کے لیے دفاعی معاہدہ کرلیا
  • قطر اور برطانیہ کے درمیان نئے دفاعی معاہدے پر دستخط