کراچی: ڈیفنس کے بنگلے میں چھاپہ، پولیس کو خفیہ کمرے میں خون کے دھبے ملے، تفتیشی ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
فوٹو: اسکرین گریپ جیو نیوز
کراچی کے علاقے ڈیفنس کے گھر میں پولیس مقابلے اور اغواء کے کیس میں پولیس کی تفتیش جاری ہے۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ سرچ آپریشن کے دوران گھر کی پہلی منزل پر خفیہ کمرہ ملا ، جس میں موجود قالین پر گولیوں کے نشانات اور خون کے دھبے ملے، قالین کے نیچے سے بھی خون کے دھبے ملے ہیں۔
عدالت نے واقعے کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
خون کے نمونوں کو ڈی این اے کےلیے بھیجا گیا، رپورٹ ابھی نہیں آئی،
مغوی مصطفیٰ کا موبائل فون بھی ملزم ارمغان کے گھر سے ملا، موبائل فون کا بھی فارنزک کروایا جا رہا ہے۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ چھاپا مغوی مصطفیٰ کی تلاش میں مارا گیا تھا، اب تک مغوی کی نشاندہی نہیں ہوئی، ملزم گھر سے غیر قانونی کال سینٹر بھی چلاتا تھا، ملزم کے گھر سے بڑی تعداد میں ممنوعہ بور کا اسلحہ ملا ہے۔
خیال رہے کہ کراچی پولیس ڈیفنس کے علاقے خیابان محافظ سے 6 جنوری کو اغواء ہونے والے نوجوان مصطفیٰ کا تاحال پتا نہیں لگا سکی۔
پولیس ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود نوجوان مصطفیٰ کی بازیابی یا اُس کے زندہ یا مردہ ہونے کا پتہ نہیں لگاسکی ہے۔
ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ چھاپا اغوا ہوئے نوجوان کے کیس میں مارا گیا تھا۔
8 فروری کو گرفتار ہونے والے ملزم ارمغان نے پولیس کے روبرو اعتراف کیا تھا کہ اُس نے مصطفیٰ کو 3 روز پہلے قتل کردیا تھا۔
ڈی آئی جی مقدس حیدر کے مطابق بیان کی سچائی جاننے کےلیے تحقیقات کررہے ہیں۔
کئی دن گزرنے کے باوجود نہ تو مصطفیٰ کی لاش ملی نہ ہی پولیس نے تفتیش مکمل کی ہے، اس کے باوجود ارمغان کے جسمانی ریمانڈ کے بجائے جیل بھیجے جانے سے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
مغوی مصطفیٰ کی والدہ کا الزام ہے کہ لاپتا ہونے کے وقت بھی پولیس نے کوئی شنوائی نہیں کی۔
یاد رہے کہ 8 فروری کو مصطفیٰ کی بازیابی کیلئے ڈیفنس کے ایک بنگلے پر چھاپا مارا گیا تھا، گرفتار ملزم ارمغان کی فائرنگ سے ڈی ایس پی سمیت 2 اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم کی فوری گرفتاری لازمی قرار
سپریم کورٹ نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قبل از گرفتاری ضمانت مسترد ہونے کے بعد فوری گرفتاری ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ: بانجھ پن کی بنیاد پر مہر یا نان نفقہ دینے سے انکار غیر قانونی قرار
چیف جسٹس یحییٰ خان آفریدی کی سربراہی میں سنائے گئے 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صرف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے سے گرفتاری نہیں روکی جا سکتی۔
عدالت نے واضح کیا کہ عبوری تحفظ کوئی خودکار عمل نہیں بلکہ اس کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لینا ضروری ہے۔
فیصلے کے مطابق ملزم زاہد خان اور دیگر کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ سے مسترد ہوئی، اس کے باوجود پولیس نے 6 ماہ تک گرفتاری کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔
عدالت نے اسے انصاف کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ عدالتی احکامات پر فوری عملدرآمد انصاف کی بنیاد ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق آئی جی پنجاب نے پولیس کی غفلت کا اعتراف کیا اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے سرکلر جاری کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
یہ بھی پڑھیں:زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
عدالت نے مزید کہا کہ پولیس کی طرف سے گرفتاری میں تاخیر کو انتظامی سہولت کا جواز نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ ایسی غیر قانونی تاخیر انصاف کے نظام اور عوام کے اعتماد کو مجروح کرتی ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا کہ اگر اپیل زیر التوا ہو تب بھی گرفتاری سے بچاؤ ممکن نہیں، جب تک عدالت کی طرف سے کوئی حکم نہ ہو۔
درخواستگزار وکیل کی جانب سے درخواست واپس لینے پر عدالت نے اپیل نمٹا دی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں