پچھلے دنوں جوکتاب زیر مطالعہ رہی، اس کا نام ہے ’’ دریچوں میں رکھے چراغ‘‘ اور اس کے مصنف ہیں رام لعل، جو انڈیا اور پاکستان میں یکساں مقبول ہیں، ان کے افسانے انڈ و پاک کے تمام ادبی جرائد میں شایع ہوتے رہے۔
زیر نظر کتاب شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے تقریباً اکیس ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جیسے کرشن چندر، عصمت چغتائی، مصطفیٰ زیدی، علی عباس حسینی، فیض احمد فیض، راجہ مہدی علی خاں، کنور مہندر سنگھ بیدی، قتیل شفائی، تلوک چند محروم اور فہمیدہ ریاض وغیرہ۔
عصمت چغتائی جو معروف افسانہ نگار تھیں کے بارے میں لکھتے ہیں ’’میں نے اپنے گھر پر عصمت چغتائی کو چائے پر مدعوکیا، اس موقع پر سجاد ظہیر، رضیہ سجاد ظہیر، ستیش بترا اور س وسیم بھی موجود تھے، انھی دنوں یہ خبر سننے میں آئی کہ کرشن چندر نے اپنی پہلی بیوی کی موجودگی میں اردو افسانہ نگار سلمیٰ صدیقی (رشید احمد صدیقی کی بیٹی) سے شادی کر لی ہے، عصمت چغتائی سے اس شادی کے بارے میں پوچھا تو عصمت نے اس خبر کی تائید کی اور کہا کہ وہ بھی اس موقع پر موجود تھیں۔
میں نے پوچھا کہ سنا ہے ’’اس شادی سے پہلے کرشن نے اپنا مذہب بھی تبدیل کر لیا تھا۔‘‘ عصمت نے اس کی بھی تائید کی۔ میں نے کہا ان کا نام کیا رکھا تو وہ مسکرا کر بولیں ’’ نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے، کرشن چندر،کرشن چندر ہی رہیں گے۔‘‘ میں نے اصرارکیا کہ ’’ میں یہ بات اپنی تشفی کے لیے پوچھ رہا ہوں، بتا تو دیجیے کہ میرے بزرگ دوست کا آخرکیا نام رکھا گیا؟‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولیں: ’’ سمجھ لو اللہ رکھا ‘‘ بات قہقہوں میں آئی گئی ہوگئی۔
راجہ مہدی علی خاں ادبی دنیا اور فلم نگری کا بہت بڑا نام ہے۔ وہ 1928 میں پیدا ہوئے اور صرف اڑتیس سال کی عمر میں 1966 میں اس دنیا سے سدھار گئے۔
راجہ مہدی علی خاں نے جہاں ایک طرف مزاحیہ شاعری اور پیروڈی میں اپنا نام بنایا وہیں فلموں کے لیے جو گیت لکھے وہ ناقابل فراموش ہیں، لتا کے بہترین اور مقبول گیتوں کے خالق راجہ صاحب ہی تھے۔ یہ مہدی علی خاں کی شخصیت کا وہ رخ ہے جس پر اکثر لوگ حیرت کا اظہار کرتے ہیں، مدن موہن، لتا اور مہدی علی خاں کی جوڑی نے فلموں کو ایسے سدا بہار گیت دیے جو آج بھی پہلے کی طرح مقبول ہیں۔ مہدی علی خاں جہلم میں پیدا ہوئے، تقسیم کے وقت انھوں نے ہندوستان میں رہنا پسند کیا، ادبی دنیا اور فلمی دنیا میں ان کا بڑا نام ہے۔ اتفاق دیکھیے کہ لتا کے سارے مقبول گانے راجہ مہدی علی خاں نے ہی لکھے جیسے:
(1)۔ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
(2)۔ او بسنتی پون پاگل نہ جا رے نہ جا
(3)۔ نیناں برسیں رم جھم، رم جھم
(4)۔ بہاروں میرا جیون بھی سنوارو کوئی آئے کہیں سے
راجہ مہدی علی خاں نے فلموں میں جو شاعری کی وہ ایک ادبی شان رکھتی ہے۔ رام لعل نے ان کے خاکے میں ان کی مزاحیہ شاعری کے نمونے بھی پیش کیے ہیں، ملاحظہ کریں۔
کھٹکھٹاتا ہوں بہت دیر سے دروازہ کھول
اے مری روٹھی ہوئی بیوی ذرا منہ سے بول
پھول اک روز تیرے پیارے کے توڑے میں نے
کھائے والد سے ترے عشق میں کوڑے میں نے
مر مریں ہاتھ ترے پھر بھی نہ چھوڑے میں نے
بحر سسرال میں دوڑا دیے گھوڑے میں نے
اپنے ماضی کے ترازو میں ذرا مجھ کو تول
کھٹکھٹاتا ہوں بہت دیر سے دروازہ کھول
٭…٭…٭
آئے میاں کے دوست تو آتے چلے گئے
چھوٹے سے ایک گھر میں سماتے چلے گئے
الماریوں میں سہم گئے بسکٹوں کے ٹن
چن چن کے ایک ایک کو کھاتے چلے گئے
کوئی کتاب اپنے ٹھکانے نہ رہ سکی
ہندی کو فارسی میں ملاتے چلے گئے
٭……٭……٭
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
سوتی ہے وہ سنبھالتی ہوں سارے گھر کو میں
بلّو کو چپ کراؤں کہ ماروں قمر کو میں
فرش زمیں کو دھوؤں کہ مانجھوں ککر کو میں
کیوں اپنا گاؤں چھوڑ کے آئی نگر کو میں
رہ رہ کے یاد کرتی ہوں فادر مدر کو میں
٭…٭…٭
انھوں نے کتنے الفاظ کے معنی بدلے، کتنے زہریلے محاورات کے دانت اکھیڑے، شیطانوں کو قابل محبت بنایا، ہندوؤں اور مسلمانوں پہ پھبتیاں کسیں، ان کی مضحک حرکتوں پہ قہقہے لگائے، انھیں گالیاں دیں، لیکن وہ موت کا کچھ نہ بگاڑ سکے، نہ تو اس کے معنی بدل سکے نہ ہی اس کی ہیئت اور ہیبت۔
مصطفیٰ زیدی کے بارے میں رام لعل لکھتے ہیں کہ ’’جس زمانے میں اس سے ملا تھا اس وقت وہ تیغ الٰہ آبادی تھا، جسے اس نے خود ہی مار ڈالا تھا اور پھر اپنا نام مصطفیٰ زیدی رکھ کر ایک نئی زندگی اوڑھ لی تھی۔ اب تک لوگ اسے اسی نام سے جانتے ہیں، تیغ الٰہ آبادی کو سب بھلا چکے ہیں۔ یہ بیس اکیس سال پہلے کی بات ہے۔
آزادی کے بعد میں بنارس میں دو ڈھائی سال رہ کر لکھنؤ چلا آیا تھا، کبھی کبھی اپنے دوستوں سے ملنے بنارس چلا جاتا تھا، صغیر احمد صوفی انھی میں سے ایک تھا، اسی کے مکان پر تیغ سے مختصر سی ملاقات ہوئی تھی، اسی زمانے میں اس کے بارے میں ایک بات مشہور ہوئی تھی کہ اس نے الٰہ آباد میں کسی ہندو لڑکی سے عشق میں ناکامی کے بعد خود کشی کرنے کی کوشش کی تھی، اس کے لیے میرے دل میں ہمدردی سے زیادہ تجسس کا جذبہ تھا۔
جو لوگ شدید قسم کا عشق کرتے ہیں ان کے لیے میرے دل میں ہمیشہ ایک خاص جگہ بنی رہی ہے، جب تیغ کے بارے میں یہ واقعہ سنا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی، اس سے اچانک مل کر تو اور بھی خوشی ہوئی، انھی دنوں اس کا پہلا شعری مجموعہ آیا تھا جو شاید اسی لڑکی کے نام معنون تھا، اس کے ساتھ بنارس میں تفصیلی ملاقات نہ ہو سکی، وہ جلدی میں تھا۔ الٰہ آباد واپس جا رہا تھا لیکن اس نے مجھے بتایا کہ میں بہت جلد لکھنؤ آرہا ہوں، تم سے ملوں گا۔ میرا پتا نوٹ کرکے وہ چلا گیا۔
تیغ الٰہ آبادی اور میں جیسے ہی ریستوران میں داخل ہوئے، ہمارے سامنے چائے رکھ دی گئی۔ اس نے مجھ سے کہا تمہارے ذہن میں شاید سوال گردش کر رہا ہے کہ میں نے خود کشی کی کوشش کیوں کی تھی؟ میں نے جواب دیا، پہلی بات تو یہ ہے تمہاری شخصیت اس وقت میرے لیے بہت ہی پراسرار بنی ہوئی ہے کیونکہ تم موت کے منہ سے واپس لائے گئے ہو، پتا نہیں تم مرکر لوٹے ہو یا مرنے سے پہلے ہی واپس لائے گئے ہو۔ یہ سن کر تیغ نے میری طرف غور سے دیکھا، کچھ لمحوں تک خاموش سا رہ گیا، پھر گمبھیر آواز میں بولا’’ میرا خیال ہے خودکشی کے موضوع پر بحث کرنے کے لیے یہ سب اہم نہیں ہے۔‘‘ میں سمجھ گیا وہ اپنی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: راجہ مہدی علی خاں عصمت چغتائی کے بارے میں چلے گئے کو میں کے لیے
پڑھیں:
پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھے گا، عطاء اللہ تارڑ
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے انسٹیٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کے ادارے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن و استحکام کے لیے موثر کردار ادا کیا اور بھارت کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کی بلاجواز جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جس کے بعد بھارت کو جنگ بندی کی درخواست کرنا پڑی۔ عطاء اللہ تارڑ کے مطابق چار روزہ جنگ میں پاکستان نے فتوحات کی ایک نئی داستان رقم کی اور مودی حکومت کو عبرتناک شکست ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت ایک غاصب اور جارح ملک ہے جو مظلوم بننے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ پہلگام واقعے کی حقیقت دنیا کے سامنے آچکی ہے جبکہ پاکستان نے اس حوالے سے آزادانہ تحقیقات کی پیشکش بھی کی تھی۔
وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک بھی پہنچ چکا ہے اور عسکری شکست کے بعد بھارت کھیلوں میں بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔
عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے اور دنیا کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسی تہذیب کا وارث ہے جہاں روایات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا اور مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق چاہتا ہے۔
Post Views: 6