چولستان میں گرین پاکستان انیشیٹو کے منصوبوں میں نمایاں کامیابیاں
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
ایس آئی ایف سی کے تحت گرین پاکستان انیشیٹو (جی پی آئی) کی کوششوں سے زرعی شعبے خصوصا ً چولستان میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
چولستان کے مقامی افراد کی فلاح و بہبود کے لیےزرعی ترقی لازم ، پانی کی بچت اور بروقت استعمال کے لیے جدید ’’سینٹرل پیوٹ سسٹم‘‘ فعال کیے گئے ہیں۔ جی پی آئی کے تحت کسانوں کی سہولت کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی کی فراہمی یقینی بنانےکا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر جی پی آئی حدیقہ حبیب کا کہنا ہے کہ جی پی آئی خصوصاً چولستان کے لیے گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوگا ۔ چولستان میں کارپوریٹ فارمنگ، معیاری بیج اور کسانوں کی انتھک محنت زیادہ منافع بخش پیداوار میں اہم کردار کر رہی ہے۔
اسی طرح عبداللطیف نے چولستان میں فصل کی کامیاب پیداوار میں ’’سینٹرل پیوٹ سسٹم‘‘ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس کی اہمیت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ ’’سینٹرل پیوٹ سسٹم‘‘ چولستان کی بنجر زمین کو آباد کرنے میں معاون، پانی کے بروقت اور بہتر استعمال کے لیے فائدہ مند ہوگا۔
سید نقی گلزار نے کہا کہ جی پی آئی کی جانب سے پانی اورزمین کا تجزیہ کرنے کے لیے لیبز میں جدید مشینری کی سہولت بھی فراہم کی جا رہی ہے۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹی کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت جی پی آئی بنجر زمینوں کی آبادکاری کے ذریعے ملکی زراعت کی ترقی و خوشحالی کے لیے کوشاں ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں