امریکا کا تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے بھارت کا جتن، مزید گیس اور تیل خریدے گا
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکا اور بھارت کے درمیان ’میگا پارٹنرشپ‘ کو سراہا ہے، جس میں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی خسارے کو کم کرنے کی کوشش میں مزید امریکی تیل اور گیس بھارت درآمد کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنا 2 روزہ دورہ امریکا ایسے وقت میں کیا ہے، جب ٹرمپ نے حال ہی میں حکم دیا تھا کہ امریکا کے بھارت سمیت تمام تجارتی شراکت داروں کو بڑے پیمانے پر باہمی محصولات کا سامنا کرنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی کے اچانک دورۂ امریکا کا اعلان، کیا بھارتی شہری بھی ’ٹرمپ پالیسی‘ کا شکار ہوگئے؟
اور جب دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کی قیادت کی تعریف کی، صدر ٹرمپ نے ہندوستان پر دنیا میں سب سے زیادہ تجارتی محصولات عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک بڑا مسئلہ قرار دیا۔
ہندوستانی وزیراعظم نے امریکا کی جانب سے متوقع تجارتی رکاوٹوں کو نرم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی اشیا پر محصولات کو کم کرنے، امریکا میں مقیم غیر قانونی بھارتی شہریوں کی واپسی سمیت امریکا سے فوجی لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا سے بھارتیوں کی بیدخلی پر وزیر خارجہ جے شنکر کو وضاحت کیوں کرنا پڑی؟
ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں، وزیر اعظم نریندر مودی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کے نعرے کے متعدد حوالے دیتے ہوئے اپنا تڑکا بھی لگایا۔ ’یہ (نعرہ) ہے ہندوستان کو پھر سے عظیم بنائیں۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم ڈونلڈٹرمپ نریندر مودی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم ڈونلڈٹرمپ
پڑھیں:
صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی خواہش کیا کسی بڑی پیشرفت کا پیش خیمہ ہے؟
گزشتہ روز امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان ٹیمی بروس نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی کوشش کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، امریکا کا عندیہ
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ان کے ذہن میں کیا ہے اس پر بات تو نہیں کر سکتے لیکن ان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات نسلوں پر محیط مسائل کو ختم کر رہے ہیں۔ وہ کئی ایسے تنازعات کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے ہیں جن کے بارے میں کئی لوگ سوچتے تھے کہ یہ ناممکن ہے۔ میڈیا بریفنگ میں ٹیمی بروس نے پاکستان اور بھارت کے سفارتی وفود کی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ عہدیداران سے ملاقاتوں پر بھی بات کی۔
امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ بیان اور صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا حل کیے جانے سے متعلق امریکی صدر کا بار بار اعادہ کرنا جہاں اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے وہیں بھارت کے اس مؤقف کی نفی بھی ہوتی ہے جس میں وہ کشمیر پر ہر قسم کی ثالثی سے انکار کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بھاری بھر کم بھارتی سفارتی وفد کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مذاکرات کے بعد بھی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس طرح کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے سفارتی وفد کو مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے بیان سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ دنیا اب یہ تسلیم کرنا شروع ہو گئی ہے کہ برصغیر کا امن مسئلہ کشمیر سے وابستہ ہے اور اس کو حل کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ وہیں عالمی سطح پر یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ کشمیر کا مسئلہ 2 جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھا کر عالمی امن کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
سفارتی ماہرین کی رائے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کا بار بار اعادہ پاکستان کی سفارتی کامیابی اور سفارتی مؤقف کی جیت ہے۔
مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا اعتراف حوصلہ افزا ہے، ایمبیسیڈر عبدالباسط
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار ایمبیسیڈر عبدالباسط نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر کو بطور بنیادی مسئلہ یا تنازعات کی جڑ تسلیم کیا جانا ایک حوصلہ افزا بات ہے۔ مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر باقی تمام مسائل فروعی نوعیت کے ہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ بھارت امریکا کی اس پیشکش کو دانشمندانہ طریقے سے قبول کرے کیونکہ جنوبی ایشیا کے پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر، منصفانہ بنیادوں اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔
امریکی صدر کی جانب سے مسئلہ کشمیر کا اعادہ اس مسئلے بارے ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے، ایمبیسیڈر مسعود خان
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب ایمبیسیڈر مسعود خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری نظر میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ایسا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ مسئلہ کشمیر کو لے کر امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس عزم کو بھی کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانا چاہتے ہیں اور بظاہر یہ لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے عہد صدارت کے دوران اس مسئلے کے بارے میں پیشرفت کریں گے۔
مزید پڑھیے: خطے میں امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے، وزیراعظم شہباز شریف
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مختلف مسائل کے حل کے بارے میں غیر روایتی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور ایسی ملاقاتیں کرائی ہیں جو ناممکن نظر آتی تھیں اور ایسے مسائل پر بات چیت بھی ہوئی جو لاینحل نظر آتے تھے۔
مثال کے طور پر ٹیرف کے مسئلے پر چین سے مذاکرات، یوکرین مسئلے کے حل کے لیے غیر روایتی طریقہ کار اور حالیہ پاک بھارت جنگ بندی کے معاملے پر انہوں نے مروّجہ طریقہ کار سے ذرا مختلف طریقے سے بات چیت کی۔
10 مئی کو جب صدر ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ بندی کا اعلان کیا تو اُنہوں نے اس وقت 3 باتیں کیں۔ ایک انہوں نے پاکستان اور بھارت کو مبارکباد دی، دوسرے اُنہوں نے دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کی بات چیت کی اور تیسرے نمبر پر انہوں نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ آیا صدر ٹرمپ اپنے اس وعدے پر قائم رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن اُن کی طرف سے مسلسل یہ بیانات آنا اور پھر گزشتہ روز کا بیان ایک اہم پیش رفت ہے جو امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
کشمیر کا پاکستان اور بھارت کے مابین مرکزی تنازع کے طور پر تسلیم ہونا ایک بڑی پیش رفت ہے، ایمبیسیڈر مسعود خالد
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران جب دونوں ملکوں کے بیچ امریکی وساطت سے بات چیت کا آغاز ہوا تو پاکستان کا مؤقف بھی واشنگٹن پہنچا اور امریکی صدر کی جانب سے بار بار مسئلہ کشمیر کے حل کا اعادہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ہماری سفارتکارانہ کوششیں شامل ہیں جس کی وجہ امریکہ کو بھی یہ احساس ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں یہ ہماری سفارتی جیت ہے وہیں یہ ہماری سفارتکاری کا امتحان بھی ہے کہ ہم اپنے مؤقف کو کتنی مضبوطی کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔پاک بھارت جنگ کے دوران اور بعد میں سفارتکاری تو دونوں ملکوں کی جانب سے جاری ہے لیکن کون ملک اس وقت اس سفارتی دباؤ کو برقرار رکھ سکتا ہے یہ اصل چیز ہے۔
ایمبیسیڈر مسعود خالد نے کہا کہ 10 مئی کو جنگ بندی کے بعد سے امریکی صدر کئی بار یہ دہرا چُکے ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لئے تیار ہیں جو ایک خوش آئند پیش رفت ہے اور دنیا کی جانب سے کشمیر کو ایک مرکزی تنازعے کے طور پر تسلیم کیا جانا بھی ایک بڑی پیشرفت ہے۔ اس واقعے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر سے عالمی طور پر ایک بڑے مسئلے کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سے مسلسل ایسے جارحانہ بیانات آ رہے ہیں جو صورتحال کو مزید کشیدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی تمام کوششوں کو مسترد کر دیا جاتا ہے تو یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا اس مسئلے پر پیش رفت ہو پائے گی یا نہیں اور بعض چیزیں جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ صدر ٹرمپ نے بیان دیا کہ وہ یوکرین کے مسئلے کو 24 گھنٹے میں حل کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک وہاں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے 6 جہاز گرائے، جب بھی بات ہوگی مسئلہ کشمیر پر ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ
اس سب کے باوجود صدر ٹرمپ کی جانب سے بار بار مسئلہ کشمیر کا حل کیا جانا اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت پاک بھارت کشیدگی پاکستان ٹرمپ اور مسئلہ کشمیر صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر