Express News:
2025-06-09@16:28:31 GMT

خوش اخلاقی بہت بڑی صفت ہے!

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

رابرٹ ولسن کی عمر پچھتر برس کی تھی۔ اہلیہ کا انتقال تقریباً آٹھ برس پہلے ہو چکا تھا۔ ایک بیٹا تھا، جو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں کام کرتا تھا اور بہت کامیاب تھا۔ ولسن باقاعدگی سے سیر کرتا تھا اور کھانے پینے میں کافی احتیاط کرتا تھا۔ لہٰذا اچھی صحت کا مالک تھا۔ مگر بڑھاپا کسی طور پر چھپایا نہیں جا سکتا۔

ولسن کے کندھے تھوڑے سے جھکے ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سوٹ بھی پرانے ہی پہنتا تھا۔ پوری عمر شکاگو میں نوکری کر کے اب وہ اسی شہر کا مستقل باسی بن چکا تھا۔ ولسن کے پاس ایک بیس برس پرانی گاڑی تھی۔ ایک دن، فیصلہ کیا کہ اسے بہتر اور زیادہ آرام دہ گاڑی خریدنی چاہیے۔ بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو اس میں کافی پیسے موجود تھے۔ ایک دن رابرٹ نئی گاڑی دیکھنے اور خریدنے کے لیے شکاگو کے سب سے بڑے شو روم پر گیا۔

وہ جگہ قیمتی کاریں بیچنے کے لیے جانی جاتی تھی۔ رابرٹ نے پرانا سا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میںایک قدیم سا بریف کیس تھا۔ جوتے بھی نئے نہیں تھے۔ شو روم میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان سیلزمین اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس جوان لڑکے نے دیدہ زیب کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ جوتے بھی چمک رہے تھے۔ مقابلے میں رابرٹ ایک غریب آدمی نظر آ رہا تھا۔ ولسن نے بڑی تہذیب سے اس سیلزمین سے پوچھا کہ اسے مرسڈیز گاڑی خریدنی ہے، اور وہ بھی ایس کلاس کی۔ شوروم کے اس ملازم کا نام جان میتھیو تھا۔ اس نے سوالیہ طریقے سے رابرٹ کی طرف دیکھا۔ میتھیو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک غریب نظر آنے والا بوڑھا سا آدمی، مرسڈیز جیسی قیمتی گاڑی کیونکر خرید سکتا ہے۔

یقیناً وہ صرف قیمت معلوم کر کے، وقت ضایع کرنے آیا ہے۔ جان نے سنجیدگی سے ولسن کو کہا کہ کیا آپ کے پاس دو لاکھ ڈالر ہیں کہ اتنی بیش قیمت گاڑی خرید سکیں۔ سوال وجواب ہو ہی رہے تھے کہ شوروم کا سپروائزر بھی وہیں آ گیا۔ ایک معمولی وضع قطع کے خریدار کو دیکھ کر، رعونت سے پوچھنے لگا کہ فرمایئے آپ کی کیا خدمت کریں۔ میتھیو نے بتایا کہ یہ مرسڈیز خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔ سپروائزر نے غیرسنجیدگی سے کہا کہ جناب کیا آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ مرسڈیز جیسی مہنگی گاڑی خرید سکیں۔ رابرٹ کے لیے شو روم کے عملے کا یہ رویہ حددرجہ توہین آمیز تھا۔ وہ تو ایک گاہک تھا اور یہ اس کا استحقاق تھا کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی کار خرید لے۔

شو روم والے اپنے رویے سے مسلسل اس کی بے عزتی کر رہے تھے۔ بہرحال رابرٹ خاموشی سے واپس آ گیا مگر وہ پوری رات بے چین رہا۔ اس کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ صبح ہوتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ بیٹے کو باپ کی سبکی سے بڑی تکلیف ہوئی۔ مگر اس نے کچھ بھی کہنے سے پہلے والد سے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔ شو روم کی کمپنی کا نام اور دیگر کوائف اپنے والد سے لے لیے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شو روم اور کمپنی خسارہ میں جا رہی ہے۔ بلکہ وہ تو اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی بندہ اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بیٹے نے اپنے والد کو ساری صورت حال بتائی تو رابرٹ کے ذہن میں یکدم ایک خیال آیا۔ پچیس برس پہلے میں نے پچاس ہزار ڈالر نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں لگائے تھے۔ان کی موجودہ مالیت کتنی ہے؟ بیٹے نے اکاؤنٹ دیکھ کر بتایا کہ اڑھائی دہائیوں میں وہ پانچ ملین ڈالر کے برابر ہو چکے ہیں۔ رابرٹ نے بیٹے سے پوچھا کہ کاروں کا شو روم کتنے میں اپنی مکمل کمپنی فروخت کر رہا ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بھی تقریباً اتنے ہی پیسے مانگ رہا ہے۔ رابرٹ نے بیٹے کو فوراً کہا کہ آپ ایک دن میں قانونی کارورائی مکمل کر کے یہ شو روم اور کمپنی فوری طور پر خرید لو۔ باپ کے حکم پر بیٹے نے فوری طور پر قانونی کارروائی مکمل کر کے کمپنی رابرٹ ولسن کے نام کروا دی۔ یہ سب کام دو دنوں میں مکمل ہو گیا مگر شو روم میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کمپنی نئے ہاتھوں میں جا چکی ہے۔

بہرحال، رابرٹ، اپنے وہی پرانے کپڑے پہن کر اگلے دن شو روم میں گیا۔ وہی جان میتھیو اور سپروائزر اسے دیکھ کر غصے میں آ گئے۔ فرمایئے، آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ مرسڈیز خریدنے کے لیے تو شاید آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ رابرٹ نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف یہ کہا کہ وہ اب کمپنی کا مالک ہے اور اپنے کمرے میں بیٹھنے کے لیے جا رہا ہے۔ یہ جملہ سن کر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ بوڑھا رابرٹ بڑی متانت سے اپنے کمرے میں گیا اور تمام اسٹاف کو بلوایا۔ میتھیو اور سپروائزر کو کہنے لگا کہ آپ دونوں کو گاہک سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔

شائستگی سے بات کرنا آپ کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ دونوں معافیاں مانگنے لگ گئے کہ آیندہ غلطی نہیں ہو گی۔ مگر رابرٹ اپنا ذہن بنا چکا تھا۔ اس نے دونوں کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ بقیہ اسٹاف کو صرف ایک حکم دیا کہ شو روم میں جو بھی انسان، جس حلیہ میں بھی آئے، اسے عزت اور احترام سے گاڑیاں دکھانی ہیں۔ اب ہوا یہ کہ جو بھی گاہک، شو روم میں آتا تھا، اس کی اتنی آؤبھگت کی جاتی تھی کہ وہ حیران رہ جاتا تھا۔ اکثر لوگ گاڑی وہیں سے خرید کر باہر نکلتے تھے۔ کمپنی کی شہرت پورے شکاگو میں بہت جلد پھیل گئی۔

ایک سال کی قلیل مدت میں، رابرٹ کی کمپنی اور شو روم پورے شہر کی بہترین جگہ قرار دی گئی۔شو روم کا منافع، آسمان کو چھونے لگا۔ رابرٹ مرتے دم تک اس شو روم کو حددرجہ کامیابی سے چلاتا رہا اور شکاگو میں ان سے زیادہ کاروں کے کاروبار میں کسی نے نہیں کمایا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں، اینکر نے ان کے کاروبار میں کامیابی کا راز پوچھا تو اس کا جواب صرف ایک جملہ کا تھا، لوگوں کا احترام اور عزت کرنا، سب سے اہم چیز ہے۔

مجھے جب یہ اطمینان ہوگیا کہ یہ پورا واقعہ مکمل طور پر درست ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی۔ مگر اس پر غور کرنے سے ذہن میں کئی نئے معاملات سامنے آنے لگے۔ متعدد سوالات اٹھ گئے۔ رابرٹ نے جو سبق سکھایا۔ وہ بار بار ذہن میں اپنے اردگرد کے معروضی حالات دیکھ کر سانپ کی طرح پھن پھیلانے لگا۔جب اپنے ملک کی اکثریت کو دیکھتا ہوں تو وہ حددرجہ غصیلے اور دوسرے کو تکلیف دینے کے مزاج کے حامل معلوم پڑتے ہیں۔

حکومت میں موجود سیاست دانوں سے لے کر نوکرشاہی کے افسران تک، ہر مقام پر بڑا یا چھوٹا فرعون بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ کسی دفتر میں چلے جایئے، سب سے پہلے یہ معلوم ہو گا کہ آپ کی کوئی ذاتی عزت نفس نہیں ہے۔ اس قدر عامیانہ سلوک ہو گا کہ آپ اپنا جائز کام کروانے کے بجائے، واپس جانے کو ترجیح دیں گے۔ دراصل، ہمارا پورا ملک منفی سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی رویوں پر چل رہا ہے۔

ہر شخص دوسرے کو ذلیل کرنے کا جواز ڈھونڈ رہا ہے۔ ہمارے حکمران طبقہ کی رعونت تو دیدنی ہے۔ وہ تو پچاس سے سو گاڑیوں کے حصار کے بغیر چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر مصنوعی سی مسکراہٹ اور جعلی خوشگوار موڈ کو دکھا کر لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے! کیا کوئی بھی پاکستانی اپنے جائز کام کروانے کے لیے کسی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم سے ملنے کا تصور تک کر سکتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اپنے حقوق کے لیے حکمران طبقے کے کسی اہم یا غیراہم شخص سے مل پائیں۔ میں آج کی بات نہیں کر رہا۔ تہتر برس کی کہانی صرف یہ ہے کہ ایک جعلی طرز کا حکمران طبقہ ہے جو عام لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ لوگوں کے حقوق اور جائز خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔

خوش اخلاقی کا رویہ تو بڑی دور کی بات، یہاں تو اپنی عزت بچا کر زندگی گزارنا تقریباً ناممکن کام ہے۔ لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں۔

سمندر کی لہروں میں مرنے کو، ملک خداداد میں زندہ رہنے پر ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر حکمران طبقہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کا شاہانہ پن کم ہونے کے بجائے تکلیف دہ حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رویہ کو صحیح کرنا، مشکل نہیں بلکہ مکمل طور پر ناممکن ہے۔ اور ہاں، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں، اس دین کے پیروکار ہیں جس میں حسن اخلاق، ہر عبادت پر فوقیت رکھتا ہے مگر عملی طور پر ہر چیز الٹ ہے۔ پتہ نہیں اگر رابرٹ ولسن امریکا کے بجائے پاکستان کا شہری ہوتا تو اس کا کیا بنتا۔ شاید وہ یہاں زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کرنا بہتر سمجھتا؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گاڑی خرید کے بجائے نہیں ہے تھا اور دیکھ کر کا تھا کے پاس ایک دن کہا کہ رہا ہے کے لیے کی بات

پڑھیں:

زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید

بفضلہ تعالیٰ ہر سال کی طرح اِمسال بھی ہم عیدالاضحٰی یا بقرعید کی خوشیاں منارہے ہیں اور تب تک مناتے رہیں گے جب تک اس دنیائے فانی میں موجود ہیں۔ ’’آخرت کی خبر، خُدا جانے‘‘ کے مصداق دوسرے جہان میں عید کے تصور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ راقم نے ماقبل اپنے سلسلہ زباں فہمی میں، متعدد بار عیدالاضحی یا بقرعید (عیدِ قرباں، بقرہ عید۔یا۔ بکرا عید) عُرف ’بڑی عید‘ کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ، مگر جس طر ح ہر سال، اس مقدس موقع پر قربانی ضروری ہے۔

 اسی طرح قربانی کے مسائل اور دیگر متعلقات پر ہر مرتبہ لکھا جانا اور دُہرایا جانا بھی ضروری ہے۔ ہم لوگ یوں بھی سال بھر میں ایک مرتبہ ’چھوٹی‘ اور ایک مرتبہ ’بڑی عید‘ مناتے ہیں تو یہ منظر بہت جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ نمازِعید میں کئی افراد ، ’تکبیراتِ واجب‘ کی تعدادوترتیب بھُول جاتے ہیں ۔اس موقع پر ایک بہت ہی پیاری شخصیت کی یاد تازہ کرتا چلوں۔ فیڈرل ’بی‘ ایریا کی جامع مسجد رضوان کے خطیب مولانا سراج مرحوم (اگر مجھے نام صحیح یاد ہے تو) ، اپنے بزرگ معاصر جناب احتشام الحق تھانوی کی پیروی میں بعینہٖ اُسی طرح میٹھے (بلکہ اُن سے بھی زیادہ مٹھاس بھرے) لہجے میں جمعہ وعیدین کے موقع پر وعظ فرماتے تھے۔

وہ اس حد تک مقبول تھے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اَپنی مساجد چھوڑ کر بطورِخاص اُن کی اقتداء میں نمازِعید پڑھنے جاتی تھی۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ {حضرت صلوٰۃ وسلام کے قائل اور شائق تھے۔ ہماری نوجوانی کے معروف بزرگ میلادخواں جناب مُسافر لودھی (والدِ سلیم لودھی گلوکار) کو خاص طور پر اپنے حُجرے میں بُلواکر سلام سُنا کرتے تھے، جبکہ مُسافر صاحب ( ایک مدت سے اُن کے متعلق کوئی خبر نہیں، اللہ اُن پر رحم کرے) ہماری جامع مسجد غفران (بلاک 16، فیڈرل ’بی ‘ ایریا، عُرف واٹرپمپ) سے منسلک اور اُسی علاقے کے مکین تھے جہاں خاکسار نے بھی عین نوجوانی میں بطور میلادخواں اور بانی ومنتظم بزم غفران نام کمایا}۔ آمدم برسرمطلب! حضرت بہت دل چسپ پیرائے میں فرمایا کرتے ;’بھئی اگر کوئی بھُول جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ اپنے آگے والے نمازی کو دیکھیں، وہ اپنے آگے والے کو، اُس سے آگے والے، اپنے آگے والے کو (کہ رکوع کررہا ہے یا سجدہ) اور یوں شُدہ شُدہ سب امام کی صحیح اور بَروَقت تقلید کرلیں گے۔ بھئی اگر کوئی سہو بھی ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ امام کے پیچھے کھڑے ہیں، یہ سب اُس کے ذمّے!

آج جب بقرعید پر لکھنے بلکہ کمپیوٹر پر ماؤس چلانے بیٹھا ہوں تو بہت سی نئی پُرانی باتیں سامنے آگئی ہیں۔ جی چاہا کہ حسبِ معمول عیدین پر ماقبل لکھے گئے اپنے ہی مضامین سے استفادے کی بجائے آغاز میں کوئی نئی چیز پیش کی جائے، سو اَپنے عالم دوست حافظ سلمان رضا صدیقی فریدی مصباحی، خطیب (مسقط ،عُمان ) کا ایک عمدہ کلام قارئین کی نذرکرتا ہوں۔ (حافظ صاحب بارہ بنکی، ہندوستان سے تعلق رکھنے والے زُودگو شاعر ہیں مگر اُن کے موضوعات فقط دینی ہوتے ہیں جن میں حالاتِ حاضرہ سے متعلق بعض مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ کچھ عرصے سے رابطہ منقطع ہے، ویسے وہ میری ’بزم زباں فہمی‘ کے خاموش رُکن ہیں)۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھوں نے کس طرح بقرعید کے موقع پر اسلامی تعلیمات کا خلاصہ نظم کیا ہے:

ہم اپنی ساری غفلت کو چلو قربان کر ڈالیں

مزاجِ بے مُرَوَّت کو چلو قربان کر ڈالیں

نہ ہوں ہم مطمئن، بس جانور قربان کرنے سے

بدی کرنے کی عادت کو چلو قربان کر ڈالیں

بتاتی ہے ہمیں یہ ’’لَن یَّنَالَ اللّہ‘‘ کی آیت

غَرَض آلُود نِیّت کو چلو قربان کر ڈالیں

رضائے رب، رضائے مصطفٰی (ﷺ) سب سے مقدم ہو

یہاں ہم اپنی چاہت کو چلو قربان کر ڈالیں

 گَلا کاٹیں، اِسی قربانی میں اپنی ’’اَنَا‘‘ کا بھی

تکبر اور نَخوت کو چلو قربان کر ڈالیں

ہمارے واسطے یہ درس لے کر بقرعید آئی

کہ ہر دنیاوی رغبت کو چلو قربان کر ڈالیں

ہماری اپنی مرضی کا نہ کوئی دخل ہو اِس میں

شریعت پر طبیعت کو چلو قربان کرڈالیں

اگر چلنا ہے ابراہیمؑ و اسماعیلؑؑ کے رستے

زمانے کی ہر الفت کو چلو قربان کرڈا لیں

چلو ہم مُتّحِد ہوکر، کریں باطل کی سر کوبی

ہر اک شکوہ شکایت کو چلو قربان کر ڈالیں

کھڑے ہوں جرأتوں سے قوم وملت کی مدد کو ہم

خموشی اور دہشت کو چلو قربان کرڈالیں

دلیری اور خودداری میں پنہاں ہے وقار اپنا

تَمَلُّق اور لَجاجَت کو چلو قربان کرڈالیں

ہمارا ہر عمل، اخلاص ہی کے دائرے میں ہو

ریاکاری کی فطرت کو چلو قربان کرڈالیں

بَراہیمی صفت پیدا کریں کردار کے اندر

جہاں کی ہر محبت کو چلو قربان کر ڈالیں

ذبیحُ اللّہ سے سیکھیں اطاعت آشنائی ہم

کہ جان و دل کی ثَروت کو چلو قربان کر ڈالیں

ہمارا جینا مرنا، ہو فقط اللہ کی خاطر

ہر اک خواہش کو، لذت کو چلو قربان کر ڈالیں

فریدی! عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ کر ہم

خِرَد کی ساری حُجَّت کو چلو قربان کر ڈالیں

(حافظ سلمان رضا صدیقی نے اس دل نشیں کلام میں ’دُنیاوی‘ لکھا ہے جو درحقیقت ’دُنیَوی ‘ ہے، مگر غالباً اُن کے پیش نظر غلط العام ہی ہوگا اور عروضی اعتبار سے سقم کا بھی خدشہ ہوگا)

عیدالاضحیٰ کے لسانی موضوعات متعدد ہیں جن پر یہ خاکسار خامہ فرسائی کرتا رہا ہے، مگر اعادہ بھی ضروری سمجھتا ہے۔ نکتہ وار عرض کرتا ہوں:

ا)۔ اس تہوار (اگر قبلہ مفتی اعظم پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب، اس لفظ کے استعمال پر بُرانہ مانیں تو) کا نام بھی بہت تنوع کے ساتھ مشہور ہے۔ ہرچندکہ یہ معروف معنیٰ میں تہوار (تیوہار) نہیں، مگر کیا کریں صاحبو! کوئی اور لفظ سُوجھتا بھی نہیں۔ خیر! تو جناب ہم اسے بقرہ عید کہہ کر گائے سے منسوب کرتے ہیں اور یوں بھی کم از کم پاکستان میں گائے کی قربانی کا رواج بوجوہ بہت زیادہ ہے۔ بقرہ کے نام پر سورۃ البقرہ ہے جو قرآن مجید کی دوسری سورت ہے اور احکام کے لحاظ سے بہت اہم بھی۔ پھر اِس کا ایک مختصر نام ’بقرعید‘ ہے ، لیکن یہ نام ’بکراعید‘ کیسے ہوا، اس بابت دوم مختلف ومتضاد آراء سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اصل نام ’بقرہ عید‘ سے بگڑکر ’بکرا عید‘ بنا، (عوام تو بقرِید، بکرِید اور بخرِید بھی بولتے ہیں)، دوسری یہ کہ بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب، یہ بکرے کی نسبت سے بکرا عید ہی ہے۔

راقم نے اس سے قبل بھی اس بارے میں اظہارِخیال کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ مولوی موصوف نے انگریز سرکار کے عہد میں، گائے کے ذبیحہ پر شروع کیے جانے والے، ہندومسلم فسادات کے بعد، گائے کی قربانی کے رجحان میں کمی اور پھر اس کے خاتمے ہی کا سارا منظرنامہ پیش نظر رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان انگریز کی حکومت سے قبل، اپنی مرضی سے گائے کی قربانی کیا کرتے تھے، ہندوؤں کو کوئی اعتراض نہیں تھا، پھر جب انگریز نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کے اصول کے تحت ان دو قوموں کو مذہب او ر زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ ایک مرتبہ ایم اے او کالج، علی گڑھ میں مسلمان طلبہ نے چندہ کرکے ایک گائے خریدی کہ بقرعید پر قربان کریں گے۔ سرسید کو معلوم ہوا تو وہ اپنی بیماری کے باوجود، فوراً موقع پر پہنچے اور لڑکوں کو ڈانٹ پھٹکار کرکے گائے لے جاکر قسائی کو واپس کی اور آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کی۔

’حیاتِ جاوید‘ میں مذکور اِس واقعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید ہر قیمت پر ہندومسلم یک جہتی چاہتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک یہ دونوں ایک ہندوستانی قوم کے حصے تھے اور اُنھیں کسی صورت ہندوؤں کی دل آزاری گوارا نہ تھی، حالانکہ یہ مسئلہ مسلم عہداقتدار میں کبھی پیدا نہیں ہوا کہ مسلمان اپنی دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے محض اس لیے گریز کریں کہ دوسرے مذہب کا مقلد ناراض ہوجائے گا۔ ہندومسلم فساد ات (درحقیقت مُسلم کُش فسادات) کا سلسلہ بھی انگریز ہی کے دور میں شروع ہوا۔    

ب)۔ عید کے موقع پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں ’قسائی‘ شامل اور نمایاں ہے جسے سہواً قصائی لکھا جاتا ہے۔ اس بابت راقم اور سید اطہرعلی ہاشمی مرحوم نیز اُن کے شاگر درشید جناب احمد حاطب صدیقی کے کالم اور مضامین موجودہیں، انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ لسانی تحقیق کے مطابق یہ لفظ ’قصّاب‘ سے بگڑ کر ’قصائی‘ نہیں بنا بلکہ ’قساوت ‘ سے مشتق ہے، اس لیے قسائی صحیح ہے۔

اوروں کو چھوڑیں، نامور انگریز ماہرلغات فیلن S. W.Fallon] [ نے اس باب میں ٹھوکر کھائی ہے۔

[Fallon, S. W. A new Hindustani-English dictionary, with illustrations from Hindustani literature and folk-lore. Banaras, London: Printed at the Medical Hall Press; Trubner and Co., 1879].

یہاں اپنے پرانے مضمون (زباں فہمی نمبر 212بعنوان ’قصائی نہیں قسائی‘) کا اختتامی اقتباس نقل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں:

قصائی اور قسائی کی بحث میں ایک دل چسپ اور ناقابل یقین انکشاف ہمارے ایک خُردمعاصر نے کیا۔ اُن کا خیال ہے کہ دِلّی والے ’’قصائی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں، جبکہ لکھنؤ والے ’’قسائی‘‘..... معلوم نہیں اُنھیں یہ اور ایسے ہی بعض دیگر نکات کس دلی والے یا لکھنؤ والے نے سُجھائے۔

اگر ایسا ہی ہوتا تو فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات اس وضاحت سے خالی نہ ہوتیں۔ بات کی بات ہے کہ یہ صاحب کچھ سال پہلے تک محض شعبہ تشہیر سے بطور ’’اخترا ع نگار‘‘ منسلک تھے (Creative Copywriter کا یہ اردو ترجمہ خاکسار نے کچھ عرصہ قبل کیا اور اپنے کالم میں استعمال بھی کیا تھا)۔ یکایک وہ اصلاح زبان کے موضوع پر خالص علمی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے، خیر کوئی بھی لکھ سکتا ہے، پابندی نہیں، مگر مقام حیرت یہ ہے کہ وہ اہل زبان نہیں، بہرحال کوئی بات اگر مع حوالہ وسند نقل کی جائے تو غیراہل زبان کی تحریر بھی مسترد نہیں کی جاسکتی۔

ج)۔ عیدالاضحٰی کے مسائل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللّہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کا حُکم ہے اور اِس میں بشرطِ استطاعت قربانی واجب ہے ;نصاب کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ لادینیت، مذہبی بے راہ رَوی المعروف آزادخیالی یا Liberalismکے ماننے والے یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ بے چارے جانوروں پر ظلم کرنے کی بجائے کسی غریب کی امداد کرنا بہتر ہے۔ یہاں مصلحتاً ایک بزرگ وکیل +سیاست داں کا ذکر بھی ناگزیر ہے جن کا ایک انٹرویو بہت مشہور ہوا تھا اور لوگ بغیر سوچے سمجھے اُن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے کہ ہمارے یہاں تو دادا کے وقت سے قربانی نہیں کی جاتی، بلکہ غریب کی مدد کرتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اُنھیں اور اُن کے اندھے مقلدوں کو اسلام کا پتا ہی نہیں، دوسری بات یہ کہ اُن کے پڑدادا نے ایک بے گناہ مسلمان کو قید اور پھانسی کی سزادِلواکر، انگریز سے انعام واکرام حاصل کیا تھا، ورنہ وہ معمولی حیثیت کے شخص تھے اور تیسری بات یہ کہ موصوف کا اسلام سے تعلق اس قدر کمزور ہے کہ اُنھیں سورۂ اخلاص بھی پڑھنی نہیں آتی، ہاں موئن جو دَڑو کی مشرکانہ تہذیب کو اَپنی تہذیب قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے! جملہ معترضہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مقدمے کی فیس ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کرنے والے ان صاحب نے کبھی کسی غریب کا مقدمہ بلامعاوضہ بھی لڑا ہے یا ساری ہمدردی محض بقرعید ہی پر یاد آتی ہے۔

د)۔ اگر بنظرِغائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر قربانی کی مخالفت کے پیچھے بھی صہیونی یہود ی استعمار ہی کارفرما ہے۔ (یہ لفظ صہیونی ہے نہ کہ صیہونی، اس بارے میں بھی زباں فہمی کا ایک مکمل مضمون لکھ کر شائع کرواچکا ہوں، سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے بھی اس اہم سہو کی نشان دہی کئی بار کرچکا ہوں)۔ اس مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہود کے نزدیک ’ذبیح اللّہ‘ حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) نہیں، بلکہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) تھے۔ یہ بات مُحَرّف (تحریف شُدہ ) تورات میں اس طرح لکھی گئی ہے:

’’ابراہیم تُو اپنے بیٹے کو قربان کردے! ان تمام باتوں کے بعد خدا نے ابراہیم کو آزمایا۔ خدا نے آواز دی:’ابراہیم! ’ابراہیم نے جواب دیا،’میں یہاں ہوں‘۔ تب خدا نے اُس سے کہا کہ تیرا بیٹا یعنی تیرا اکلوتا بیٹا اسحاق کو، جسے تو پیار کر تا ہے موریاہ علاقے میں لے جا۔ میں تجھے جس پہاڑ پر جانے کی نشاندہی کروں گا وہاں جاکر اپنے بیٹے کو قربان کر دینا۔ (پیدائش 22) ۔اس عبارت میں اردو ترجمے کی اغلاط کے ساتھ ساتھ تاریخ کی گڑبڑ بھی توجہ طلب ہے۔ [Torah: Genesis 22- https://www.biblegateway.com]۔ بات آگے چلتی ہے تو یہ اَمر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور اُن کے رسول (ﷺ) کے اس لیے بھی دشمن تھے یا ہیں کہ اُن کے خیال میں نبوت ورسالت کا سلسلہ بنی اسرائیل تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا۔ {یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف کرتا چلوں۔

دنیا بھر پر معاشی ومعاشرتی تسلط قائم کرنے کے لیے پیہم سرگرم عمل صہیونی درحقیقت مقامی (یعنی فِلَسطینی) ہیں نہ حقیقی یہودی۔ یہ ساری تحقیق اب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آج بھی توحیدپرست یہودیوں کا ایک فرقہ صہیونیت اور اِسرائیل کا مخالف اور مظلوم فِلَسطینیوں کا حامی ہے}۔ قربانی کے سہ روزہ عمل میں جانور فروش، قصاب، ذرائع نقل وحمل سے متعلق لوگ یعنی ٹرانسپورٹرز، کھالوں کے بیوپاری، چمڑے کے بیوپاری اور ان سب سے ذیلی طور پر مستفید ہونے والے لاتعداد مسلمانوں کو معاشی فائد ہ پہنچتا ہے۔ اندرون وبیرون ِملک سے اس موقع پر رقوم کی ترسیل کا سلسلہ بھی منفعت بخش ہے۔ ان نکات نیز اِسلامی تعلیمات کے پیش نظر، عیدالاضحی کی قربانی کا مقصد بالکل واضح ہوجاتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ن لیگ عوام کو نہیں خود کو بیوقوف بنا رہی ہے: پرویز الہیٰ
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • اڈیالہ جیل میں صبح 7 بجے نماز عید ادا کی گئی
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • انکار کیوں کیا؟
  • تین سال پہلے کے نرخ اب؟
  • بس اب بہت ہو چکا
  • عید الاضحی کا اہم پیغام