Express News:
2025-09-18@13:54:28 GMT

خوش اخلاقی بہت بڑی صفت ہے!

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

رابرٹ ولسن کی عمر پچھتر برس کی تھی۔ اہلیہ کا انتقال تقریباً آٹھ برس پہلے ہو چکا تھا۔ ایک بیٹا تھا، جو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں کام کرتا تھا اور بہت کامیاب تھا۔ ولسن باقاعدگی سے سیر کرتا تھا اور کھانے پینے میں کافی احتیاط کرتا تھا۔ لہٰذا اچھی صحت کا مالک تھا۔ مگر بڑھاپا کسی طور پر چھپایا نہیں جا سکتا۔

ولسن کے کندھے تھوڑے سے جھکے ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سوٹ بھی پرانے ہی پہنتا تھا۔ پوری عمر شکاگو میں نوکری کر کے اب وہ اسی شہر کا مستقل باسی بن چکا تھا۔ ولسن کے پاس ایک بیس برس پرانی گاڑی تھی۔ ایک دن، فیصلہ کیا کہ اسے بہتر اور زیادہ آرام دہ گاڑی خریدنی چاہیے۔ بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو اس میں کافی پیسے موجود تھے۔ ایک دن رابرٹ نئی گاڑی دیکھنے اور خریدنے کے لیے شکاگو کے سب سے بڑے شو روم پر گیا۔

وہ جگہ قیمتی کاریں بیچنے کے لیے جانی جاتی تھی۔ رابرٹ نے پرانا سا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میںایک قدیم سا بریف کیس تھا۔ جوتے بھی نئے نہیں تھے۔ شو روم میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان سیلزمین اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس جوان لڑکے نے دیدہ زیب کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ جوتے بھی چمک رہے تھے۔ مقابلے میں رابرٹ ایک غریب آدمی نظر آ رہا تھا۔ ولسن نے بڑی تہذیب سے اس سیلزمین سے پوچھا کہ اسے مرسڈیز گاڑی خریدنی ہے، اور وہ بھی ایس کلاس کی۔ شوروم کے اس ملازم کا نام جان میتھیو تھا۔ اس نے سوالیہ طریقے سے رابرٹ کی طرف دیکھا۔ میتھیو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک غریب نظر آنے والا بوڑھا سا آدمی، مرسڈیز جیسی قیمتی گاڑی کیونکر خرید سکتا ہے۔

یقیناً وہ صرف قیمت معلوم کر کے، وقت ضایع کرنے آیا ہے۔ جان نے سنجیدگی سے ولسن کو کہا کہ کیا آپ کے پاس دو لاکھ ڈالر ہیں کہ اتنی بیش قیمت گاڑی خرید سکیں۔ سوال وجواب ہو ہی رہے تھے کہ شوروم کا سپروائزر بھی وہیں آ گیا۔ ایک معمولی وضع قطع کے خریدار کو دیکھ کر، رعونت سے پوچھنے لگا کہ فرمایئے آپ کی کیا خدمت کریں۔ میتھیو نے بتایا کہ یہ مرسڈیز خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔ سپروائزر نے غیرسنجیدگی سے کہا کہ جناب کیا آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ مرسڈیز جیسی مہنگی گاڑی خرید سکیں۔ رابرٹ کے لیے شو روم کے عملے کا یہ رویہ حددرجہ توہین آمیز تھا۔ وہ تو ایک گاہک تھا اور یہ اس کا استحقاق تھا کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی کار خرید لے۔

شو روم والے اپنے رویے سے مسلسل اس کی بے عزتی کر رہے تھے۔ بہرحال رابرٹ خاموشی سے واپس آ گیا مگر وہ پوری رات بے چین رہا۔ اس کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ صبح ہوتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ بیٹے کو باپ کی سبکی سے بڑی تکلیف ہوئی۔ مگر اس نے کچھ بھی کہنے سے پہلے والد سے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔ شو روم کی کمپنی کا نام اور دیگر کوائف اپنے والد سے لے لیے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شو روم اور کمپنی خسارہ میں جا رہی ہے۔ بلکہ وہ تو اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی بندہ اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بیٹے نے اپنے والد کو ساری صورت حال بتائی تو رابرٹ کے ذہن میں یکدم ایک خیال آیا۔ پچیس برس پہلے میں نے پچاس ہزار ڈالر نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں لگائے تھے۔ان کی موجودہ مالیت کتنی ہے؟ بیٹے نے اکاؤنٹ دیکھ کر بتایا کہ اڑھائی دہائیوں میں وہ پانچ ملین ڈالر کے برابر ہو چکے ہیں۔ رابرٹ نے بیٹے سے پوچھا کہ کاروں کا شو روم کتنے میں اپنی مکمل کمپنی فروخت کر رہا ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بھی تقریباً اتنے ہی پیسے مانگ رہا ہے۔ رابرٹ نے بیٹے کو فوراً کہا کہ آپ ایک دن میں قانونی کارورائی مکمل کر کے یہ شو روم اور کمپنی فوری طور پر خرید لو۔ باپ کے حکم پر بیٹے نے فوری طور پر قانونی کارروائی مکمل کر کے کمپنی رابرٹ ولسن کے نام کروا دی۔ یہ سب کام دو دنوں میں مکمل ہو گیا مگر شو روم میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کمپنی نئے ہاتھوں میں جا چکی ہے۔

بہرحال، رابرٹ، اپنے وہی پرانے کپڑے پہن کر اگلے دن شو روم میں گیا۔ وہی جان میتھیو اور سپروائزر اسے دیکھ کر غصے میں آ گئے۔ فرمایئے، آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ مرسڈیز خریدنے کے لیے تو شاید آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ رابرٹ نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف یہ کہا کہ وہ اب کمپنی کا مالک ہے اور اپنے کمرے میں بیٹھنے کے لیے جا رہا ہے۔ یہ جملہ سن کر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ بوڑھا رابرٹ بڑی متانت سے اپنے کمرے میں گیا اور تمام اسٹاف کو بلوایا۔ میتھیو اور سپروائزر کو کہنے لگا کہ آپ دونوں کو گاہک سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔

شائستگی سے بات کرنا آپ کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ دونوں معافیاں مانگنے لگ گئے کہ آیندہ غلطی نہیں ہو گی۔ مگر رابرٹ اپنا ذہن بنا چکا تھا۔ اس نے دونوں کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ بقیہ اسٹاف کو صرف ایک حکم دیا کہ شو روم میں جو بھی انسان، جس حلیہ میں بھی آئے، اسے عزت اور احترام سے گاڑیاں دکھانی ہیں۔ اب ہوا یہ کہ جو بھی گاہک، شو روم میں آتا تھا، اس کی اتنی آؤبھگت کی جاتی تھی کہ وہ حیران رہ جاتا تھا۔ اکثر لوگ گاڑی وہیں سے خرید کر باہر نکلتے تھے۔ کمپنی کی شہرت پورے شکاگو میں بہت جلد پھیل گئی۔

ایک سال کی قلیل مدت میں، رابرٹ کی کمپنی اور شو روم پورے شہر کی بہترین جگہ قرار دی گئی۔شو روم کا منافع، آسمان کو چھونے لگا۔ رابرٹ مرتے دم تک اس شو روم کو حددرجہ کامیابی سے چلاتا رہا اور شکاگو میں ان سے زیادہ کاروں کے کاروبار میں کسی نے نہیں کمایا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں، اینکر نے ان کے کاروبار میں کامیابی کا راز پوچھا تو اس کا جواب صرف ایک جملہ کا تھا، لوگوں کا احترام اور عزت کرنا، سب سے اہم چیز ہے۔

مجھے جب یہ اطمینان ہوگیا کہ یہ پورا واقعہ مکمل طور پر درست ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی۔ مگر اس پر غور کرنے سے ذہن میں کئی نئے معاملات سامنے آنے لگے۔ متعدد سوالات اٹھ گئے۔ رابرٹ نے جو سبق سکھایا۔ وہ بار بار ذہن میں اپنے اردگرد کے معروضی حالات دیکھ کر سانپ کی طرح پھن پھیلانے لگا۔جب اپنے ملک کی اکثریت کو دیکھتا ہوں تو وہ حددرجہ غصیلے اور دوسرے کو تکلیف دینے کے مزاج کے حامل معلوم پڑتے ہیں۔

حکومت میں موجود سیاست دانوں سے لے کر نوکرشاہی کے افسران تک، ہر مقام پر بڑا یا چھوٹا فرعون بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ کسی دفتر میں چلے جایئے، سب سے پہلے یہ معلوم ہو گا کہ آپ کی کوئی ذاتی عزت نفس نہیں ہے۔ اس قدر عامیانہ سلوک ہو گا کہ آپ اپنا جائز کام کروانے کے بجائے، واپس جانے کو ترجیح دیں گے۔ دراصل، ہمارا پورا ملک منفی سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی رویوں پر چل رہا ہے۔

ہر شخص دوسرے کو ذلیل کرنے کا جواز ڈھونڈ رہا ہے۔ ہمارے حکمران طبقہ کی رعونت تو دیدنی ہے۔ وہ تو پچاس سے سو گاڑیوں کے حصار کے بغیر چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر مصنوعی سی مسکراہٹ اور جعلی خوشگوار موڈ کو دکھا کر لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے! کیا کوئی بھی پاکستانی اپنے جائز کام کروانے کے لیے کسی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم سے ملنے کا تصور تک کر سکتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اپنے حقوق کے لیے حکمران طبقے کے کسی اہم یا غیراہم شخص سے مل پائیں۔ میں آج کی بات نہیں کر رہا۔ تہتر برس کی کہانی صرف یہ ہے کہ ایک جعلی طرز کا حکمران طبقہ ہے جو عام لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ لوگوں کے حقوق اور جائز خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔

خوش اخلاقی کا رویہ تو بڑی دور کی بات، یہاں تو اپنی عزت بچا کر زندگی گزارنا تقریباً ناممکن کام ہے۔ لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں۔

سمندر کی لہروں میں مرنے کو، ملک خداداد میں زندہ رہنے پر ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر حکمران طبقہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کا شاہانہ پن کم ہونے کے بجائے تکلیف دہ حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رویہ کو صحیح کرنا، مشکل نہیں بلکہ مکمل طور پر ناممکن ہے۔ اور ہاں، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں، اس دین کے پیروکار ہیں جس میں حسن اخلاق، ہر عبادت پر فوقیت رکھتا ہے مگر عملی طور پر ہر چیز الٹ ہے۔ پتہ نہیں اگر رابرٹ ولسن امریکا کے بجائے پاکستان کا شہری ہوتا تو اس کا کیا بنتا۔ شاید وہ یہاں زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کرنا بہتر سمجھتا؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گاڑی خرید کے بجائے نہیں ہے تھا اور دیکھ کر کا تھا کے پاس ایک دن کہا کہ رہا ہے کے لیے کی بات

پڑھیں:

انقلاب – مشن نور

انقلاب – مشن نور WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز

تحریر۔۔ محمد عارف ،قائدِ تحریکِ انقلاب

اندھیروں سے روشنی کی طرف

پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ظلم، ناانصافی اور محرومیاں عوام کا مقدر بن چکی ہیں۔ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے افراد نے عوام کے خواب چھین لیے ہیں اور سچائی کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن تاریخ ہمیشہ یہی بتاتی ہے کہ جب اندھیرا اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو انقلاب کی صبح طلوع ہوتی ہے۔

مشن نور اسی صبحِ انقلاب کی پہلی کرن ہے۔

20 ستمبر: اذانِ انقلاب

یہ مشن صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے۔ 20 ستمبر کو جب پوری قوم بیک وقت اذان دے گی تو یہ محض نماز کی اذان نہیں ہو گی، بلکہ یہ ایک اجتماعی اعلان ہو گا کہ یہ قوم اب مزید غلامی قبول نہیں کرے گی۔

“یہ اذان حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دے گی اور دنیا کو بتائے گی کہ پاکستانی قوم جاگ چکی ہے۔”

انقلاب کی قیمت

انقلاب کا سفر کبھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ قربانی مانگتا ہے، صبر مانگتا ہے اور اتحاد مانگتا ہے۔ لیکن جو قومیں یہ قیمت ادا کرتی ہیں، وہی تاریخ کے صفحات پر روشن ہوتی ہیں۔ آج ہم سب پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔

ہر پاکستانی اپنے گھر میں امید کا چراغ جلائے، اپنی دعاؤں کو طاقت بنائے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔

خوابوں کا پاکستان

ہماری جدوجہد کا مقصد صرف حکمران بدلنا نہیں بلکہ ایک ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہے جہاں:

انصاف عام ہو

تعلیم ہر بچے کے لیے میسر ہو

ادارے عوام کی خدمت کریں

اور قوم عزت و وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑی ہو

یہی وہ خواب ہے جسے حقیقت بنانے کے لیے مشن نور کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

اختتامی پیغام

یہ مشن نور نہیں بلکہ مشنِ انقلاب ہے۔ یہ تحریک صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے ہے۔ یقین رکھو، روشنی کا سفر شروع ہو چکا ہے، اور ان شاء اللہ یہ قوم اندھیروں کو شکست دے گی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی ڈی اے کے ممبر ایڈمن امریکہ چلے گے ، ممکنہ طور پر ممبر ایڈمن اور ممبر اسٹیٹ کون ہوسکتے ہیں ،تفصیلات سب نیوز پر ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • صوابی: ٹک ٹاک پر غیراخلاقی ویڈیو وائرل کرنے والا لڑکا  گرفتار
  • طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
  • غزہ کی صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • ہالی ووڈ کے لیجنڈری اداکار رابرٹ ریڈفورڈ 89 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
  • ہالی ووڈ کے عالمی شہرت یافتہ اداکار رابرٹ ریڈفورڈ انتقال کر گئے
  • جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد
  •  ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع
  • پنجاب اسمبلی : ٹک ٹاک پر مستقل پابندی کی قرارداد جمع