Daily Ausaf:
2025-09-18@12:37:30 GMT

سید قطب شہید ایک اسلامی مفکر ایک سیاستدان

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

مصر کے صوبہ’’اس بوط‘‘ کے ایک گائوں ’’موشا‘‘ میں 9اکتوبر1906ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اپنے گائوں ہی میں حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دارالعلوم قاہرہ میں داخل کردیئے گئے۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ مزارت تعلیم میں ملازمت کر لی، علاوہ ازیں ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کو بھی اپنے شغل میں شامل کرلیا۔ وہ جدت پسند ادیبوں اور شعرا کے شانہ بشانہ رہے۔ وہ ادبی تنقید نگار بنتے بنتے مصر کےنامورلکھاریوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ملک کے مختلف اخبار اور جرائد میں ان کی تحریریں چھپنا شروع ہوگئیں، یوں دھیرے دھیرے ان کا حلقہ احباب بھی وسیع ہونے لگا۔
تاہم بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ان کے مزاج کا تلون بھی بڑھتا چلا یا گیا اور ان کے خیالات میں بھی نمایاں تبدیلی ہونے لگی،اور وہ رفتہ رفتہ اسلام کی طرف راغب ہونا شروع ہوگئے۔
1948 ء میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے۔ جہاں کے مغربی تہذیب و تمدن اور سامراجی ماحول نے ان کے اندر کےباغی کو جگادیا اور اب ان کے اندرایک فکری تبدیلی رونما ہوئی اور وہ’’اخوان المسلمون‘‘ کی طرف راغب ہوتےچلےگئےجو اسلامی احیا، سماجی اصلاح کی اسلامی تنظیم تھی، جس کی بنیاد حسن البنا نے 1928 میں رکھی تھی۔ جو آغاز میں ایک تعلیمی رفاہی تنظیم تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی انقلابی تحریک میں بدل گئی۔ جس کا عمومی مقصد ملک کا اقتدار سنبھال کر نظام شریعت نافذ کرنا تھا۔ یہ تنظیم مغربی استعمار کے خلاف مزاحمت کے طور پر ابھری۔سید قطب اس کے انتہائی سرگرم رکن تھے’’معالم فی الطریق‘‘ اور’’ فی ظلال القرآن‘‘ جیسی تفسیر لکھ کر اسلامی تحریک کے کارکنوں کے انقلابی جذبات کومہمیز لگائی اور اسلامی انقلاب لانے والے زعما کی صف اول میں کھڑے ہوگئے۔
1954ء میں مصرکے صدرجمال عبدالناصر نے تنظیم اخوان المسلمون پر قدغن لگا دی۔ مگر تنظیم کے سرکردہ رہنما جن میں سید قطب بھی شامل تھے اپنی انقلابی سرگرمیوں کو مزید تیز کرنے پر مال ہوگئےجس کےنتیجے میں سید قطب اور کئی اور رہنمائوں کو پابند سلاسل کردیا گیا مگر کچھ ہی عرصہ بعدانہیں دوبارہ گرفتار کر لیاگیا، اور آخرکار 1966 ء میں سید قطب کو دار پر لٹکا دیا گیا۔
سید قطب کو اولین ان کے اس جرم کی سزا ملی کہ وہ قرآن کریم کو محض ایک آسمانی کتاب ہی نہیں مانتے تھے بلکہ ایک عملی انقلاب کا منشور تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اسی کی روشنی میں وہ ایک اسلامی حکومت کا نفاذ چاہتے تھے۔ان کی تحریک کا بنیادی مقصد و منتہااللہ کی حاکمیت اور قرآنی قوانین پر عمل پیرا ہونا اور مخلوق خدا کے دل میں اس احساس کو پختہ کرنا تھا کہ ’’ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے‘‘۔ ان کی کتاب ’’اسلامی تحریک کے اصول‘‘ (معالم فی الطریق) جو سید نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر لکھی اور ان کی رہائی کے فوراً بعد 1964 میں شائع ہوئی اس کا خلاصہ یہی تھا کہ ’’موجودہ نظام جہالت پر مبنی ہے‘‘ انہوں نے اپنی اس تصنیف کو جاہلی معاشروں کے خلاف فردعمل کے طور اسلامی دنیا کے سامنے رکھااور اسے مغربی جمہوریت کے خلاف متبادل کے طور پر پیش کیا۔انہوں نے کہا’’مغربی جمہوریت ہو، سوشلزم ہو یا دیگر نظریات کے پرچارک وہ دل سےیہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ہی ایک انقلابی نظریہ ہے‘‘۔ ان کا یہ عزم صمیم تھا کہ’’ مسلم معاشرے کو فکری اور روحانی طور پر آمادہ کیا جائے کہ اسلام ہی وہ نظریہ حیات ہے جو انسان کو ہر قسم کے ظلم سے نجات کا باعث بن سکتا ہے‘‘۔
سید قطب شہید کی مذکورہ تصنیف اسلام کے سیاسی نظام اور جہادی تحریکوں کابنیادی منشور بن گئی۔ سید قطب نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کو گہری تنقیدکا نشانہ بنایا۔ اپنی کتاب اسلام میں سماجی انصاف،، میں واشگاف الفاظ میں تحریر فرمایا کہ اسلام میں سماجی انصاف تین بنیادی اصولوں پر قائم ہے۔ اول مساوات، دوم فکری، معاشرتی اور مذہبی آزادی اورسوم بھائی چارہ۔ انہوں نے اسلام کو ایک متوازن، معتدل اورعادلانہ نظام حیات کے طور پر پیش کیااورنظام زکوٰۃ کو دولت کی تقسیم کا عملی ذریعہ قرار دیا اور طبقاتی کشمش کے نظریہ کو دفن کردینے پر زور دیا اور معاشرے میں پائی جانے والی مساوی دولت کی تقسیم کے نظام پر کاری ضرب لگائی۔سید قطب شہید کی تفسیر فی ظلال القرآن، قرآن کریم کی ہر آیت کو ایک فکری انقلاب کےنقطہ نظر سے واضح کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مفسر نے اس تفسیر میںاسلامی تہذیب وتمدن، اسلام کے فکری نظام کو ایسا منہج بناکر پیش کیا ہےجس پر چل کر انسان فقط فلاحی نہیں بلکہ ابدی سکون بھی حاصل کرسکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایسی پناہ گاہ ہے جو چھوٹے بڑے اور غریب امیر کا فرق رکھے بغیر اپنی چھولداری کے نیچے ہر ایک کو جگہ دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کہ اسلام کے طور

پڑھیں:

خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جب سے ہوش سنبھالا ہے زندگی میں بہت سارے فارم بھرتے آئے ہیں۔ اسکول میں داخلہ لیتے وقت کا فارم،ب فارم،شناختی کارڈ کے لئے فارم،اسکول چھوڑنے کا فارم، پاسپورٹ کے لئے فارم، پھر کالج میں داخلے کے لئے فارم بھرے۔ یونیورسٹی میں داخلہ لیتے وقت بھی بھرا اور نکاح نامہ، ہسپتال میں داخلہ کے وقت فارم یہاں تک کے مرنے کے بعد بھی ہمارے گھر والے ایک فارم بھریں گے جس کی بنیاد پر ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گاـ۔اور ان سب فارم میں ایک خانہ ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے’’ولدیت‘‘یہ خانہ سب ہی فارم بھرنے والے بھرتے ہیں اور ایک عام سی چیز اسے لیتے ہیں-بلکہ کبھی چڑ بھی جاتے ہیں کہ ابو کا نام بھی لکھو تو ان کا شناختی کارڈ نمبر وغیرہ بھی- اور چونکہ ہم سب کو اپنے والد کا نام کیا ان کا بھی پورا شجر نسب معلوم ہوتا ہے لہذا ہمارے لئے یہ لکھنا ایک زندگی کے بہت سارے عام سے کاموں میں ایک کام ہے-اور یہ خانہ ایک عام خانہ ہے جسے ہم بھرتے ہیں-

لیکن درحقیقت یہ صرف ایک خانہ نہیں بلکہ خاندانی نظام کی بنیاد ہے-کہ جہاں کوئی بھی شترے بے مہار کی طرح آزاد نہیں کہ جو جی چاہے کرتا پھرے بلکہ اگر ایک ایک عورت یا مرد کو اپنی کچھ خواہشات پوری کرنی ہیں تو اسے ذمہ داریوں کو بھی ادا کرنے کے لئے تیار رہنا ہے-انھیں ایک پہلے “شادی”جیسے مقدس رشتے میں بندھنا ہے پھر اپنی خواہشات کی تکمیل کرنی ہے-اور عورت یا مرد جہاں کہیں کسی کے ساتھ بھی ایک چھت تلے نا رہیں بلکہ اس مقدس رشتے میں بندھنے کے بعد رہیں-تاکہ یہ ’’خاندانی نظام‘‘ ب رقرار رہے-تاکہ یہ “ولدیت “کا خانہ برقرار رہے-اس دنیا میں آنے والے فرد کو پتہ ہو کہ میرا باپ کون ہے؟؟؟کون ہے وہ فرد جو میری ذمہ داریاں ادا کرسکتا ہے-جو مجھے پیار و محبت دے سکتا ہے-اور اس نئے فرد کو دنیا میں لانے والے عورت اور مرد کو بھی اپنی حدود کا علم ہو-کہ کہیں بھی کسی کے ساتھ بھی اپنی خواہش پوری نہیں کرنی-کیونکہ یہ عورت پر بھی زیادتی ہے کہ خواہش کی تکمیل کے لئے ان انسانوں کی ذمہ داریاں اٹھائے کہ جن کے باپ کا ہی علم نہیں-جب ایک عورت کی زندگی میں پاکیزہ بندھن میں بننے والے شوہر کی بجائے اور کئی مرد ہوں گے تو کیا معلوم ان آنے والے بچوں کا’’باپ‘‘کون ہے ۔

عورت اور مرد پر ظلم کرنے کے لئے ان کا مستقبل برباد کرنے کے لئے “لازوال عشق “جیسے گندے پروگرام پیش کرنے کی تیاری آخری مرحلوں پر ہے-جس کی ہوسٹ عائشہ عمر نامی اداکارہ ہے-

اور حقیقتاً یہ پروگرام نہیں بلکہ مرد اور عورت کو گندگی کے دلدل میں پھنسانے کی سازش ہے-ان کی جوانیاں تو جوانیاں ان کے بڑھاپے خراب کا منصوبہ ہے تو ساتھ خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش ہے-کیونکہ یہ باپ کا خانہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور حدیث ہے کہ “کسی آدمی کے سر میں کیل ٹھونس دی جائے یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ غیر محرم عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں”ـ

لہذا اس پروگرام کو رپورٹ کریں تاکہ ہماری آگے کی نسلیں محفوظ رہ سکیں-

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اداکارہ سوارا بھاسکر کے شوہر نے کنگنا رناوت کو ’خراب سیاستدان‘ قرار دے دیا
  • بے حیا کلچر کے فروغ نے نوجوان نسل کو تباہ کردیا، نصر اللہ چنا
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • حکومت صحت کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے پرعزم ہے،سید مصطفی کمال
  • اسلامی چھاترو شبر کی کامیابی
  • حشد الشعبی عراق کی سلامتی کی ضامن ہیں، عراقی سیاستدان
  • بے حیائی پر مبنی پروگرامات کی تشہیر قابل مذمت ، ان کا مقصد ن نوجوان نسل کو گمراہ کرنا ہے‘ جاوید قصوری
  • انسانیت کو جنگ و جدل سے بچانے کیلئے اللہ کی مرضی کا نظام قائم کرنا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن