UrduPoint:
2025-11-03@11:16:26 GMT

کچھوؤں کی ناقابل یقین ہجرت، ناقابل بیان نیویگیشن

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

کچھوؤں کی ناقابل یقین ہجرت، ناقابل بیان نیویگیشن

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) بدھ 12 فروری کو سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ میں زیادہ تعداد میں گھونسلے بنانے والے سمندری کچھوؤں کی نسل لوگرہیڈ مخصوص جغرافیائی مقامات کے مقناطیسی میدان کا سہارا لیتی ہے۔ یہ غیر معمولی صلاحیت انہیں گھونسلہ بنانے اور خوراک حاصل کرنے کے لیے اہم علاقوں میں واپس جانے میں مدد دیتی ہے۔

اس سے پہلے کی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ کچھوے مستقل طور پر مخصوص مقامات پر واپس آتے ہیں اور نیویگیشن کے لیے مقناطیسی میدان استعمال کرتے ہیں، لیکن محققین کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے جس سے معلوم ہوا کہ لوگرہیڈ کچھوے خاص طور پر خوراک سے وابستہ مقامات کو یاد رکھتے ہیں تاکہ ہجرت مکمل کرنے کے بعد ان جگہوں پر واپس جا سکیں۔

(جاری ہے)

مقناطیسی میدان اور ''کچھوے کا رقص‘‘

محققین کا کہنا ہےکہ قید میں رکھے گئے لوگرہیڈ کچھوے مقناطیسی عادت سازی (magnetic conditioning) پر اس طرح ردعمل دیتے ہیں کہ جہاں انہیں پہلے خوراک دی گئی تھی، وہ اس میدان میں داخل ہوتے ہی متوقع طور پر ''رقص‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ ٹیم کے مطابق، یہ رویہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کچھوے مقناطیسی اشاروں اور نشانات کو خوراک کے مقامات سے جوڑتے ہیں۔

اس تحقیق نے کچھوؤں کی نیویگیشن میں ایک اور اہم شے دریافت کی۔ محققین کے مطابق لوگرہیڈ کچھوے دو مختلف مقناطیسی نظاموں پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک مقناطیسی نقشہ (magnetic map) جو مقامات کو ٹریک کرتا ہے اور دوسرا مقناطیسی قطب نما (magnetic compass) جو سمت کا تعین کرتا ہے۔

تجربات کے دوران جب کچھوؤں کو ریڈیو فریکوئنسی (RF) لہروں، یعنی موبائل فون اور ریڈیو ٹرانسمیٹرز جیسی ڈیوائسز سے خارج ہونے والی شعاعوں کے سامنے رکھا گیا، تو ان کا مقناطیسی نقشہ مستحکم رہا، لیکن ان کا مقناطیسی قطب نما متاثر ہوا۔

ماحولیاتی تحفظ کے خدشات

اس دریافت سے حیاتیاتی تحفظ کے ماہرین میں تشویش کی لہر پیدا ہو گئی ہے، کیونکہ ساحلی علاقوں میں کشتیاں چلانے اور برقی آلات کے استعمال سے کچھوؤں کی ہجرت کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ تحقیق کی مرکزی مصنفہ اور ٹیکساس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ ایسوسی ایٹ ڈاکٹر کئیلا گوفورتھ، کے مطابق کچھوؤں کے اہم مسکنوں میں RF لہروں کو کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان قدیم سمندری جانداروں کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔

مقناطیسی حس کی تفصیلات

کچھوے زمین کے فطری مقناطیسی میدان کی تمام شدت کو محسوس کر سکتے ہیں، جو تقریباً 25,000 نینوٹیسلہ سے 65,000 نینوٹیسلہ تک ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں 2017 سے 2020 کے دوران ہر سال اگست میں شمالی کیرولائنا کے بالڈ ہیڈ جزیرے سے 14 سے 16 نومولود لوگرہیڈ کچھوے اکٹھے کیے گئے۔ ان کچھوؤں کو انفرادی ٹینکوں میں رکھا گیا، جہاں پانی کا درجہ حرارت اور خوراک قدرتی سمندری ماحول کے مطابق تھے۔

تجرباتی عمل

محققین نے مقناطیسی شدت میں فرق پیدا کرنے کے لیے ایک خاص کوائل سسٹم تیار کیا، جو 2,000 سے 10,000 نینوٹیسلہ کے درمیان مقناطیسی میدان پیدا کر سکتا تھا۔ دو ماہ کے تجربے کے دوران، کچھوؤں کو اس مصنوعی سمندری پانی میں رکھ کر دو مختلف مقناطیسی میدان بنائے گئے۔ ایک میدان، جو خلیج میکسیکو کے مقناطیسی اثرات کی نقل پر تیار کیا گیا تھا، وہاں خوراک فراہم کی گئی اسے ''انعامی میدان‘‘ قرار دیا گیا اور دوسرا میدان، جو نیو ہیمپشائر کے قریب کے مقناطیسی اثرات کی نقل پر تیار کیا گیا تھا، وہاں خوراک نہیں دی گئی اور اسے ''غیر انعامی میدان‘‘ پکارا گیا۔

جب عادت سازی مکمل ہو گئی، تو کچھوؤں کو دوبارہ انہی مقناطیسی میدانوں میں رکھا گیا، لیکن اس بار کسی بھی جگہ خوراک نہیں دی گئی، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا کچھوؤں نے مقناطیسی اشارے کو خوراک سے جوڑ لیا ہے۔

’’کچھوے کا رقص‘‘ اور یادداشت

’’انعامی میدان‘‘ میں، تمام کچھوے ایک مخصوص ''رقص‘‘ کرتے دیکھے گئے اس رقص میں وہ اپنے جسم کو عمودی طور پر جھکاتے، اپنے سر کو پانی کی سطح کے قریب رکھتے، منہ کھولتے، اگلے پیروں کو تیزی سے حرکت دیتے اور بعض اوقات اپنی جگہ پر لٹو کی طرح گھومتے نظر آئے۔

تحقیق کی مزید تصدیق کے لیے، محققین نے اسی تجربے کو مختلف مقناطیسی مقامات پر دہرایا، جیسے کیوبا بمقابلہ ڈیلاویئر، مائن بمقابلہ فلوریڈا، اور دیگر دو جگہوں پر۔

ہر پانچ تجربات میں تقریباً 80 فیصد کچھوؤں نے ''انعامی میدان‘‘ میں زیادہ ''رقص‘‘ کیا، جس سے ثابت ہوا کہ یہ مہارت صرف ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں، بلکہ عالمی سطح پر کچھوے اسے استعمال کرتے ہیں۔

طویل المدتی یادداشت

ابتدائی تجربے کے چار ماہ بعد تحقیق میں شامل ان 16 کچھوؤں کو دوبارہ اسی مقناطیسی فیلڈ سے گزارا گیا تاکہ ان کی طویل مدتی یادداشت کا اندازہ لگایا جا سکے۔ بغیر کسی اضافی تربیت کے، 80 فیصد کچھوؤں نے اب بھی ''انعامی میدان‘‘ میں زیادہ ''رقص‘‘ کیا، تاہم ان کی مجموعی حرکت قدرےکم تھی۔

ڈاکٹر گوفورتھ کا کہنا ہے کہ کچھوے ممکنہ طور پر مقناطیسی کنڈیشنگ کو بہت طویل عرصے تک یاد رکھتے ہیں، کیونکہ زیادہ تر لوگرہیڈ کچھوے اپنے پیدائشی ساحل کو چھوڑنے کے بعد تقریباً 20 سال بعد پہلی بار وہاں واپس آ کر گھونسلہ بناتے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

جاپان میں ریچھوں کے بڑھتے حملے:حکومت نے شکاریوں کو میدان میں اتار دیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹوکیو: جاپان میں جنگلی ریچھوں کے بڑھتے ہوئے حملوں نے نہ صرف عوام بلکہ حکومت کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

حالیہ مہینوں میں ملک کے مختلف حصوں میں ریچھوں کے حملوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 13 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ 100 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے جاپانی حکومت نے ایک انوکھا قدم اٹھایا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق جاپان کی وزارتِ ماحولیات نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے لائسنس یافتہ شکاریوں اور دیگر ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ریچھوں کے بڑھتے حملوں کو روکا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے جا رہے ہیں، جو شکاریوں کی تربیت، ہتھیاروں اور نگرانی کے جدید نظام کے قیام پر خرچ ہوں گے۔

وزیرِ ماحولیات ہیروٹاکا اِشیہارا نے جمعرات کے روز ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد بتایا کہ حکومت ریچھوں کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنائے گی اور ان کے قدرتی مسکن کے قریب انسانی سرگرمیوں پر نظر رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ  ہم صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔

جاپان کے شمالی اور وسطی علاقوں میں ریچھوں کے شہری علاقوں تک پہنچنے کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ چند ہفتے قبل ایک ریچھ کے اسکول کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہونے اور بچوں کو خوفزدہ کرنے کا واقعہ منظرِ عام پر آیا تھا۔

اسی طرح ایک اور شہر میں ریچھ نے بس اسٹاپ پر کھڑے سیاحوں پر حملہ کیا جب کہ کئی ویڈیوز میں ریچھوں کو سپر مارکیٹوں کے آس پاس گھومتے دیکھا گیا۔

ماہرین کے مطابق جنگلات کی کٹائی اور خوراک کی کمی کے باعث ریچھ اب شہری آبادیوں کا رخ کر رہے ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے جاپانی حکومت نے ریچھوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے ڈرونز، الارم سسٹم اور سی سی ٹی وی نگرانی کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خطرے سے دوچار ہمپ بیک وہیل کا بڑا گروہ بلوچستان کے ساحل پر نمودار
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • سابق امریکی صدر اوباما کی نیویارک میئر کے امیدوار زہران ممدانی کو بھرپور حمایت کی یقین دہانی
  • آئی سی سی اجلاس میں میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، محسن نقوی
  • اسپینش فٹبال اسٹار لامین یامال ناقابل علاج انجری کا شکار
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • ایم ڈی کیٹ رزلٹ میں کراچی کے طلبہ نے میدان مار لیا، 41 بچے ٹاپ 10 میں شامل
  • جاپان میں ریچھوں کے بڑھتے حملے:حکومت نے شکاریوں کو میدان میں اتار دیا
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا