---فائل فوٹو 

سربراہ ایدھی فاؤنڈیشن فیصل ایدھی نے مصطفیٰ قتل کیس سے متعلق کہا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد مجسٹریٹ کی موجودگی میں قبر کشائی کی جا سکتی ہے، ورثاء اگر چاہیں تو لاش اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔

’جیو نیوز‘ سے گفتگو کے دوران فیصل ایدھی نے بتایا کہ بلوچستان پولیس کی جانب سے ہم سے 12 جنوری کو رابطہ کیا گیا تھا، پولیس کی جانب سے جھلسی ہوئی لاش ہمارے حوالے کی گئی تھی، لاش مکمل طور پر جلی ہوئی تھی۔

فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ عامر کی لاش کا صرف دھڑ تھا، ہاتھ، پیر اور سر موجود نہیں تھا۔

مصطفیٰ کے قتل میں نئے انکشافات سامنے آگئے

ملزمان مصطفیٰ کو نیم بےہوش کرنے کے بعد اس کی ہی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر لے گئے، مصطفیٰ کی گاڑی میں ارمغان اور شیراز کیماڑی سےحب چوکی پہنچے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاش لواحقین کے انتظار میں 4 دن کراچی کے سرد خانے میں رکھی رہی جس کی 16 جنوری کو مواچھ گوٹھ کے قبرستان میں تدفین کر دی گئی تھی۔

دوسری جانب کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے لاپتہ مصطفیٰ عامر کے قتل کے ملزم ارمغان کے والد نے کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں شور شرابہ کیا ہے۔

ملزم ارمغان کے والد کامران قریشی نے زبر دستی جج کے چیمبر میں گھسنے کی کوشش کی۔

کامران قریشی نے کہا کہ جا کر جج سے بولو میں ملنے آیا ہوں، میرے بیٹے ارمغان کا کیس چل رہا ہے، میں جج سے ملوں گا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: فیصل ایدھی

پڑھیں:

بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی میں ٹریفک کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لیے حکومت سندھ کی جانب سے نافذ کیے گئے ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) نے شہریوں، ماہرین اور سیاسی حلقوں میں شدید تحفظات کو جنم دیا ہے۔

27 اکتوبر سے نافذ العمل ہونے والے اس ڈیجیٹل ای چالان نظام کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ شہر میں ٹریفک سے متعلق بنیادی انفرا اسٹرکچر کا تباہ حال ہونا ہے۔ اربن پلانرز اور سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کی 60 فیصد سے زائد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جب کہ اندازاً 80 فیصد سے زائد شاہراہوں پر ٹریفک کے اشارے (سگنلز) اور علامات نصب ہی نہیں ہیں، یا درست کام نہیں کررہے۔ ایسے میں ٹریفک مینجمنٹ قائم کیے بغیر جدید ترین مصنوعی ذہانت   پر مبنی یہ خودکار نظام (ٹریکس) کس طرح کامیابی سے کام کرے گا، یہ ایک بڑا سوال ہے۔

شہری حلقوں کی جانب سے تحفظات کا دوسرا اہم نکتہ جرمانوں کی غیر معمولی حد تک زیادہ شرح ہے، جو 5 ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک مقرر کی گئی ہے۔ شہریوں کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بے روزگاری اور کم آمدنی والے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنے بھاری جرمانے کیسے ادا کر پائیں گے۔

قانون دانوں اور سیاسی رہنماؤں نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ جب ملک کے دیگر شہروں مثلاً  لاہور  میں چالان کی شرح بہت کم ہے تو کراچی کے شہریوں پر اتنا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے، جو آئینی طور پر ایک ملک میں دو قوانین کی موجودگی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔

سیاسی جماعتوں نے اس نظام کو ظالمانہ رویہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف عوامی احتجاج بلکہ عدالتوں میں قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کے بعد اس نظام کا مستقبل اب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے سے منسلک ہو گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی: ٹریفک پولیس اہلکار کا ’ای چالان‘ سے بچنے کیلئے جوگاڑ سوشل میڈیا پر وائرل
  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستان میں ہیلتھ کا بجٹ گیارہ سو 56 بلین روپے ہے، سید مصطفی کمال
  • لینڈنگ کے وقت جہاز
  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • چیئرمین نظام مصطفی پارٹی حنیف طیب اجتماع سے خطاب کررہے ہیں
  • میری ٹائم ایکسپو اینڈ کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل ہے: وائس ایڈمرل فیصل عباسی
  • اسرائیلی وزیر کی ہاتھ بندھے، اوندھے منہ لیٹے فلسطینی قیدیوں کو قتل کی دھمکی؛ ویڈیو وائرل
  • افغان طالبان نے جو لکھ کر دیا ہے ، اگر اس کی خلاف ورزی ہوئی تو ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں بچے گا: طلال چوہدری