نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کے ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی، 15 افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
NEW DELHI:
نئی دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر ہندوؤں کے مذہبی تہوار مہا کمبھ کے میلے میں جانے والے مسافروں میں بھگدڑ مچ گئی جس کی وجہ سے 15 افراد ہلاک جبکہ 10 زخمی ہو گئے۔
نئی دہلی کے لوک نائک اسپتال کی ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر ریتو سکسینہ نے برطانوی خبر رساں ادارے کو ہلاک شدگان کی تعداد کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
کو اس تعداد کی تصدیق کی جب ہفتہ کی شام کو مبینہ طور پر ہزاروں افراد ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو گئے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ ان تمام لوگوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اسٹیشن پر بہت بڑا ہجوم جمع تھا، جو ہندوؤں کے مذہبی تہوار کمبھ میلے کا سفر کر رہے تھے، ایک شخص کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے ہجوم کو کنٹرول کرنا پولیس کے بس میں نہیں تھا۔
ریلوے اسٹیشن کے حکام کے مطابق اسٹیشن کے اندر دو ٹرینیں تاخیر کا شکار ہوئیں جبکہ تیسری ٹرین پریاگ راج جانے والی تھی جس کی وجہ سے اسٹیشن پر کافی ہجوم اکٹھا ہو گیا۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے پی ایس ملہوترا نے کہا کہ ہجوم کی وجہ سے صورتحال 10 سے 15 منٹ کے لئے قابو سے باہر ہوگئی ہے، جس کا نتیجہ انتہائی بھیانک تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی ریلوے نے ابتدائی طور پر بھگدڑ مچنے کی خبروں کو 'افواہ' قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا تاہم اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نامعلوم تعداد میں افراد زخمی ہوئے ہیں اور انہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چند ہفتے قبل شمالی بھارت میں کمبھ میلے کے تہوار کے موقع پر صبح سویرے ہجوم میں بھگدڑ مچنے سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
لاکھوں ہندو چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے تہوار کے مقدس دنوں میں سے ایک پر مقدس ندی کے پانی میں غوطہ لگانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریلوے اسٹیشن اسٹیشن پر
پڑھیں:
دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار
عید قربان کی آمد کے ساتھ ہی دل میں ایک عجیب سکون، کچھ پرانے مناظر اور چند دھندلے مگر بہت قیمتی نقوش جاگ اٹھتے ہیں۔ شہر کے جگمگاتے مگر مصنوعی ماحول میں عید بھی رسمی تہوار بن جاتا ہے لیکن دیہات کی فضاؤں میں عید کا استقبال ایک زندہ روایت، جذبے اور اپنائیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ عید قربان اپنے آبائی گاؤں میں گزاروںجو وادی سون کے خوبصورت پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ وہی وادی ہے جہاں گرمیوں میں اگر کسی گھنے درخت کے سائے تلے بیٹھ جائیں تو پنکھے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ قدرتی ٹھنڈک ایسی کہ بدن میں تازگی کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور جب یہی ماحول عید کے رنگوں میں ڈھل جائے تو پھر اس کا حسن دو چند ہو جاتا ہے۔شہر کی نسبت گاؤں میں ایک اور انمول نعمت ’رشتوں کا جُڑاؤ‘ہے۔
وہ رشتے جنھیں وقت، مصروفیت اور فاصلوں نے کمزور کر دیا ہے یہ رشتے عید پر پھر سے جڑنے لگتے ہیں۔ گھر کے صحن میں بیٹھے بزرگوں کی دانائی بھری گفتگو ، دعائیں اور ان کی آنکھوں میں جھلکتا سکون، یہ سب کچھ دل کو اس یقین میں بدل دیتا ہے کہ زندگی کا اصل حسن یہی ہے۔ میرے گاؤں میں عید کی تیاریاں چند دن پہلے ہی شروع ہو جاتی ہیں۔شہروں میںروزگار کے سلسلے میں مقیم لوگ اپنے آبائی وطن کو لوٹتے ہیں۔
عید کے دن صبح سویرے جب عید گاہ سے اللہ اکبر کی صدائیں گونجتی ہیں تو دل کے اندر ایک روحانی تڑپ پیدا ہوتی ہے۔بچے ،نوجوان، بزرگ نئے کپڑے پہن کر، خوشبو لگا کراور بغل میں جائے نماز رکھ کرعید گاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ دیہات میں عموماً عید کی نماز عید گاہ میں ادا کی جاتی ہے جہاں پر گاؤں کے سب لوگ اجتماعی طورپر نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد ہر کوئی ایک دوسرے سے گلے ملتا اور عید کی مبارکباد دیتا ہے۔
نماز کے بعد دعاؤں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے جن میں زندگی کی آسانیوں سے لے کر آخرت کی بخشش تک سب کچھ مانگا جاتا ہے۔گاؤں کی عید میں قربانی صرف جانور کی نہیں ہوتی بلکہ انا کی، تکبر کی اور خود غرضی کی بھی ہوتی ہے۔ یہاں دل سے قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، دکھاوے سے نہیں۔
میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ قربانی کے لیے خوبصورت جانور خریدے جائیں اور جب قربانی کے جانور وں کی خریداری کا مرحلہ طے پا جاتا ہے تو سب سے اہم مرحلہ قصاب کے ساتھ وقت طے کرنا ہوتا ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب گھر پہنچتا ہوں تو قصاب میرا منتظر ہوتا ہے ۔
گاؤں میں ماہر قصاب مختصر سے وقت میں قربانی کا عمل مکمل کر کے چلا جاتا ہے کہ دوسرے گھروں میں گاہگ اس کے منتظر ہوتے ہیں بلکہ کئی ایک تو میرے گھر پہنچ جاتے ہیں اور قصاب کو ساتھ لے جاتے ہیں کہ کہیں راستے میں وہ’ بھٹک یا اغوا‘نہ ہوجائے ،کوئی اور ملک صاحب اسے لے نہ اُڑے ۔قربانی کے گوشت کا سب سے اہم مرحلہ اس کی تقسیم کا ہے۔ میری یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان گھروں میں قربانی کا گوشت پہنچایا جائے جن کے ہاں قربانی نہیں ہوتی۔ کسی کو احساس نہیں ہوتا کہ کس کے گھر میں کتنا گوشت ہے کیونکہ سب کا گوشت سب کا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو بانٹنے کا، خوشیاں پھیلانے کا اور ضرورت مندوں کو یاد رکھنے کا جو جذبہ دیہات میں ہوتا ہے، وہ شاید شہر کی گلیوں میں کہیں کھو گیا ہے۔
عید کی سب سے بڑی خوبصورتی میرے نزدیک وہ وقت ہوتا ہے جب بزرگوں کی قبروں پر حاضری ہوتی ہے ۔ قبرستان جو پہاڑ کے دامن میں واقع ہے وہاں خاموشی، سرسبز درختوں کی سرسراہٹ اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے درمیان ہم اپنے گزرے ہوئے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یہ لمحے اتنے پرسکون ہوتے ہیں کہ دنیا کے ہر شور سے کٹ کر انسان صرف اپنے رب کے قریب محسوس کرتا ہے اور یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایک دن میں نے بھی یہیں سپرد خاک ہونا ہے۔
دوپہر کے وقت جب دستر خوان بچھتا ہے تو اس پر صرف کھانے کی چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ محبت، اپنائیت اور شکر گزاری بھی رکھی جاتی ہے۔ گوشت کے قورمے، چاول اور مٹی کے برتنوں میں ٹھنڈا لسی کا گلاس یہ سب چیزیں شہر کے کسی پانچ ستارہ ہوٹل کی چمک دمک پر بھاری ہوتی ہیں۔شام کو جب سورج پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگتا ہے اور گاؤں کی فضا میں ہلکی ہلکی خنکی اترنے لگتی ہے تو میں اپنے بچپن کے دوستوں کے ساتھ اپنی بیٹھک کے برآمدے میں بیٹھتا ہوںجہاں وہی پرانی باتیں، وہی یادیں اور وہی قہقہے ہوتے ہیں یعنی کہ کچھ بھی نہیں بدلا صرف ہم بڑے ہو گئے ہیں۔
اس لمحے دل میں ایک خواہش جاگتی ہے کاش زندگی کی یہ شامیں کبھی ختم نہ ہوں۔ شاید اسی لیے میں ہر سال اس تہوار کو اپنے گاؤں میں منانے کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ یہاں عید صرف رسم نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی خوشبو ہے ، تازہ ہوا کا جھونکاہے، اپنائیت کا وہ لمحہ جو ہمیشہ دل میں محفوظ رہتا ہے ۔