Juraat:
2025-04-26@04:40:25 GMT

بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال

ریاض احمدچودھری

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ریاست آسام میں این آر سی کی آخری فہرست جاری کی گئی جس کے بعد 19 لاکھ لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ گیا کیونکہ ان کا نام شہریوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا لیکن جب پورے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج تیز ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان میں بیان دیا کہ حکومت کا فی الحال پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو دنیا کی کوئی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بھارتی مسلمان بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حالانکہ ان سے ان کی ترقی اور پیشرفت کے اسباب کو سلب کرنے کی تلاش کی جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔بھارت میں بی جے پی کے پہلے اقتدار سے ہی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سینکڑوں برس حکمران بھی رہے۔تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو ” غدار” قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔
مودی کے بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں انتہائی غیر محفوظ ہیں ۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا نام و نشانہ مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں خوف کی ایک مستقل حالت میں زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے اقلیتوں کو روز نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہندو غنڈے مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر رہے ہیں ، مساجد اور گرجا گھروں کونشانہ بناتے ہیں۔بی جے پی 2014میں برسراقتدار آئی تو اس نے اب تک ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانو ں، عیسائیوں ، سکھوں کو نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں حق خود اردیت کی منصفانہ جدوجہد میں مصروف کشمیریوں کے خلاف بھی مظالم میں تیزی لائی اور 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی چھین لی۔ کشمیری مسلمانوں کو بی جے پی حکومت کی طرف سے نسل کشی کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں پر وحشیانہ مظالم اور بھارت میں اقلیتوں پر مسلسل حملے عالمی برادری کیلئے ایک چیلنج ہیں ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارتی اقلیتوں او ر کشمیری مسلمانوں کو مودی حکومت کے جبر سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک ہنگامہ خیز سفر کا آغاز ہوا ہے۔ہندو مشتعل ہجوم نے گائے کے گوشت کا کاروبار کرنے کے شبے میں متعدد افراد کو مارا پیٹا اور چھوٹے مسلمان تاجروں کو نشانہ بنایا ہے۔ مساجد کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ ٹرولز نے مسلم خواتین کی آن لائن ‘نیلامیوں’ کا اہتمام کیا ہے۔دائیں بازو کے گروپس اور ‘مین سٹریم’ میڈیا نے ‘جہاد’، ‘لو جہاد’ کے الزامات لگا کر اسلاموفوبیا کو ہوا دی ہے۔ مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے مذہب تبدیلی کے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے تین چوتھائی واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں سے سامنے آئے ہیں۔
مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں، اپنے ہی ملک میں نظروں سے اوجھل اقلیت ہیں۔لیکن بی جے پی اور وزیراعظم مودی اس بات سے انکاری ہیں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ یہ محض چند لوگوں کے مسائل ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے نکل کر دوسرے لوگوں سے ملنے تک کی زحمت نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی اقلیتیں بھی اب اس بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔
آگرہ میں پانچویں نسل سے رہائش پذیر ماحولیاتی کارکن ارم نے بھی مقامی سکولوں میں کام کرتے ہوئے شہر کے بچوں کے درمیان گفتگو میں تبدیلی رونما ہوتے دیکھی ہے۔ انھوں نے ایک بچے کو ایک مسلمان ہم جماعت کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ‘مجھ سے بات مت کرو، میری ماں نے مجھے کہا ہے کہ (تم سے بات) نہ کروں۔’یہ صرف بچوں کی حد تک ہی نہیں ہے۔ آگرہ کے ایک مقامی صحافی سراج قریشی بین المذاہب پر کام کرتے ہیں۔ مگر اب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ختم ہوتے پرانے تعلق پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے ظلم و ستم پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشکلات کی شکار اقلیتوں کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ نوجوان، خواتین، بیمار، مشکلات میں گھرے افراد کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ باعزت زندگی کے لیے معاشروں میں نیا عمرانی معاہدہ ناگزیر ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں نوجوان باوقار انداز سے رہ سکیں اور جس میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع میسر ہوں۔ ایسا معاشرہ جہاں بیمار، مشکل میں پھنسے اور تمام اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: بھارت میں مسلمان مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہندو انتہا بی جے پی کے خلاف ملک میں کے بعد رہا ہے

پڑھیں:

مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ

وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔

ان خیالات کا  اظہار انہوں نے یو ایس ایف کے  زیر اہتمام آئی سی ٹی شعبے میں خواتین کے عالمی دن 2025 کے سلسلے میں منعقدہ "گرلز ان آئی سی ٹی فار انکلوسیو ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن" کی  تقریب  سے بطور مہمان خصوصی  خطاب کرتے ہوئے کیا۔

تقریب میں وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام اور یو ایس ایف کے سینئر حکام، رکن قومی اسمبلی  محترمہ شرمیلا فاروقی، موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے سی ای او حارث محمود، جی ایس ایم اے کی کنٹری لیڈ محترمہ سائرہ فیصل، ماہرین تعلیم، ممتاز خواتین آنٹرپرینیورز، ٹیلی کام سیکٹر بشمول جاز، آئی ٹی اور ٹیلی کام انڈسٹری کے نمائندوں نے شرکت کی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ نے کہا کہ ایک پاکستانی خاتون کی حیثیت سے انہوں نے ایک نوجوان خاتون کی زندگی میں ٹیکنالوجی کی تبدیلی کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران، ٹیکنالوجی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبے عملی جامہ پہن رہے ہیں جس کے نتیجے میں آج آئی ٹی شعبے میں بہت سی ٹاپ اسٹوڈنٹس خواتین ہیں، اور خواتین کی زیر قیادت ٹیک وینچرز نے عالمی پلیٹ فارمز پر بھی دھوم مچانا شروع کر دی ہے۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ یہ کامیابی ان کے انتھک محنت اور حکومتی معاون پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے، آئیے مل کر ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں ہر لڑکی اپنی صلاحیتوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکے اور جہاں بااختیار بنانا کوئی خواب نہیں بلکہ ڈیجیٹل حقیقت ہو۔

نیشنل براڈ بینڈ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا کہ اپنے قیام سے اب تک یو ایس ایف نے بلاامتیاز ملک کے چاروں صوبوں میں 161 منصوبوں کے ذریعے 4،400 موبائل ٹاورز لگائے ہیں جبکہ 17 ہزار 200کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر کیبل کے ذریعے ایک ہزار سے زائد ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کو منسلک کیا گیا ہے۔

اس طرح اب تک مجموعی طورپر دور دراز علاقوں کے 3 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد کو ڈیجیٹل سروسز فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے علاقوں میں خواتین اور لڑکیاں پہلی بار ڈیجیٹل دنیا سے منسلک ہوتے ہوئے اپنی تعلیم، معلومات میں اضافے کے ساتھ، کاروبار کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال وزیر اعظم نے یو ایس یف کو 23 ارب روپے کے فنڈز دیئے ہیں۔

وفاقی وزیر ائی ٹی نے کہا کہ ہماری وزارت ملک کے نوجوانوں خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے اور ڈیجیٹل سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن تعاون اور اقدامات کررہی ہے۔

شزہ فاطمہ نے کہا کہ وزارت آئی ٹی خواتین کو ہرسطح پر سپورٹ کرتی ہے،برابری کا ماحول پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں،  خواتین کے ساتھ ہمارے معاشرے اور مردوں کا رویہ لمحہ فکریہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، ہماری خواتین میں کوئی کمی نہیں، ملک ترقی اسلئے نہیں کرتا کہ آدھی آبادی کو بہترماحول میسر نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • پہلگام فالس فلیگ کا پردہ چاک کرنے پر آسام کا مسلمان رکن قانون ساز اسمبلی گرفتار
  • ’آپ ہندو، ہندو کیا کررہے ہیں؟‘، بھارتی میڈیا کو آئینہ دکھانے پر اداکار شتروگھن سنہا تنقید کی زد میں
  • پہلگام فالس فلیگ کا پردہ چاک کرنے پر آسام کا مسلمان رکن قانون ساز اسمبلی گرفتار
  • مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • لازم ہے کہ فلسطین آزاد ہو گا
  • مسلمانی کا ناپ تول
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • مذہب اور لباس پر تنقید، نصرت بھروچا کا ردعمل