Juraat:
2025-07-26@23:01:51 GMT

بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال

ریاض احمدچودھری

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔ریاست آسام میں این آر سی کی آخری فہرست جاری کی گئی جس کے بعد 19 لاکھ لوگوں کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ گیا کیونکہ ان کا نام شہریوں کی فہرست میں نہیں ہیں۔پورے ملک میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے گا لیکن جب پورے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج تیز ہوئے تو وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمان میں بیان دیا کہ حکومت کا فی الحال پورے ملک میں این آر سی نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔ بھارت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو دنیا کی کوئی طاقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ بھارتی مسلمان بڑے صبر و تحمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں حالانکہ ان سے ان کی ترقی اور پیشرفت کے اسباب کو سلب کرنے کی تلاش کی جاری ہے۔ بھارتی حکومت کو اپنے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے ،ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔بھارت میں بی جے پی کے پہلے اقتدار سے ہی معاشرے میں نفرت اور مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے۔گزشتہ برسوںکی طرح اس برس بھی اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے نچلی ذات کے ہندوؤں، مسیحوں اور مسلمانوں کے خلاف تعصب اور بدسلوکی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔ مسلمان بھارت میں سب سے بڑی اقلیت ہیں جو تقسیم ہند سے قبل ہندوستان میں سینکڑوں برس حکمران بھی رہے۔تاہم تقسیم ہند کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں کو تعصب کا سامنا رہا اور بھارت کے بانی رہنماؤں میں سب سے معروف موہن داس کرم چند گاندھی کو ہی 1948 میں ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ایک ہندو انتہا پسند نتھورام گوڈسے نے قتل کردیا تھا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے پر ہندو انتہا پسندوں کی اکثریت مہاتما گاندھی کو ” غدار” قرار دیتی ہے حالانکہ وہ خود ایک کٹر ہندو تھے، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گاندھی کے قاتل گوڈسے کو ہیرو قراردیا جارہا ہے۔
مودی کے بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں انتہائی غیر محفوظ ہیں ۔ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بی جے پی حکومت ملک میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کا نام و نشانہ مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔ بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں خوف کی ایک مستقل حالت میں زندگی بسر کر رہی ہیں ۔ ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے اقلیتوں کو روز نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہندو غنڈے مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کر رہے ہیں ، مساجد اور گرجا گھروں کونشانہ بناتے ہیں۔بی جے پی 2014میں برسراقتدار آئی تو اس نے اب تک ہندو انتہا پسندوں کو مسلمانو ں، عیسائیوں ، سکھوں کو نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں حق خود اردیت کی منصفانہ جدوجہد میں مصروف کشمیریوں کے خلاف بھی مظالم میں تیزی لائی اور 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی چھین لی۔ کشمیری مسلمانوں کو بی جے پی حکومت کی طرف سے نسل کشی کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں پر وحشیانہ مظالم اور بھارت میں اقلیتوں پر مسلسل حملے عالمی برادری کیلئے ایک چیلنج ہیں ، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارتی اقلیتوں او ر کشمیری مسلمانوں کو مودی حکومت کے جبر سے بچانے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا۔
نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کی زندگیوں میں ایک ہنگامہ خیز سفر کا آغاز ہوا ہے۔ہندو مشتعل ہجوم نے گائے کے گوشت کا کاروبار کرنے کے شبے میں متعدد افراد کو مارا پیٹا اور چھوٹے مسلمان تاجروں کو نشانہ بنایا ہے۔ مساجد کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ ٹرولز نے مسلم خواتین کی آن لائن ‘نیلامیوں’ کا اہتمام کیا ہے۔دائیں بازو کے گروپس اور ‘مین سٹریم’ میڈیا نے ‘جہاد’، ‘لو جہاد’ کے الزامات لگا کر اسلاموفوبیا کو ہوا دی ہے۔ مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے مذہب تبدیلی کے جھوٹے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔اور مسلم مخالف نفرت انگیز تقریر میں اضافہ ہوا ہے۔ اور ایسے تین چوتھائی واقعات بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں سے سامنے آئے ہیں۔
مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن گئے ہیں، اپنے ہی ملک میں نظروں سے اوجھل اقلیت ہیں۔لیکن بی جے پی اور وزیراعظم مودی اس بات سے انکاری ہیں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ یہ محض چند لوگوں کے مسائل ہیں جو اپنے ارد گرد کے ماحول سے نکل کر دوسرے لوگوں سے ملنے تک کی زحمت نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی اقلیتیں بھی اب اس بیانیے کو تسلیم نہیں کرتی ہیں۔
آگرہ میں پانچویں نسل سے رہائش پذیر ماحولیاتی کارکن ارم نے بھی مقامی سکولوں میں کام کرتے ہوئے شہر کے بچوں کے درمیان گفتگو میں تبدیلی رونما ہوتے دیکھی ہے۔ انھوں نے ایک بچے کو ایک مسلمان ہم جماعت کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ‘مجھ سے بات مت کرو، میری ماں نے مجھے کہا ہے کہ (تم سے بات) نہ کروں۔’یہ صرف بچوں کی حد تک ہی نہیں ہے۔ آگرہ کے ایک مقامی صحافی سراج قریشی بین المذاہب پر کام کرتے ہیں۔ مگر اب وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ختم ہوتے پرانے تعلق پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف مودی سرکار کے ظلم و ستم پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشکلات کی شکار اقلیتوں کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ نوجوان، خواتین، بیمار، مشکلات میں گھرے افراد کو باوقار زندگی دینا ہوگی۔ باعزت زندگی کے لیے معاشروں میں نیا عمرانی معاہدہ ناگزیر ہے۔ ایسا معاشرہ جس میں نوجوان باوقار انداز سے رہ سکیں اور جس میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع میسر ہوں۔ ایسا معاشرہ جہاں بیمار، مشکل میں پھنسے اور تمام اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: بھارت میں مسلمان مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہندو انتہا بی جے پی کے خلاف ملک میں کے بعد رہا ہے

پڑھیں:

"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی

جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت کا خاتمہ قریب؟
  • مودی حکومت نے مزید 3 کشمیری مسلمانوں کو املاک سے محروم کر دیا
  • رحیم یار خان میں ہندو برادری کے 3 افراد اغوا، ڈی پی او کا نوٹس، بازیابی کے لیے کارروائیاں جاری
  • جنگ بندی کیسے ہوئی؟ کس نے پہل کی؟مودی سرکار کی پارلیمنٹ میں آئیں بائیں شائیں
  • مودی راج میں مسلمان بنگالی مہاجرین کی مذہبی بنیاد پر بے دخلی کا سلسلہ جاری
  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • "ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
  • بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
  • بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں ہوش رُبا اضافہ، مودی راج میں انصاف ناپید
  • مودی راج میں ریاستی الیکشنز سے پہلے ہی انتخابی نظام کی ساکھ خطرے میں