Nai Baat:
2025-07-25@01:12:52 GMT

اس مخلوق سے اللہ بچائے

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

اس مخلوق سے اللہ بچائے

ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ کورٹ، کچہریوں، تھانوں اور ہسپتالوں سے اللہ دشمن کو بھی بچائے۔ کورٹ، کچہریوں، تھانوں اور ہسپتالوں میں اب جو کچھ ہوتا ہے ایسا اگر بزرگوں کے دور اور وقت میں ہوتا تو یقین مانیں ہمارے وہ بزرگ دن میں ایک نہیں ہزار بار ان کورٹ، کچہریوں، تھانوں اور ہسپتالوں سے پناہ مانگتے۔ کورٹ، کچہریوں اور تھانوں کو چھوڑیں ہسپتالوں کے نام پر بننے والے صرف ان قصاب خانوں میں اب جو کچھ ہو رہا ہے واللہ ان ہسپتالوں کے حالات دیکھ کر دل پھٹنے لگتا ہے۔ مویشیوں کے باڑے میں باندھنے والے جانوروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک نہیں ہوتا جو سلوک اور ظلم ان ہسپتالوں میں اپنے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے آنے والے غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اپنے کزن بہرام خان کے شیرخوار بچے کی بیماری کے باعث بہت سے ہسپتالوں، ڈاکٹروں اور نرسز سے واسطہ پڑا۔ ایبٹ آباد سے پشاور تک اس بھاگ دوڑ میں جہاں یہ یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر اور نرسز کی اکثریت کے سینے میں دل نہیں ہوتا وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہسپتال بٹگرام کے ہوں، ایبٹ آباد کے یا پھر پشاور کے یہ سب تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں غریب، مجبور اور لاچار انسانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ موسم سرما کی سرد راتوں میں جب یخ بستہ ہواؤں سے بچنے کے لئے جانور بھی باہر پناہ تلاش کئے پھرتے ہیں اس حال میں جب ان ہسپتالوں کے دلانوں اور بیابانوں میں وارڈز سے نکالے گئے غریبوں اور مجبوروں کو سردی سے کانپتے اور ٹھٹھرتے ہوئے انسان دیکھتا ہے تو روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ جن ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر تین تین اور چار چار مریض لٹائے جاتے ہوں ان ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین کے لئے کیا انتظام ہو گا۔؟ یہ سب کو اچھی طرح پتہ ہے۔ غریب لوگ اپنا اور اپنوں کا علاج کرانے کے لئے اپنی مرغیاں، گائے، بکری اور بھینس کیا۔؟ گھر کی ایک ایک چیز تک بیج دیتے ہیں لیکن ان ہسپتالوں میں پھر بھی ان غریبوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ پیسے ہر کسی کو اچھے لگتے ہیں پر ہسپتالوں کے نام پر قصاب خانے کھولنے والے ان نام نہاد خدائی خدمتگاروں اور مسیحاؤں کی پیسوں سے محبت لیلیٰ و مجنون اور ہیر رانجھا کی محبت سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ مخلوق پیسے سے صرف محبت نہیں بلکہ محبت کی بھی انتہاء کرتے ہیں۔ ہسپتال اور بیڈز پر پڑے مریضوں سے اس مخلوق کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ہسپتال کے بیڈ پر ایڑھیاں رگڑنے والا مریض مرتا ہو یا جیتا ہو اس سے اس مخلوق کا کیا کام۔؟ ان کا کام اور مقصد فقط پیسے تک ہے۔ یہ وہی کام کرتے ہیں جس سے پیسہ ملنے کا یقین ہو۔ مانا کہ ڈاکٹر مسیحا ہوتے ہیں اور بہت سے ڈاکٹر سچ اور حقیقت میں غریبوں اور مجبوروں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں لیکن اس مقدس پیشے سے وابستہ مسیحائوں کی اکثریت زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کرنے والوں کی ہے۔ اکثر ڈاکٹر پیسوں کے بغیر مریضوں کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔ جس کے پاس فیس کے پیسے نہ ہوں اس کا ڈاکٹر سے چیک اپ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بغیر فیس اور پیسوں کے تو ڈاکٹر کسی سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔ اس ملک میں سرکاری ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا حال بہت برا ہے۔ ان ہسپتالوں میں ایک ہی رات گزارنے کے بعد بندے کو خدا یاد آجاتا ہے۔ یہاں مریض کے لواحقین دن اور رات کو جس کرب و تکلیف سے گزارتے ہیں وہ صرف ان ہسپتالوں میں شب و روز گزارنے والے غریب اور ان کا خدا ہی جانتا ہے۔ عالمی سٹینڈرڈ کے پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کرانے والے حکمران اور سیاستدان کیا جانیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں پر کیا گزر رہی ہوتی ہے۔؟ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین جس طرح ذلیل اور خوار ہوتے ہیں وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ سنگ مرمر سے بنے محلات میں خراٹے مارنے والوں کو ایک لمحے کے لئے سوچنا چاہئے کہ سخت سردی میں آدھی رات کو وارڈ سے بیدخل ہونے والے مریضوں کے لواحقین پر کھلے آسمان تلے کیا گزرتی ہو گی۔؟ ہم نے ایبٹ آبادسے پشاور تک مریضوں کے ساتھ ہسپتال آنے والے رشتہ داروں اور قرابت داروں کو یخ بستہ ہواؤں اور راتوں میں کھلے آسمان تلے سردی سے کانپتے اور ٹھٹھرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان ہسپتالوں میں غریبوں کے لئے دھکے اور ٹھوکریں کھانے کے سوا کوئی انتظام نہیں۔ اللہ کسی کو غریب پیدا نہ کرے۔ کوئی غریب پیدا ہو تو پھر رب اسے ہر بیماری سے بچائے۔ ہسپتالوں میں غریبوں کے ساتھ صرف برا نہیں بلکہ بہت برا ہوتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہاں کے ہسپتال امریکہ اور برطانیہ جیسے ہوں حکمران اس ملک کے غریب عوام کے لئے بے شک عالمی سٹینڈرڈ کے ہسپتال نہ بنائیں لیکن ان ہسپتالوں کو کم از کم اس قابل تو بنائیں کہ یہاں آنے والے غریب ارمانوں اور مایوسیوں کی بوریاں سروں پر اٹھائے ان ہسپتالوں سے نہ نکلیں۔ جو مریض آخری ہچکیاں لے رہا ہو اور اس کا خونی رشتہ دار بھائی، بہن، ماں اور باپ کسی ڈاکٹر، نرس اور گارڈ سے باہر دھکے کھا رہا ہو تو خود سوچیں اس مریض کے مرنے کے بعد ان رشتہ داروں اور قرابت داروں کے دلوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔؟ حکمران ان ہسپتالوں کو عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق سہولیات دیں یا نہ دیں لیکن کم از کم ان ہسپتالوں میں ڈیوٹی دینے والے ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر سٹاف کو اخلاقیات اور انسانیت کاسبق ضرور پڑھائیں اور سکھائیں، جن لوگوں کو اخلاقیات اور انسانیت کا ہی نہیں پتہ وہ لوگ انسانیت کی کیا خدمت کریں گے یا انسانیت کو کیسے بچائیں گے۔ ڈاکٹرز اور نرسز سرکاری ہسپتالوں میں ایسے کام کرتے ہیں جیسے یہ نوکری نہیں بلکہ اس ملک اور قوم پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہے ہوں۔ پرائیویٹ کلینک اور ہسپتالوں میں یہی ڈاکٹر صبح سے رات تک بیٹھے رہتے ہیں لیکن سرکاری ہسپتالوں میں دو تین مریض دیکھنے اور تین چار گھنٹے گزارنے کے بعد ان کو موت آنے لگتی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر ملازمین اگر پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوں میں جی جی کر سکتے ہیں تو پھر سرکاری ہسپتالوں میں کیوں نہیں۔؟ پیسہ ہی سب کچھ نہیں انسانیت بھی آخر کوئی شے ہے۔ مال بٹورنا اور جاگیریں بنانا بعد میں ہے پہلے انسانیت بچانا ہے۔ انسانیت تب بچے گی جب پیسے پر ایمان لانے والی یہ مخلوق انسان بنے گی نہیں تو یہ انسان اس مخلوق کے ہاتھوں اسی طرح لٹتے، رلتے اور تڑپتے رہیں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سرکاری ہسپتالوں میں ہسپتالوں میں غریب ان ہسپتالوں میں اور ہسپتالوں ہسپتالوں سے ہسپتالوں کے نہیں بلکہ غریبوں کے مریضوں کے نہیں ہوتا جو کچھ ہو ا نے والے اس مخلوق ہوتا ہے کے ساتھ کے لئے

پڑھیں:

رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟

رنگ ہمارے ماحول میں خاموشی سے موجود ہوتے ہیں اور انسانی جذبات، خیالات اور رویوں پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ کبھی سکون دیتے، کبھی خوشی بخشتے اور کبھی ذہن و جسم کو توازن میں لانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بک مون‘ کے ساتھ سرخی مائل چاندنی رات کا نظارہ

دنیا بھر میں رنگوں کو نہ صرف خوبصورتی کے لیے بلکہ ذہنی صحت، تھراپی اور علاج کے مؤثر طریقے کے طور پر بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگ انسانی دماغ اور جذبات پر نمایاں اثر ڈالتے ہیں۔

رنگوں کے نفسیاتی اور جذباتی اثرات

سردیوں میں سرخ، نارنجی یا خاکی جیسے گہرے رنگ جسم میں گرمی کا احساس دلاتے ہیں۔ صبح کے وقت ہلکے رنگ توانائی بخش ہوتے ہیں جبکہ رات کے وقت نیلا یا ارغوانی رنگ ذہنی سکون فراہم کرتے ہیں۔

نیلا رنگ ذہنی سکون، اعتماد اور توجہ کو بڑھاتا ہے۔ سرخ رنگ جوش اور توانائی کے ساتھ بعض اوقات خطرے کا احساس بھی دلاتا ہے۔ سبز رنگ آنکھوں کو آرام دیتا ہے اور فطرت سے جڑنے کا احساس پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسپتالوں میں نیلا اور سبز رنگ مریضوں کو پرسکون رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

پولین ولس اپنی کتاب ’کلر تھیراپی: دی یوز آف کلر فار ہیلتھ اینڈ ہیلنگ‘ میں بتاتی ہیں کہ کمرے، دفتر یا کسی بھی جگہ کے رنگ ذہنی، جسمانی اور جذباتی حالت پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ماحول میں رنگوں کا سمجھداری سے انتخاب کیا جائے تو سکون، توانائی اور توازن حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: گلاب کا دن: خوشبو، رنگ اور محبت کی علامت

مثلاً نیلا رنگ دماغی کام اور تجزیاتی سوچ کے لیے بہترین ہے، سبز رنگ توازن اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور سرخ رنگ تحریک دیتا ہے اگر مناسب طریقے سے استعمال ہو۔ پیلا رنگ تخلیقی صلاحیت کو بڑھاتا ہے لیکن کسی ایک رنگ کا زیادہ استعمال ذہنی دباؤ یا تھکن کا باعث بن سکتا ہے۔

رنگوں کے مختلف اثرات

پرائمری کلاس رومز میں پیلا، نارنجی اور سبز رنگ طلبہ پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

امتحانی ہال میں نیلا یا ہلکا سبز رنگ کارکردگی بہتر بناتا ہے۔

اسپتالوں کی انتظار گاہوں میں ہلکے پیسٹل رنگ بے چینی کم کرتے ہیں، اور آپریشن تھیٹرز میں نیلا اور سبز رنگ مریضوں کو سکون دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق رنگوں کی طاقت سائنسی طور پر ثابت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سرخ رنگ بلڈ پریشر بڑھا سکتا ہے، نیلا رنگ غصہ کم کرتا ہے، سبز رنگ ذہنی سکون دیتا ہے اور پیلا رنگ تخلیقی صلاحیت کو فروغ دیتا ہے۔

ثقافتی اہمیت اور رنگوں کا مطلب

رنگوں کی معنویت ثقافت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں سفید رنگ سوگ کی علامت ہے جبکہ مغربی ممالک میں دلہنیں سفید لباس پہنتی ہیں۔ سیاہ رنگ کہیں دکھ کا اظہار ہوتا ہے تو کہیں وقار کی علامت۔

کَلر تھیراپی

ماہرین کے مطابق رنگ تیھراپی مکمل علاج نہیں بلکہ ایک معاون طریقہ ہے۔ ہر فرد کی توانائی اور رنگوں کے ساتھ تعامل مختلف ہوتا ہے اس لیے جو رنگ ایک شخص کے لیے فائدہ مند ہو وہ دوسرے کے لیے ضروری نہیں۔

مزید پڑھیں: کشمیر میں خزاں کے خوبصورت رنگ اور پانی میں آگ لگاتے پتے

رنگ تھیراپی کا اثر تب ہی مثبت ہوتا ہے جب رنگوں کا استعمال محتاط، تدریجی اور مسلسل ہو۔ روزمرہ زندگی میں ہلکے اور نرم رنگوں کو ترجیح دی جانی چاہیے کیونکہ تیز رنگ ذہنی دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رنگ اور سکون رنگوں کا اثر رنگوں کا مطلب رنگوں کی جادوگری رنگوں کی کاریگری کلر تھیراپی

متعلقہ مضامین

  • پراسرار سیارچہ خلائی مخلوق کا بھیجا گیا کوئی مشن ہوسکتا ہے، ہارورڈ کے سائنسدان کا دعویٰ
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا
  • کرایہ
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ہیپاٹائٹس سے بچاؤ
  • عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 
  • عقیدہ اور قانون میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس حیثیت
  • شاہ محمود قریشی شیر پاؤ پل کیس میں بری، مقدمے کے دوران کب کیا ہوتا رہا؟
  • دہشتگردی کے خاتمے کےلئے پوری قوم فورسز کے ساتھ کھڑی ہے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا
  • رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟