منزل مراد تک پہنچنا مشکل نہیں !
اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اب تک عوام کو سو فیصد بنیادی حقوق مل گئے ہوتے اور وہ پْر آسائش زندگی بسر کر رہے ہوتے مگر ایسا نہیں ہو سکا پچاس فیصد بھی حقوق نہیں مل سکے لہٰذا مسائل گمبھیر سے گمبھیر تر ہو گئے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے مگر اقتداری کھیل ہی ختم نہیں ہو رہا۔ ایک دوسرے کو گرانے اور جھکانے کی حکمت عملیاں اختیار کی جا رہی ہیں۔ایک حکومت کوئی عوامی منصوبہ بناتی ہے تو دوسری آکر اس میں کیڑے نکالنا شروع کر دیتی ہے اس طرح تو ملک ترقی نہیں کر سکتا لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں سے عرض ہے کہ وہ عوام کی خاطر ایک پلیٹ پر کھڑی ہو جائیں یہ جو ٹانگ کھینچنے کی سیاست ہے اس سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے ملک کو باہمی چپقلشوں سے بے حد نقصان پہنچ چکا ہے اسی لئے ہی ابھی تک حقیقی جمہوریت نہیں آسکی کیونکہ کوئی نہ کوئی طالع آزما آکر عنان اقتدار سنبھال لیتا ہے اور اپنے مطابق امور مملکت نمٹانے لگتا ہے اگرچہ اس کے دور میں معاملاتِ حیات میں تھوڑی بہتری آتی ہے مگر وہ جو "اصلاحات‘‘ کر جاتا ہے آنے والی منتخب حکومت کے لئے مشکلات کا سبب بن جاتی ہیں کیونکہ وہ ٹھیک طور سے ڈیلیور نہیں کر پاتی نتیجتاً عوام ناراض ہو جاتے ہیں اور کسی دوسری حکومت کی خواہش کرنے لگتے ہیں وہ بھی جب آتی ہے تو ان کی آس امید پر پورا نہیں اترتی لہٰذا اس وقت مسائل کی یلغار ہے جن سے چھٹکارا پانا کسی ایک حکومت کے بس کی بات نہیں ضروری ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں حکومت سے تعاون کریں اس سے انہیں بھی سیاسی فائدہ ہوگا کیونکہ عوام کو معلوم ہو گا کہ اگر حزب اختلاف حکومت کی مدد نہ کرتی تو وہ اکیلے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر پاتی لہذا کون جیتا کون ہارا کو پس پشت ڈالتے ہوئے متحد ہونا پڑے گا اس سے جہاں جمہوری عمل کو تقویت ملے گی وہاں عوام کے سلگتے مسائل بھی حل ہو سکیں گے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے لہٰذا ایک سیاسی ہنگامہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور اس امر کا خیال نہیں رکھا جا رہا کہ ان کی سیاسی لڑائی سے کوئی تیسرا بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ جو حکومت مخالف اتحاد تشکیل پا رہا ہے جس کا مقصد حکومت کو ہٹانا ہے مگراسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اس الجھے اور بگڑے نظام کو کیسے ٹھیک کر سکے گا ان میں شامل کسی جماعت کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے جس سے وہ خوشحالی کی لہر ابھار سکے گی ؟
ہمیں نہیں لگتا کہ کسی کے پاس کوئی مربوط معاشی نظام کا خاکہ ہے۔ سب ہی پیوند کاری کرتے ہیں اور دکھائی دینے والے منصوبے بنا کر سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو راضی کیا جا سکتا ہے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے کیونکہ لوگ خود تجزیہ کرنے لگے ہیں انہیں بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ لنکن نے صحیح کہا تھا کہ ’’آپ لوگوں کو ہر وقت بے وقوف نہیں بنا سکتے آپ ان میں سے اکثر کو بے وقوف بنا کر ایک بڑے ملک پر حکومت کر سکتے ہیں‘‘۔
بہرحال وطن عزیز میں ایک دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے اور ہر کسی کی نظریں اقتدار پر جمی ہوئی ہیں اس نظام کو بدلنے کے لئے کوئی ایک بھی سیاسی جماعت کچھ کرنے کو تیار نہیں جو منظر پے موجود ہے وہ سب ٹھیک کا دعویٰ کر رہی ہے اور جو اقتدار سے باہر ہے وہ کہتی ہے کہ جب ہم آئیں گے تو اجڑے چمن میں بہار آ جائے گی کیسے آئے گی یہ بتانے سے قاصر ہے۔ عوام مگر مایوس ہیں انہیں اپنے مستقبل کے روشن ہونے کی کوئی امید نہیں۔ بس یہی کہا جا رہا ہے کہ دن جلد پھریں گے۔ایسا تو پانچ چھے دہائیوں سے سن رہے ہیں مگر ہوا اتنا ہی جتنا جسم حرکت میں رہے۔ اس کے بر عکس اہل اقتدار کو ہمیشہ توانا دیکھا گیا ہے انہوں نے خود کو اس قدر مضبوط کر لیا ہے کہ اس کی کئی نسلیں ہاتھ ہلائے بغیربھر پور طور سے جی سکیں گی۔ کیا ہم اسے منصفانہ سمجھیں جمہوریت خیال کریں نہیں بالکل نہیں۔
یہاں جو نظام چل رہا ہے وہ لوگوں کی امنگوں کے مطابق بالکل نہیں اب تو ارباب اختیار پیداواری ذرائع کو بھی تبدیل کرتے جا رہے ہیں یعنی ان سے منسلک مزدوروں، کارکنوں اور ملازمین کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مستقلاً ان سے جڑے رہ سکیں جبکہ ریاست اپنے شہریوں کو ہر نوع کے تحفظات سے محفوظ رکھتی ہے مگر یہ تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے حیرت مگر یہ ہے کہ حکمران طبقہ اسے جمہوریت کہتا ہے تو پھر آمریت کیا ہے؟ ستتر برس بیت چکنے کے بعد بھی سماجی، سیاسی اور معاشی پرنالہ وہیں کا وہیں ہے مگر ڈھول کارکردگی کا ہر حکومت بڑا پیٹتی ہے اور بذریعہ بیانات و اشتہارات یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ بس اب انقلاب آیا ہی چاہتا ہے مگر ہوتا کچھ نہیں مہنگائی بھی موجود رہتی ہے قانون بھی سہما سہما رہتا ہے تھانے عقوبت خانے نظر آتے ہیں سرکار کے محکموں کے اہلکاروں کے ماتھوں کی شکنیں بھی واضح دکھائی دیتی ہیں آوے کا آوا ہی بگڑ ہوا ہے لہٰذا داد نہ فریاد نہ کوئی میرٹ۔ ایسے کیسے ملک خوشحال ہو گا مگر اہل اقتدار کا اصرار ہے کہ وہ بڑے کاریگر ہیں سیانے ہیں لہٰذا نئی سویر ضرور طلوع ہو گی۔ہم بھی یہ بات کہتے ہیں کہ آخر کار سہانی صبح کو نمودار ہونا ہی ہے مگر اس کے لئے پرخلوص جدوجہد کی جاتی ہے ہمت دکھائی جاتی ہے خالی خالی دعوے نہیں کیے جاتے لہٰذا اپنے بہی خواہوں سے واہ واہ کروانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا واہ واہ اس وقت بھلی لگتی ہے جب ملک میں حقیقی جمہوریت ہو جو شہریوں کو حق رائے دہی ہی نہیں دیتی انہیں شریک اقتدار بھی کرتی ہے لہٰذا اگر اہل اقتدار مخلص ہیں اور وطن عزیز کو مشکلات سے باہر نکالنا چاہتے ہیں تو وہ عوامی فکر کو نظر انداز نہ کریں اور انہیں غربت افلاس اور بے روزگاری سے چھٹکارا دلانے کی بھر پور سعی کریں اور وہ صاف نظر آئے وگرنہ وہ سمجھیں گے کہ سب طفل تسلیاں ہیں لہٰذا وہ اطمینان قلب سے محروم رہیں گے ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی نفرت بھی ختم نہیں ہو گی تو پھر معاشی اور سیاسی میدان میں بھی اداسی و ویرانی رہے گی لہٰذا کیوں نہ وہ کیا جائے جو ہمیں منزل مراد تک پہنچا دے !
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: نہیں ہو ہے مگر کے لئے نہیں ا ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
DUBAI:’’ یہ انڈینز تو بڑا ایٹیٹیوڈ دکھا رہے ہیں، ہم کیوں ہاتھ ملانے کیلیے کھڑے رہیں‘‘
جب میدان میں پاکستانی کرکٹرز ایک دوسرے سے یہ بات کر رہے تھے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں وہیں رکنے کا کہا، اس پر وہ تلملا گئے لیکن عدم عدولی نہیں کی، بعد میں جب مائیک ہیسن اور سلمان علی آغا بھارتی ڈریسنگ روم کی طرف گئے تو انھیں دیکھ کر ایک سپورٹ اسٹاف رکن نے دروازہ ایسے بند کیا جیسے کوئی ناراض پڑوسن کرتی ہے۔
تقریب تقسیم انعامات میں پاکستانی کپتان احتجاجاً نہیں گئے جبکہ انفرادی ایوارڈز لینے کیلیے ڈائریکٹر انٹرنیشنل پی سی بی عثمان واہلہ اور ٹیم منیجر نوید اکرم چیمہ نے شاہین آفریدی کوجانے کا کہہ دیا، انھیں زیادہ چھکوں کا ایوارڈ دیا گیا۔
بھارتی رویے کو اپنی بے عزتی قرار دیتے ہوئے کھلاڑیوں نے فیصلہ کیا تو وہ آئندہ بھی کسی انڈین پریزینٹر کو انٹرویو دیں گے نہ ایوارڈ لینے جائیں گے، اتنا بڑا واقعہ ہو گیا لیکن کافی دیر تک پی سی بی کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
چیئرمین محسن نقوی نے جب استفسار کیا تو انھیں مناسب جواب نہ ملا، انھوں نے فوری طور پر ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو ایشیا کپ سے ہٹانے کیلیے آئی سی سی کو خط لکھنے کی ہدایت دی، بعد ازاں سستی برتنے پر عثمان واہلہ کو معطل کر دیا گیا۔
اب یہ نہیں پتا کہ معطلی پکی یا کسی ایس ایچ او کی طرح دکھاوے کی ہے، اس تمام واقعے میں بھارت کا کردار بے حد منفی رہا،بھارتی حکومت پاکستان سے جنگ ہارنے اور6 جہاز تباہ ہونے کی وجہ سے سخت تنقید کی زد میں ہے۔
اس نے کرکٹ کی آڑ لے کر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی، نفرت کے عالمی چیمپئن بھارتیوں کی سوچ دیکھیں کہ ایک کھیل میں جیت پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جنگ میں ہار اور مسلسل جھوٹی باتیں کرنے پر اپنی حکومت سے استفسار نہیں کیا جا رہا، یہ معاملہ اب جلد ختم ہونے والا نہیں لگ رہا۔
پی سی بی نے سوچ لیا ہے کہ اگر پائی کرافٹ کو نہ ہٹایا گیا تو ٹیم ایشیا کپ کے بقیہ میچز سے دستبردار ہو جائے گی، میچ ریفری کا کام ڈسپلن کی پابندی کروانا ہوتا ہے ، وہ اکثر کھلاڑیوں کو غلطیوں پر سزائیں دیتا ہے، اب خود غلط کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہیے۔
پائی کرافٹ کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سلمان علی آغا سے کہتے کہ سوریا کمار یادیو سے ہاتھ نہ ملانا، شاید انھیں اس کی ہدایت ملی ہو گی، بطور ریفری یہ ان کا کام تھا کہ کرکٹ کی روایات پر عمل یقینی بناتے ، الٹا وہ خود پارٹی بن گئے۔
شاید آئی پی ایل میں کام ملنے کی لالچ یا کوئی اور وجہ ہو، میچ کے بعد بھی بھارتی کرکٹرز نے جب مصافحے سے گریز کیا تو ریفری خاموش تماشائی بنے رہے،پاکستان کو اب سخت اسٹینڈ لینا ہی ہوگا، البتہ آئی سی سی کے سربراہ جے شاہ ہیں، کیا وہ اپنے ملک بھارت کی سہولت کاری کرنے والے ریفری کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں گے؟
کھیل اقوام کو قریب لاتے ہیں لیکن موجودہ بھارتی حکومت ایسا چاہتی ہی نہیں ہے، اس لیے نفرت کے بیج مسلسل بوئے جارہے ہیں، کپتانوں کی میڈیا کانفرنس میں محسن نقوی اور سلمان علی آغا سے ہاتھ ملانے پر سوریا کمار کو غدار تک کا لقب مل گیا تھا۔
ایسے میں کھلاڑیوں نے آئندہ دور رہنے میں ہی عافیت سمجھی انھیں بھی اپنے بورڈ اور اسے حکومت سے ایسا کرنے کی ہدایت ملی ہوگی، جس ٹیم کا کوچ گوتم گمبھیر جیسا متعصب شخص ہو اس سے آپ خیر کی کیا امید رکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بھارتی کپتان نے پہلگام واقعے کا میچ کے بعد تقریب تقسیم انعامات میں ذکر کرتے ہوئے اپنی افواج کو خراج تحسین پیش کیا اسی پر ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، آئی سی سی نے سیاست کو کھیل میں لانے پر ماضی میں عثمان خواجہ کو نہیں چھوڑا تو اب اسے سوریا کیخلاف بھی ایکشن لینا ہوگا، پی سی بی کی دھمکی سیریس ہے۔
ریفری کو نہ ہٹایا گیا تو ایشیا کپ پاکستان کی عدم موجودگی میں دلچسپی سے محروم ہو جائے گا، اس کا منفی اثر آگے آنے والی کرکٹ پر بھی پڑے گا، بھارت کو ورلڈکپ کی میزبانی بھی کرناہے تب بھی اسے مسائل ہوں گے۔
اب یہ جے شاہ کیلیے ٹیسٹ کیس ہے دیکھنا ہوگا وہ کرتے کیا ہیں،البتہ ان سے کسی سخت فیصلے کی امید کم ہی ہے،ویسے ہمیں خود کو بھی بہتر بنانا ہوگا، اگر ٹیم کی کارکردگی اچھی ہوتی تو کیا بھارت ایسی حرکت کر سکتا تھا؟
ہمارے کھلاڑی خود مذاق کا نشانہ بن رہے ہیں، پی سی بی کو اس واقعے کے ساتھ ٹیم کی شرمناک کارکردگی بھی ذہن میں رکھنی چاہیے، پلیئرز کوئی فائٹ تو کرتے ، کسی کلب لیول کی ٹیم جیسی کارکردگی دکھائی، کیا پاکستان اب صرف عمان اور یو اے ای جیسے حریفوں کو ہرانے والی سائیڈ بن گئی ہے؟
آئی پی ایل سے بھارت کو جو ٹیلنٹ ملا وہ اس کے لیے انٹرنیشنل سطح پر پرفارم بھی کر رہا ہے،پی ایس ایل کا ٹیلنٹ کیوں عالمی سطح پر اچھا کھیل پیش نہیں کر پاتا؟ ہم نے معمولی کھلاڑیوں کو سپراسٹار بنا دیا۔
فہیم اشرف جیسوں کو ہم آل راؤنڈر کہتے ہیں، اسی لیے یہ حال ہے، بابر اور رضوان کو اسٹرائیک ریٹ کا کہہ کر ڈراپ کیا گیا،صرف بھارت سے میچ میں ڈاٹ بالز دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ کوئی فرق نہیں پڑا۔
بنیادی مسائل برقرار ہیں، اب ٹیمیں 300 رنز ٹی ٹوئنٹی میچ میں بنا رہی ہیں، ہم 100 رنز بھی بمشکل بنا پاتے ہیں، ہمارا اوپنر صفر پر متواتر آؤٹ ہو کر وکٹیں لینے میں کامیاب رہتا ہے اور سب سے اہم فاسٹ بولر کوئی وکٹ نہ لیتے ہوئے دوسرا بڑا اسکورر بن جاتا ہے۔
یہ ہو کیا رہا ہے؟ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ ختم ہو گیا یا باصلاحیت کرکٹرز کو مواقع نہیں مل رہے، بورڈ کو اس کا جائزہ لینا چاہیے، کہاں گئے وہ مینٹورز جو 50 لاکھ روپے ماہانہ لے کر ملک کو نیا ٹیلنٹ دینے کے دعوے کر رہے تھے، بھارت نے یقینی طور پر غلط کیا لیکن ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے کہ کرکٹ میں ہم کہاں جا رہے ہیں۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)