UrduPoint:
2025-06-09@12:59:44 GMT

غالب کی بیٹھک: وہ کیفے، جہاں چائے سے زیادہ شاعری چلتی ہے!

اشاعت کی تاریخ: 16th, February 2025 GMT

غالب کی بیٹھک: وہ کیفے، جہاں چائے سے زیادہ شاعری چلتی ہے!

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 فروری 2025ء) پاکستان کے شمال مغرب میں واقع گلگت شہر سے محض نو کلومیٹر کے فاصلے پر دینور کا خوبصورت شہر آباد ہے۔ مقامی صحافی رئیس سیفی شہر کے سماجی خد و خال واضح کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”دینور گلگت اور آس پاس کے شہروں کی نسبت زیادہ پُرامن ہے۔ دیگر شہروں میں کبھی کبھار فرقہ وارانہ کشیدگی سر اٹھاتی ہے لیکن دینور ایسے مسائل سے پاک ہے۔

یہاں صرف فقہ جعفریہ اور اسماعیلی برادری آباد ہے۔ دینور کا امن و امان مثالی ہے۔"

ثقافتی صورتحال کے بارے میں ان کا کہنا تھا، ”یہاں زیادہ تر شینا اور بروشسکی بولی جاتی ہے۔ تعلیم کا اچھا خاصہ رجحان ہے لیکن پبلک لائبریری یا کلچرل سرگرمیوں کے لیے کوئی مناسب جگہ موجود نہ تھی۔

(جاری ہے)

ہمارے شہر میں 'غالب کی بیٹھک‘ نے مقامی ادیبوں اور مطالعہ کے شوقین افراد کے مل بیٹھنے کے لیے ایک عمدہ بندوبست کیا، جو لائق تحسین ہے۔

" کتابوں کے شوقین نوجوان کو 'غالب کی بیٹھک‘ کا خیال کیسے آیا؟

محمد سلیم نے قراقرم یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کی۔ اسی دوران انہیں کتابوں کا 'چسکا‘ لگا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”تب میری کایا ہی پلٹ گئی۔ کتابیں پڑھتے ہوئے مجھے لگا ان سے زیادہ خوبصورت کچھ نہیں۔ فرصت ہی فرصت تھی، ہم کتابیں پڑھتے، ڈسکشن کرتے اور معاشرے کو بدلنے کے خواب دیکھتے۔

"

گریجویشن کے بعد محمد سلیم کتابوں کی صحبت اور فرصت کے لمحات مِس کرنے لگے۔ ان کے بقول، ”دینور میں اسکول اور کالجز گلگت سے زیادہ ہیں مگر کوئی پبلک لائبریری نہیں۔ میں دوستوں سے کہتا کہ مل کر کوئی کتب خانہ کھولتے ہیں۔ لیکن ہمارے کاسے میں خواب تھے سکے نہیں۔"

اب محمد سلیم کی زندگی میں کتابوں کی یاد اور روزگار کی تلاش ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

ایک دن دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہے تھے، ایک جگہ سے گزرے تو اس نے بتایا، ''یہاں جو ہوٹل تھا وہ بند ہو گیا، کیوں نا ہم کھول لیں؟‘‘

پہلے پہل سلیم کو لگا کیفے کھل گیا تو کتابیں اور ادب رہ جائے گا۔ بھائی اور دوستوں کے ساتھ مشاورت سے طے پایا کہ ہوٹل بناتے ہیں لیکن ماحول پاک ٹی ہاؤس جیسا ہو گا۔ یہ ہوٹل پڑھنے لکھنے والوں کی بیٹھک ہو گا۔

محمد سلیم بتاتے ہیں، ”مجھے شاعروں میں سب سے زیادہ غالب پسند تھا۔ میں نے کہا اسے غالب کے نام پر رکھیں گے اور یوں آغاز ہوا۔ ہماری دوست انیلہ سید لاہور سے آئیں اور انہوں نے آئیڈیا کے مطابق اسے بہت خوبصورتی سے ڈیزائن کیا۔ اسے آٹھ ماہ ہو چکے ہیں۔"

غالب کیفے میں جاری ادبی و ثقافتی سرگرمیاں

کیفے کی پیشانی پر 'غالب کی بیٹھک‘ کا بورڈ لگا ہے مگر اس کے اندر کیا چلتا ہے؟ کس طرح کی محفلیں سجتی ہیں؟

مقامی صحافی رئیس سیفی کہتے ہیں، ”یہ پلیٹ فارم ہے، جس میں صلاحیت ہے کہ کوئی بھی آئے اور دل جیت کر لے جائے۔

مثلاً کوئی نوجوان موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے، پہلے جگہ نہ تھی، اب غالب کیفے ہے، جس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔"

محمد سلیم کہتے ہیں، ”ہمارے پاس بڑا ہال ہے اور سب کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ کوئی بھی آئے، وہ اپنا پروگرام کرے، ہم کوئی فیس نہیں لیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مہینے میں ایک آدھ محفل موسیقی ہو جاتی ہے۔ کتاب کے حوالے سے کوئی تقریب ہو گئی، کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے۔

"

تفصیل شئیر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”کچھ دوست روزانہ شام کو اکٹھے ہوتے ہیں، گپ شپ ہو گئی، کتابوں کا تبادلہ کر لیا۔ ریگولر ماہانہ اسٹڈی سرکل ہوتا ہے، جس میں طے شدہ کتاب یا موضوع پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔"

رئیس سیفی کہتے ہیں، ”غالب کیفے نے مکالمے کا پلیٹ فارم مہیا کیا، جو اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ لوگ بات کرنا چاہتے ہیں، اپنا نقطہ نظر شیئر کرنا چاہتے ہیں۔

یہاں ہر طرح کا ذہن اکٹھا ہوتا اور مکالمہ کرتا ہے۔"

محمد حسین کیفے کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہاں دیسی اور فاسٹ فوڈ دونوں ہیں۔ ہم نے جگہ مختص کر رکھی ہے۔ مختلف افراد اور اداروں سے درخواست کر رہے ہیں کہ ہمیں کتابیں ڈونیٹ کی جائیں تاکہ اچھی لائبریری بن سکے۔ ہم اس کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے مسلسل بھاگ دوڑ میں لگے ہیں۔

" دینور کے نوجوان پہلے والی نسلوں سے کیسے مختلف؟

صدیق پراچہ کو ریڈیو سے وابستگی کے دوران گلگت اور دینور میں طویل عرصہ قیام کا موقع ملا اور اس حوالے سے ان کے مشاہدات ایک قومی روزنامے میں شائع ہو چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”گلگت اور دینور کی معیشت بدل رہی ہے۔ اب وہاں سب سے بڑا ذریعہ روزگار تجارت ہے۔

زراعت کے برعکس تجارت مختلف برادریوں سے میل ملاپ کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہے۔ اس سے دل و دماغ میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ دینور کی نوجوان نسل زیادہ کشادہ دل اور کھلی ڈلی ہے۔ وہ زندگی، ثقافت اور رسم و رواج کو روایتی انداز میں دیکھنے کے بجائے سوالیہ نظروں سے جانچتی ہے۔"

سیفی کہتے ہیں، ”نوجوان نسل اپنی شناخت کے بارے زیادہ حساس ہے۔

وہ اپنی زبان و ثقافت کی انفرادیت اور اہمیت پر زور دیتی ہے۔ انہیں اپنے حقوق کا زیادہ شعور ہے۔ وہ بھیڑ چال چلنے کے بجائے اپنی رائے بناتی اور پھر اسے آسانی سے تبدیل نہیں کرتی ہے۔"

اگر نوجوان نسل اپنی شناخت اور زبان کے معاملے میں زیادہ حساس ہے تو شینا اور بروشسکی بولنے والوں نے ایک اردو کے شاعر کا انتخاب کیوں کیا؟

محمد سلیم کہتے ہیں، ”یہ اہم سوال ہے لیکن آپ کو مقامی ماحول سمجھنا ہو گا۔

اگر ہم شینا کے کسی فنکار کے نام پر کیفے کھولتے تو بروشسکی والے مائنڈ کرتے، اگر بروشسکی کی تختی لگاتے تو شینا والے ناراض ہوتے۔ ہم چاہتے تھے کہ سب یہاں آئیں۔ یہ سب کا سانجھا پلیٹ فارم ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”غالب کی منڈلی جمتی تھی تو اس میں مولوی بھی ہوتے اور رند بھی، ہندو بھی اور مسلمان بھی۔ مکالمہ اسی چیز کا نام ہے کہ سب اپنی اپنی بات آزادی اور بلاخوف کہہ سکیں۔ اس کے لیے مرزا غالب سے بہتر کس کا نام ہو سکتا تھا؟"

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈی ڈبلیو اردو کرتے ہوئے محمد سلیم کہتے ہیں سے زیادہ کے لیے

پڑھیں:

نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے

قومی ٹیم کے نوجوان اوپنر صائم ایوب بھی اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر بول اُٹھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے یوٹیوب پر جاری کردہ خصوصی عید شو کے دوران گفتگو کرتے ہوئے جارح مزاج اوپنر صائم ایوب نے ہوسٹ محمد حارث کے ساتھ مزاحیہ واقعہ شیئر کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ 

بائیں ہاتھ کے بلےباز بتایا کہ انجری کے بعد قومی ٹیم اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں واپسی ہوئی تو فارم میں نہیں تھا، ایسے میں ایک میسج آیا، اس پیغام میں لکھا تھا کہ نو لُک شاٹ کی طرح کہیں نہ نظر آنے والا کھانا بھی کھارہے ہیں کیونکہ اب چھکے نہیں لگ رہے؟۔

مزید پڑھیں: وسیم اکرم کا مجسمہ دیکھ کر میمز کا طوفان اُمڈ آیا

صائم ایوب نے کہا کہ مجھے اس میسج پر غصہ نہیں آیا بلکہ خوب ہنسی آئی۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگ ہمیں محبت اور سپورٹ کرتے ہیں، انہیں فکر ہوتی ہے اور بات کرتے ہیں، اس لیے ایسی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُسے مثبت انداز میں لیتا ہوں۔ 

مزید پڑھیں: بابر، رضوان، شاہین کا مستقبل کیا؟ سابق کرکٹر نے بتادیا

جارح مزاج اوپنر نے کہا کہ میں نے اپنے نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید کو کبھی منفی انداز میں نہیں لیا، یہ لوگوں کے پیار دکھانے کا طریقہ ہے اور یہی اسٹورک میری انٹرنیشنل کرکٹ میں پہنچان کا سبب بھی بنا ہے۔
 

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی آئی ایم ایف کی حالیہ قسط کے اجرا میں کس نے رکاوٹ ڈالی؟وزیرخزانہ نے  قومی اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے بتا دیا
  • ن لیگ والے کہتے ہیں کہ جنگ کا ڈیزائن میاں صاحب نے بیٹھ کر بنایا ہے: پرویز الہیٰ
  • شکر ہے نون لیگی یہ نہیں کہتے علامہ اقبال والا خواب بھی نواز شریف نے دیکھا تھا، پرویز الہیٰ
  • ہر کوئی مان رہا ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری آچکی ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
  • ہماری فوج نے شہادتیں دے کر فتح حاصل کی، چوہدری پرویز الہیٰ
  • ن لیگی عوام کو نہیں بلکہ خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں، چوہدری پرویز الہٰی
  • نو لُک شاٹ پر ہونیوالی تنقید پر صائم بھی بول اُٹھے
  • آلائشیں اٹھانے کے حوالے سے صورتحال کنٹرول میں ہے، میئر کراچی
  • آلائشیں اٹھانے کے حوالے سے صورتحال کنٹرول میں ہے: میئر کراچی
  • ’’یہ وقت ہرچند کہ بہت نازک ہے مگر مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم اس پر غالب آئیں گے‘‘۔۔۔قائداعظمؒ کا پیغام عیدالاضحیٰ