Jasarat News:
2025-09-18@13:15:08 GMT

NTUFکے تحت سرمایہ دارانہ نظام اور مزدور مسائل پر سیمینار

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

NTUFکے تحت سرمایہ دارانہ نظام اور مزدور مسائل پر سیمینار

سرمایہ داری نے منافع کی ہوس میں زمین کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کرہ ارض پر زندگی کی بقا سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے۔ ہم دنیا پر نوع انسانی اور زندگی بچانے والی آخری نسل ہیں۔ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ وہ نعرہ سے جس کے بینر تلے ماحولیاتی تباہی کے خلاف بین الاقوامی جدوجہد فرض ہو گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور ڈاکٹر اصغر دشتی، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خصر اور مزدور رہنما ناصر منصور نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان (NTUF) کے زیر اہتمام مشکلات میں گھرا مزدور : سرمایہ داری ماحولیاتی تباہی اور استحصال کا منبع ” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیا جس کی صدارت نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان سندھ کے جنرل سیکرٹری ریاض عباسی کر رہے تھے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ صنعتی ریاستیں ماحولیاتی تباہی روکنے کے لیے سنجیدہ نہیں اور اب تک کے کیے گئے نیم دلانہ اقدامات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 2009 میں COP15 میں، ترقی یافتہ ممالک نے 2020 تک ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر دینے کے وعدہ کیا لیکن اس پر ابھی کے عمل درآمد نہیں ہو سکا جو ثابت کرتا رہا ہے کہ سی او پی پراسسس ایک دھوکہ ہے۔ اربوں انسانوں اور زندگی سے کھیلا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار ممالک ماحولیاتی جرائم کے ذمہ دار ہیں لیکن تیزی تباہی کا شکار ہوتے سیارہ کے بچاو کے لیے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے سے منکر ہو رہے ہیں۔ دنیا کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے بجائے ریاستیں اسلحہ پر نو فی صد اضافہ کے ساتھ دو اعشاریہ چار ٹریلین ڈالرز سالانہ کے حساب سے جھونکے جا رہے ہیں۔ شرم ناک صورت حال یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار فاسل فیول انڈسٹری کو 1.

5 ٹریلین ڈالرز کی سبسڈی دی جا رہی ہے جو کہ روس اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی جی ڈی پی کے مساوی ہے۔

خطرناک بات یہ ہے کہ سرمایہ داروں کی نمائندگی کرنے والی دائیں بازو کی عوام دشمن قوتیں کھل کر سامنے آ چکی ہیں، امریکہ میں ٹرمپ کا پیرس ایگریمنٹ سے نکلنے کا اعلان اور یورپی یونین میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا ڈیوڈیلیلیجنس لیجیسلیشن کو کمزور کرنا واضح کرتا ہے کہ دنیا کو ایک خطرناک ترین ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے۔ امریکا میں ٹرمپ اور یہاں تک کہ جرمنی کی گرین پارٹی فوجی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اپنے تجزیے کے مطابق، موسمیاتی شدت والے قدرتی آفات 2050 تک 12.5 ٹریلین ڈالر کے اقتصادی نقصان اور دو ارب سے زائد صحت مند زندگی کے سالوں کے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔

ماحولیاتی بحران محنت کشوں کے لیے معاشی ناہمواری اور صحت کی سہولیات تک دسترس کو ناممکن بنا رہاہے۔ آئی ایل او کے مطابق، 2030 تک ماحولیاتی تبدیلی کے باعث 80 ملین نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں، خاص طور پر شدید گرمی (ہیٹ ویوز) سے زراعت ، تعمیرات اور ٹیکسٹائل کے مزدور بری طرح متاثر ہوں گے۔
بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، کام کے دوران زیادہ درجہ حرارت کے باعث ہر سال تقریباً 23 ملین پیشہ ورانہ چوٹیں اور 18,970 اموات واقع ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، 2020 تک اندازاً 26.2 ملین افراد دائمی گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے، جو کام کے دوران شدید گرمی کے اثرات کا نتیجہ تھی۔

2050 تک صرف ہیٹ ویوز سے 7.1 ٹریلین ڈالر کا اقتصادی نقصان اور فضائی آلودگی سے سالانہ 9 ملین مزدوروں کو قبل از وقت اموات کا خطرہ ہے جب کہ ورلڈ اکنامک فورم کی اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگلے پچیس برسوں میں ماحولیاتی تبدیلی سے 14.5 ملین اموات اور 12.5 ٹریلین ڈالر کا عالمی اقتصادی نقصان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار ماحولیاتی تباہی سے بدترین متاثر ہونے والوں ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کے خطرناک نتائج سیلاب سے ہونے والی تباہی کی صورت میں دیکھے جا چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کے تقریباً تمام گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ 2000 سے 2019 کے درمیان تقریباً 200,000 گلیشیئرز (گرین لینڈ اور انٹارٹیکا کی برف کی پرت کے علاوہ) نمایاں طور پر کمزور ہو چکے ہیں، جس سے سمندری سطح میں اضافے میں بڑا حصہ شامل ہے۔گھلنے والی برف پچھلے 20 سالوں میں عالمی سمندری سطح میں 21 فیصد اضافے کا سبب بنی ہے۔ ہمالیہ اور سدرن اینڈیز سمیت کئی خطوں میں بھی گلیشیئر تیزی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

ہمارے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور خیبرپختونخواہ میں 7,000 سے زائد گلیشیئرز ہیں، جن میں کچھ دنیا کے بڑے گلیشیئرز میں شامل ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں 3,044 جھیلیں بن چکی ہیں، جن میں سے 33 کی سطح خطرناک حد تک بلند ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں جس کے نتیجے میں اکہتر لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاص مقدار میں پانی سمندر میں نہ جانے کے بجائے سندھ کے ساحلی علاقوں کی 22 لاکھ ہیکڑ (54 لاکھ ایکڑ) سے زائد زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک سو ایکڑزمین روزانہ کے حساب سے سمندر نگل رہا ہے اب مزید کینال بنا کر پانی روکنے سے صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔
ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے ایک بین الاقوامی تحریک کی ضرورت ہے یہ کسی ایک خطے یا ریاست کے عوام اکیلے نہیں جیت سکتے۔ پاکستان کے محنت کش عوام کو ماحولیاتی تبدیلی کی تحریک کا متحرک حصہ بننا چاہیے تاکہ سرمایہ داری کے ہاتھوں مدر ارتھ کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی سرمایہ داری ٹریلین ڈالر کے مطابق رہے ہیں

پڑھیں:

ٹرمپ مودی بھائی بھائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پولینڈ کی پاکستان میں 100 ملین ڈالر کی تیل و گیس سرمایہ کاری متوقع
  • علیمہ خان پر انڈہ پھینکنے، عمران خان کے جیل مسائل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • بھارت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ، دو قومی نظریئے کی اہمیت مزید بڑھ گئی: عطا تارڑ
  • بھارت کا غیر ذمے دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا، عطا تارڑ
  • چھبیس ستمبر تک پلاٹوں کی قرعہ اندازی نہ کی گئی تو مزدور یونین احتجاجی تحریک کا آغاز کرے گی: چوہدری محمد یٰسین
  • بھارت کا غیر ذمے دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا: عطا تارڑ
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی
  • ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے 300 یومیہ منصوبہ