NTUFکے تحت سرمایہ دارانہ نظام اور مزدور مسائل پر سیمینار
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
سرمایہ داری نے منافع کی ہوس میں زمین کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کرہ ارض پر زندگی کی بقا سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے۔ ہم دنیا پر نوع انسانی اور زندگی بچانے والی آخری نسل ہیں۔ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ وہ نعرہ سے جس کے بینر تلے ماحولیاتی تباہی کے خلاف بین الاقوامی جدوجہد فرض ہو گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف دانشور ڈاکٹر اصغر دشتی، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خصر اور مزدور رہنما ناصر منصور نے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان (NTUF) کے زیر اہتمام مشکلات میں گھرا مزدور : سرمایہ داری ماحولیاتی تباہی اور استحصال کا منبع ” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کیا جس کی صدارت نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان سندھ کے جنرل سیکرٹری ریاض عباسی کر رہے تھے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ صنعتی ریاستیں ماحولیاتی تباہی روکنے کے لیے سنجیدہ نہیں اور اب تک کے کیے گئے نیم دلانہ اقدامات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 2009 میں COP15 میں، ترقی یافتہ ممالک نے 2020 تک ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر دینے کے وعدہ کیا لیکن اس پر ابھی کے عمل درآمد نہیں ہو سکا جو ثابت کرتا رہا ہے کہ سی او پی پراسسس ایک دھوکہ ہے۔ اربوں انسانوں اور زندگی سے کھیلا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار ممالک ماحولیاتی جرائم کے ذمہ دار ہیں لیکن تیزی تباہی کا شکار ہوتے سیارہ کے بچاو کے لیے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے سے منکر ہو رہے ہیں۔ دنیا کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے بجائے ریاستیں اسلحہ پر نو فی صد اضافہ کے ساتھ دو اعشاریہ چار ٹریلین ڈالرز سالانہ کے حساب سے جھونکے جا رہے ہیں۔ شرم ناک صورت حال یہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار فاسل فیول انڈسٹری کو 1.
خطرناک بات یہ ہے کہ سرمایہ داروں کی نمائندگی کرنے والی دائیں بازو کی عوام دشمن قوتیں کھل کر سامنے آ چکی ہیں، امریکہ میں ٹرمپ کا پیرس ایگریمنٹ سے نکلنے کا اعلان اور یورپی یونین میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا ڈیوڈیلیلیجنس لیجیسلیشن کو کمزور کرنا واضح کرتا ہے کہ دنیا کو ایک خطرناک ترین ماحولیاتی تباہی کا سامنا ہے۔ امریکا میں ٹرمپ اور یہاں تک کہ جرمنی کی گرین پارٹی فوجی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اپنے تجزیے کے مطابق، موسمیاتی شدت والے قدرتی آفات 2050 تک 12.5 ٹریلین ڈالر کے اقتصادی نقصان اور دو ارب سے زائد صحت مند زندگی کے سالوں کے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔
ماحولیاتی بحران محنت کشوں کے لیے معاشی ناہمواری اور صحت کی سہولیات تک دسترس کو ناممکن بنا رہاہے۔ آئی ایل او کے مطابق، 2030 تک ماحولیاتی تبدیلی کے باعث 80 ملین نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں، خاص طور پر شدید گرمی (ہیٹ ویوز) سے زراعت ، تعمیرات اور ٹیکسٹائل کے مزدور بری طرح متاثر ہوں گے۔
بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق، کام کے دوران زیادہ درجہ حرارت کے باعث ہر سال تقریباً 23 ملین پیشہ ورانہ چوٹیں اور 18,970 اموات واقع ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، 2020 تک اندازاً 26.2 ملین افراد دائمی گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے، جو کام کے دوران شدید گرمی کے اثرات کا نتیجہ تھی۔
2050 تک صرف ہیٹ ویوز سے 7.1 ٹریلین ڈالر کا اقتصادی نقصان اور فضائی آلودگی سے سالانہ 9 ملین مزدوروں کو قبل از وقت اموات کا خطرہ ہے جب کہ ورلڈ اکنامک فورم کی اپنی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگلے پچیس برسوں میں ماحولیاتی تبدیلی سے 14.5 ملین اموات اور 12.5 ٹریلین ڈالر کا عالمی اقتصادی نقصان ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار ماحولیاتی تباہی سے بدترین متاثر ہونے والوں ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کے خطرناک نتائج سیلاب سے ہونے والی تباہی کی صورت میں دیکھے جا چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے دنیا کے تقریباً تمام گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ 2000 سے 2019 کے درمیان تقریباً 200,000 گلیشیئرز (گرین لینڈ اور انٹارٹیکا کی برف کی پرت کے علاوہ) نمایاں طور پر کمزور ہو چکے ہیں، جس سے سمندری سطح میں اضافے میں بڑا حصہ شامل ہے۔گھلنے والی برف پچھلے 20 سالوں میں عالمی سمندری سطح میں 21 فیصد اضافے کا سبب بنی ہے۔ ہمالیہ اور سدرن اینڈیز سمیت کئی خطوں میں بھی گلیشیئر تیزی سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
ہمارے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور خیبرپختونخواہ میں 7,000 سے زائد گلیشیئرز ہیں، جن میں کچھ دنیا کے بڑے گلیشیئرز میں شامل ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں 3,044 جھیلیں بن چکی ہیں، جن میں سے 33 کی سطح خطرناک حد تک بلند ہے اور کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں جس کے نتیجے میں اکہتر لاکھ افراد کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خاص مقدار میں پانی سمندر میں نہ جانے کے بجائے سندھ کے ساحلی علاقوں کی 22 لاکھ ہیکڑ (54 لاکھ ایکڑ) سے زائد زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے، ایک اندازے کے مطابق ایک سو ایکڑزمین روزانہ کے حساب سے سمندر نگل رہا ہے اب مزید کینال بنا کر پانی روکنے سے صورت حال مزید خراب ہو جائے گی۔
ماحولیاتی تباہی سے بچنے کے لیے ایک بین الاقوامی تحریک کی ضرورت ہے یہ کسی ایک خطے یا ریاست کے عوام اکیلے نہیں جیت سکتے۔ پاکستان کے محنت کش عوام کو ماحولیاتی تبدیلی کی تحریک کا متحرک حصہ بننا چاہیے تاکہ سرمایہ داری کے ہاتھوں مدر ارتھ کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ماحولیاتی تبدیلی سرمایہ داری ٹریلین ڈالر کے مطابق رہے ہیں
پڑھیں:
بھارت سے تمام مسائل کا حل کشمیر سے ہو کر نکلتا ہے، پانی پر سمجھوتا نہیں ہوگا، بلاول بھٹو
غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے، پاکستان نے بھارتی جارحیت کی مذمت کی، بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بھارت سے تمام مسائل کا حل کشمیر سے ہو کر نکلتا ہے، پانی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ غیر ملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے، پاکستان نے بھارتی جارحیت کی مذمت کی، بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ پانی روکنا اعلان جنگ تصور ہوگا، پانی ہماری ناگزیر ضرورت ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کو معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے، پاکستان نے ہمیشہ مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے مسائل کے حل کی بات کی، بھارت مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہے، بھارت نے بغیر شواہد پہلگام واقعہ کا الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔
بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ پاکستان کشمیر اور پانی سمیت دیگر امور پر بات چیت چاہتا ہے، تمام مسائل کا حل کشمیر سے ہو کر نکلتا ہے، پاکستان اور بھارت میں سیز فائر ہوا، امن نہیں ہوا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگ بندی کے حوالے سے کردار لائق تحسین ہے۔