پاکستان سول ایوی ایشن انڈسٹری ایک بار پھر کراس روڈ پر
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
ٹھیک 13 برس قبل 2013 میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ سے منظوری کے بعد ایک نیا ایوی ایشن ڈویژن قائم کیا، اور اپنے قریبی ساتھی طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم کو اس کا مشیر بنا دیا۔
ایوی ایشن ڈویژن قائم کرتے ہوئے نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ نئے ایوی ایشن ڈویژن کی وزارت دفاع سے علیحدگی یقینی طور پر ملک میں شہری ہوا بازی کی سرگرمیوں کو بہتر بنائے گی، اور بین الاقوامی شہری ہوا باڑی (ICAO) کی تنظیم کے ساتھ ساتھ بہتر رابطے رہیں گے، جس سے پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری دنیا سے مقابلہ کرے گی۔
تاہم ڈیفنس سے ایوی ایشن کو الگ کرنے کی مبینہ بنیادی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سول ایوی ایشن کی بین الاقوامی تنظیم ICAO نے کئی بار ایوی ایشن کی سرگرمیوں کی آزادی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریبا 13 سال بعد گزشتہ ماہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی پی آئی اے اور اے ایس ایف کو ایک بار پھر وزارت دفاع میں ضم کر دیا۔
ان کے مطابق اس طرح سول ایوی ایشن کی سرگرمیوں کو ترقی دی جا سکے گی اور اسے عالمی معیار کی ہوا بازی کی سرگرمیاں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ہدایات کے مطابق بنایا جا سکے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ انھوں نے ابھی تک اپنا من پسند مشیر نہیں لگایا۔
ایوی ایشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مبصر علی کہتے ھیں کہ “پتہ نہیں کون صحیح ہے اور کون غلط؟ نواز ہو یا شہباز؟ لیکن ایوی ایشن انڈسٹری کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، وہ بہت عجیب ہے۔
علی مزید کہتے ہیں کہ ایوی ایشن کو فٹ بال کی طرح نہیں بنانا چاھیے، کیوں کہ یہ ایک بہت اہم صنعت ہے اور سول ایوی ایشن کی دنیا میں اسے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ہم دنیا کے لیے مذاق نہ بن جائیں”۔
یاد رہے کہ موجودہ ایوی ایشن شروع سے ہی منسٹری آف ڈیفنس کا ایک منسلک ڈپارٹمنٹ تھا۔ تاہم مرحوم صدر ضیا الحق نے 1982 کے آرڈیننس 30 کے ذریعے وزارت دفاع کے تحت پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے نام سے ایک خود مختار اتھارٹی قائم کی اور اپنے قریبی ساتھی ریٹائرڈ ائر مارشل خورشید انور مرزا کو پہلا سربراہ بنا دیا۔
جنرل ضیاء اسے دفاع سے الگ کرنا چاہتے تھے، لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ ایم غلام اسحاق خان نے نہ صرف علیحدہ خود مختار اتھارٹی کی شدید مخالفت کی اور اس کو مستتقبل کا “سفید ھاتھی” کا لقب دیا، بلکہ وزارت دفاع سے علیحدگی کے بھی خلاف تھے۔ اسی وجہ سے اتھارٹی تو بن گئی، مگر اسحاق خان کی ضد کی وجہ سے اس کو وزارت دفاع کے ماتحت رہنے دیا۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سول ایوی ایشن کا بنیادی مقصد سول ہوائی جہازوں کے محفوظ، موثر اور منظم آپریشن کو یقینی بنانا ہے، ساتھ ہی ساتھ ہوائی نقل و حمل کی ترقی کو بھی فروغ دینا، عوام کو خدمات فراہم کرنا اور بین الاقوامی شہری ہوا بازی کی تنظیم ICAO کے بنائے ہوے اصولوں اور قوانین پر عمل درآمد کرنا شامل ھے۔
ابھی تک موجودہ حکومت کے اس اہم فیصلے کی اصل وجہ کا علم نہیں، مگر ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق سینیر آفسر تیمور کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے دونوں ونگز (پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی)، پی آئی اے اور اے ایس ایف کو ایوی ایشن ڈویژن سے نکالنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔
جن میں کو آرڈینیشن کا فقدان اور مبینہ اختیارات کا ناجائز استعمال اور مبینہ بدانتظامی کی رپورٹس شامل ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ادارے شتر بے مہار ہو چکے ہیں اور سیاسی مداخلت عروج پر ہے، جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اب ان اداروں کو صرف ڈسپلن فورس ہی کنٹرول کرسکتی ہے۔
ادھر سلک روڈز پاکستان ٹریول کے سی ای او محمد معید الرحمان کہتےھیں کہ “دراصل پاکستان میں سول ایوی ایشن سے منسلک اداروں یا انڈسٹری کو وزارت دفاع کے تحت رکھنا دنیا میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں جنہوں نے پہلے ہی سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع کے تحت بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر رکھا ھوا ہے،
محمد معید الرحمان کے مطابق ان ممالک کی ایوی ایشن انڈسٹری دیگر سول تنظیموں کے مقابلے میں بہتر چل رہی ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ ممالک ایوی ایشن کو آزادانہ کام کا موقع دیتے ہیں۔
معید الرحمان کے مطابق پاکستان میں ایوی ایشن انڈسٹری کو کبھی بھی آزاد نہیں رہنے دیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ کیا اس کو کیا آزادانہ اور بغیر کسی خوف سے کام کرنے دیا جائے گا یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو پھر نفع سے نقصان کا اندیشہ ھے”۔
یہاں ایک بات اہم ہے کہ پاکستان کے علاوہ کئی ممالک کی ایوی ایشن بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر دفاع کے ماتحت رہنے دیا گیا ہے، ان ممالک میں اسرائیل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر ترکیہ اور ایران بھی شامل ھیں۔
امریکہ کی FAA بھی ایک لحاظ سے دفاع کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اور یہ true professionalism کے تحت کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شہری ہوا بازی کے یہ ادارے کیا وزارت دفاع کے تحت بہتر کام کر سکتے ہیں یا آزاد حثیت میں وزارت ہوا بازی کے تحت زیادہ اچھے طریقے سے کام کریں گے؟
ایوی ایشن اُمور کے ماہر سئنیر صحافی طارق ابو الحسن کہتے ہیں کہ نا تو پہلے ایوی ایشن کے شعبہ کو وزارت دفاع سے نکال کر وزارت ہوا بازی قائم کرنا اور نا ہی اب وزارت ہوا بازی ختم کر کے اسے واپس وزارت دفاع میں ضم کرنے کا فیصلہ پاکستان اور پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔
لگتا ہے کہ جمہوری دور میں یہ کام سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا گیا، جبکہ ماضی کے فوجی دور یا موجودہ ہائبریڈ جمہوریت میں یہ کام اداروں پر بالادستی اور کنٹرول رکھنے کیلئے ہوا۔
یہی وجہ کہ آج 25 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان کے ہوائی اڈے پاکستانی ائیرلائنز کے بجائے غیر ملکی خصوصا خلیجی ریاستوں کی ائیرلائنز کیلئے کہیں زیادہ منافع بخش ہیں۔
باقی ایوی ایشن کے شعبہ میں کرپشن اور قومی مفاد کے خلاف فیصلے تو دونوں وزارتوں میں خوب ہوئے۔ دیکھیے ایک بہت بنیادی اصول ہے کہ جو ادارہ جس کام کیلئے بنا ہے، وہ صرف اپنا مخصوص کام کرے، دوسروں کے کام میں دخل نہ دے۔ ادارے ہوں یا ملک دونوں آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔
تاہم دیگر مبصرین کہتے ہیں کہ یہ بات تو طے ہے کہ سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع کے تحت رکھنے کے ممکنہ فوائد بھی ہیں، مثلا
وزارت دفاع ہوائی اڈوں اور ہوائی مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اضافی سیکورٹی، وسائل اور مہارت فراہم کر سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام بہتر انٹیلی جنس شیئرنگ کو آسان بنا سکتا ہے، جس سے سیکیورٹی کے ممکنہ خطرات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے تحت ایک متحد کمانڈ کا ڈھانچہ ہنگامی حالات میں فیصلہ سازی اور ردعمل کے اوقات کو ہموار کر سکتا ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ریگولیٹری فریم ورک کو آسان بنا سکتا ہے، بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کر کے اور کارکردگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ معاشی فوائد وزارت دفاع کی شمولیت سے ہوا بازی کے شعبے میں خاص طور پر ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے اور ہوائی جہاز کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ایوی ایشن سیکیورٹی، ایئر ٹریفک کنٹرول اور ہوائی جہاز کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرسکتا ہے۔ اسٹریٹجک فوائد وزارت دفاع شہری ہوا بازی کے شعبے کو قومی سلامتی اور اقتصادی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور سمت فراہم کر سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ہنگامی ردعمل کی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے، قدرتی آفات، حادثات یا سیکیورٹی کے واقعات کے لیے زیادہ موثر ردعمل کو یقینی بناتا ہے۔ وزارت دفاع شہری ہوا بازی کے شعبے کی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت تک رسائی فراہم کر سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ایوی ایشن سیکیورٹی، ایئر ٹریفک مینجمنٹ اور ہوائی جہاز کے ڈیزائن جیسے شعبوں میں تحقیق اور ترقی کو آسان بنا سکتا ہے۔تاھم اس میں خطرہ یہ ہے کے پاکستان کی سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع کے ساتھ ضم کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO) اور دیگر بین الاقوامی ہوا بازی تنظیمیں تشویش کا اظہار نہ کر دیں۔ اس کے علاوعہ ICAO ہمیشہ سے سول اور ملٹری ایوی ایشن اتھارٹیز کو الگ کرنے کی اہمیت پر زور دیتا رھا ھے۔
وزارت دفاع کے ساتھ انضمام سے اس کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ICAO کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ شہری ہوا بازی کے حکام غیر جانبدار اور خود مختار ہوں۔ وزارت دفاع کے ساتھ انضمام اس غیر جانبداری پر سمجھوتہ کر سکتا ہے۔
اسی طرح انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) ہوائی نقل و حمل کے آپریشنز، حفاظت اور سلامتی پر ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار بھی کر سکتا ہے۔ جبکہ فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) پاکستان کی ایوی ایشن سیفٹی ریٹنگ کا از سر نو جائزہ لے سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر امریکا کے ساتھ ملک کے ہوائی نقل و حمل کے آپریشنز کو متاثر کر سکتا ہے۔
یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) EASA پاکستان کے ایوی ایشن سیفٹی کے معیارات کا جائزہ لے سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر یورپی ممالک کے ساتھ ملک کے ہوائی نقل و حمل کے آپریشنز کو متاثر کر سکتا ہے۔
اس فیصلے سے پاکستان کو ممکنہ نتائج کا سامنا بھی کرنا بھی پڑ سکتا ہے۔ جن میں
.
. ICAO یا دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے منفی تشخیص پاکستان کی ایوی ایشن سیفٹی ریٹنگ کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
. یورپی ممالک حفاظت اور سلامتی سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی ایئر لائنز کی پروازوں پر کچھ پابندیاں بھی لگا سکتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کی سول ایوی ایشن کو بین الاقوامی فورمز میں شرکت کرنے اور ہوا بازی کے معاملات پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں وزارت دفاع کو انتہائی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑے گا، کیو نکہ ایک غلط قدم ایوی ایشن انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، کیونکہ سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی غیر ذمہ دارانہ تقریر پر برطانیہ EU اور امریکا میں ہماری پروازوں پر پابندی عائد ہونے پر پاکستان پہلے ہی بہت زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کی ایوی ایشن ایوی ایشن انڈسٹری وزارت دفاع کے تحت کو وزارت دفاع کے شہری ہوا بازی کے سول ایوی ایشن کو ہوائی نقل و حمل بین الاقوامی ایوی ایشن کی پاکستان کے کر سکتا ہے اور ہوائی کے مطابق فراہم کر یہ ہے کہ اور ہوا سکتی ہے دفاع سے کے لیے کام کر
پڑھیں:
’اسلام کا دفاع‘
ہم جس فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسے دینی و سیاسی رہبری کے لیے ایک عدد شیخ الاسلام، ایک ہی مفکر اسلام اور ایک قائد ملت اسلامیہ خدمات میسر ہیں۔ یہ ان بزرگوں کی خدمت کی برکت ہے کہ مسلم دنیا پر 500 سال سے جاری زوال کا ہمارے مکتب فکر پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں دین ترقی پر ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ چندہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا دینی جوش بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام، مفکر اسلام اور قائد ملت اسلامیہ کو دینی و اخلاقی لحاظ سے جو بھی بے راہ روی نظر آتی ہے اپنے مکتب فکر کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں ساری نصیحتیں ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ بھی گھر سے باہر والوں کو کرنی پڑتی ہے۔
منبر رسول ہو، مضمون ہو یا ٹویٹ۔ ہر جگہ ان کی تلقین صرف باہر والوں کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے دور سے متعلق مشہور ہے کہ شہری مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہوگئے تھے کہ امراء زکوۃ ہاتھ میں لئے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق زکوٰۃ نہ ملتا، جسے دے کر زکوٰۃ کا فریضہ ادا ہوپاتا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا ہمارے بزرگوں کو یوں سامنا ہے کہ انہیں اپنے مکتب فکر کے اندر کوئی ’مستحق اصلاح‘ نہیں ملتا تاکہ یہ اصلاح کا آغاز گھر سے کرسکیں۔ یوں انہیں اپنے وعظ کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے دور پار دیکھنا پڑتا ہے۔
اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہمارے بہت ہی مہربان مفتی منیب الرحمان اور مفتی محمد اکمل صاحب کو روز اپنوں کو ہی تلقین کرنی پڑتی ہے۔ کبھی وہ انہیں قبروں پر سجدوں سے روکتے ہیں، کبھی نعت خوانی کے نام پر ’شوبز‘ کے جملہ تقاضے پورے کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی دیگر بہت سی خرافات پر انہیں اپنوں کا ہی شدید لب و لہجے میں محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ ان کا تو ’خانہ‘ ہی خراب ہے۔ سو ان بزرگوں کے پاس اس باطل کی سرکوبی کے لیے وقت ہی بہت تھوڑا بچتا ہے جو ان کے مکتب فکر کی چار دیواری کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
لگ بھگ 30 برس ہونے کو ہیں جب شیطان نے ہمیں گمراہ کیا اور ہم سے پہلی بار یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ اپنوں کو ہی تلقین کر ڈالی۔ یہ گناہ ہم سے ’علماء الریال‘ کے عنوان سے سرزد ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارے بزرگوں کا دل ہی بیٹھ گیا کہ اپنے ہی گھر میں ایک فتنہ پیدا ہوگیا جو اس طرح کے بیہودہ کالم لکھتا ہے؟ سو ان میں سے جن پر اللہ کی رحمانی صفت کا غلبہ تھا، انہوں نے پاس بلا کر دو باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پہلی یہ کہ ’تم بچے ہو‘ اور دوسری یہ کہ گھر کی باتیں باہر نہیں کی جاتیں۔ باہر صرف باہر والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اور جن بزگوں پر اللہ کی جباری صفت کا غلبہ تھا انہوں نے تو جو منہ میں آیا ہمیں سنا ڈالا۔ اب آپ کہیں گے کہ بتایئے تو سہی کیا سنا ڈالا تھا؟ تو آپ کے جھانسے میں آکر ہم کالم باؤنس کروا دیں؟ بس اتنا جان لیجیے کہ وہی الفاظ تھے جن کے استعمال پر 2 یہودی سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ اڑا دیتے ہیں۔
عربی کی کہاوت ہے کہ انسان اس چیز میں زیادہ حرص محسوس کرتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ سو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جلد وہ وقت آیا جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ تب ہمارے بزرگوں کا مؤقف بنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنوں کے دور میں گھر دبک جایا کرو۔ یوں ہمارے بزرگ دبک لیے۔ وہ اللہ والے تھے، فتنوں کا سامنا کرنے سے ان کےدامنِ ولایت پر چھنٹے پڑ سکتے تھے۔ ہمارا تو دامن پہلے سے ہی داغدار تھا، سو فتنوں کو چیلنج کرنے کا ذمہ ہم نے ہی لے لیا۔ صرف فتنوں کو ہی چیلنج نہ کیا بلکہ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا جو گھروں میں دبک لیے تھے۔ یوں پر ہم پر علماء کا گستاخ ہونے کی الہامی مہر بھی ثبت ہوگئی۔ سنا ہے ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ایسے بزرگ ہوا کرتے جس کا حوالہ شاملی کا میدان تھا۔ ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر اپنے حصے میں تو صرف شملے آئے ہیں۔ وہ شملے جنہیں ہم سے زیادہ میمن سیٹھ جانتے ہیں۔
کسی میمن سیٹھ کے پاس ایک پریشان حال شملہ پہنچا اور فرمایا ’اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے، احقر اس کا سد باب کرنا چاہتا ہے مگر وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کمانے کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے پاس بس اس دعا کی درخواست کے لیے آیا ہوں کہ اللہ وسائل کا انتظام فرما دیں‘۔
میمن سیٹھ پریشان کہ اس کی کیا اوقات کہ شملے کو دعا دے؟ سو اس نے شملے کو بھی اپنی اس سوچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت ہماری کیا اوقات کہ آپ کو دعا دیں؟ جواب آیا ’نیک تاجر اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی دعائیں خوب قبول کرتا ہے‘۔
میمن ویسے تو بڑے معصوم ہوتے ہیں مگر جب معاملہ پیسے کا ہو تو پھر رمز بھی ان کے آگے رمز نہیں رہتا، سو اس نے موٹی سی رقم ادا کرتے ہوئے کہا
’تاجر کے پاس 2 ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک مال تجارت اور دوسری اس کی کمائی۔ کمائی میں سے معمولی سا حاضر ہے، دعائیں کسی اور سے لے لیجیے گا‘۔
کچھ دن بعد وہی شملہ کسی تقریب میں ملا تو سلام دعا کے بعد سیٹھ سے ان کا حال پوچھ لیا۔ سیٹھ نے کہ ’ہمارا حال چھوڑیے حضرت، یہ بتایئےاسلام کا کیا حال ہے؟‘
حضرت نے خوشخبری سنا دی کہ ان کے دیے مال سے اسلام کا حال اچھا ہے۔ یہ میمن شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم سے کہنے لگے
’اسلام کب خطرے میں ہوتا ہے اور کب مامون، اس کا اپن سے زیادہ کسی کو پتا نہیں‘۔
ہم نے درخواست کردی کہ اس راز میں ہمیں بھی شریک فرما لیجیے۔ فرمایا
مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘
’رمضان سے ایک 2 ہفتے قبل اپن کو وٹس ایپ کے ذریعے یاد دہانی کرادی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ رمضان آتے ہی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جو عید کے تیسرے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اسلام مامون ہوجاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ چندہ مانگنے والوں کی گاڑی کے ماڈل بدل جاتے ہیں۔ گاڑی تو بندہ امن والے دنوں میں ہی خرید سکتا ہے، خطرات والے ایام بھی بھلا کوئی گاڑی کی خریداری کرسکتا ہے؟ اس کے بعد سال کے وسط میں جاکر اسلام کو تھوڑا سا خطرہ پھر سے لاحق ہوتا ہے۔ اس بار جب اسلام خطرے سے باہر نکلتا ہے تو چندہ مانگنے والوں کی اولاد کے سیل فون بھی بدل جاتے ہیں‘۔
وہ کہتے، اور ہم مسکراتے جا رہے تھے، جس کا غلط نتیجہ اخذ کرکے دریافت فرمایا
’آپ کو میری بات کا یقین نہیں؟‘
ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کر آگاہ کیا کہ اسلام کو لاحق خطرات تو اب اتنی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ دفاع کے لیے فرخ کھوکھر کی خدمات لینی بھی واجب ہوگئیں۔ سنا ہے چھوٹے کھوکھر نے کسی اپنے جیسے دوسرے ’سماجی رہنما‘ کو اسلامی میں 5 کروڑ دیے تھے۔ تو سوچیے اسلام کے دفاع کے لیے وہ کیا کچھ نہیں دے گا۔ این سعادت بزور تعویذ نیست !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں