پاکستان سول ایوی ایشن انڈسٹری ایک بار پھر کراس روڈ پر
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
ٹھیک 13 برس قبل 2013 میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کابینہ سے منظوری کے بعد ایک نیا ایوی ایشن ڈویژن قائم کیا، اور اپنے قریبی ساتھی طارق عظیم کے بھائی شجاعت عظیم کو اس کا مشیر بنا دیا۔
ایوی ایشن ڈویژن قائم کرتے ہوئے نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ نئے ایوی ایشن ڈویژن کی وزارت دفاع سے علیحدگی یقینی طور پر ملک میں شہری ہوا بازی کی سرگرمیوں کو بہتر بنائے گی، اور بین الاقوامی شہری ہوا باڑی (ICAO) کی تنظیم کے ساتھ ساتھ بہتر رابطے رہیں گے، جس سے پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری دنیا سے مقابلہ کرے گی۔
تاہم ڈیفنس سے ایوی ایشن کو الگ کرنے کی مبینہ بنیادی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سول ایوی ایشن کی بین الاقوامی تنظیم ICAO نے کئی بار ایوی ایشن کی سرگرمیوں کی آزادی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریبا 13 سال بعد گزشتہ ماہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی کے فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی پی آئی اے اور اے ایس ایف کو ایک بار پھر وزارت دفاع میں ضم کر دیا۔
ان کے مطابق اس طرح سول ایوی ایشن کی سرگرمیوں کو ترقی دی جا سکے گی اور اسے عالمی معیار کی ہوا بازی کی سرگرمیاں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی ہدایات کے مطابق بنایا جا سکے گا۔ فرق صرف یہ ہے کہ انھوں نے ابھی تک اپنا من پسند مشیر نہیں لگایا۔
ایوی ایشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے مبصر علی کہتے ھیں کہ “پتہ نہیں کون صحیح ہے اور کون غلط؟ نواز ہو یا شہباز؟ لیکن ایوی ایشن انڈسٹری کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے، وہ بہت عجیب ہے۔
علی مزید کہتے ہیں کہ ایوی ایشن کو فٹ بال کی طرح نہیں بنانا چاھیے، کیوں کہ یہ ایک بہت اہم صنعت ہے اور سول ایوی ایشن کی دنیا میں اسے ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ہم دنیا کے لیے مذاق نہ بن جائیں”۔
یاد رہے کہ موجودہ ایوی ایشن شروع سے ہی منسٹری آف ڈیفنس کا ایک منسلک ڈپارٹمنٹ تھا۔ تاہم مرحوم صدر ضیا الحق نے 1982 کے آرڈیننس 30 کے ذریعے وزارت دفاع کے تحت پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے نام سے ایک خود مختار اتھارٹی قائم کی اور اپنے قریبی ساتھی ریٹائرڈ ائر مارشل خورشید انور مرزا کو پہلا سربراہ بنا دیا۔
جنرل ضیاء اسے دفاع سے الگ کرنا چاہتے تھے، لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ ایم غلام اسحاق خان نے نہ صرف علیحدہ خود مختار اتھارٹی کی شدید مخالفت کی اور اس کو مستتقبل کا “سفید ھاتھی” کا لقب دیا، بلکہ وزارت دفاع سے علیحدگی کے بھی خلاف تھے۔ اسی وجہ سے اتھارٹی تو بن گئی، مگر اسحاق خان کی ضد کی وجہ سے اس کو وزارت دفاع کے ماتحت رہنے دیا۔
قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ سول ایوی ایشن کا بنیادی مقصد سول ہوائی جہازوں کے محفوظ، موثر اور منظم آپریشن کو یقینی بنانا ہے، ساتھ ہی ساتھ ہوائی نقل و حمل کی ترقی کو بھی فروغ دینا، عوام کو خدمات فراہم کرنا اور بین الاقوامی شہری ہوا بازی کی تنظیم ICAO کے بنائے ہوے اصولوں اور قوانین پر عمل درآمد کرنا شامل ھے۔
ابھی تک موجودہ حکومت کے اس اہم فیصلے کی اصل وجہ کا علم نہیں، مگر ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق سینیر آفسر تیمور کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے دونوں ونگز (پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی)، پی آئی اے اور اے ایس ایف کو ایوی ایشن ڈویژن سے نکالنے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔
جن میں کو آرڈینیشن کا فقدان اور مبینہ اختیارات کا ناجائز استعمال اور مبینہ بدانتظامی کی رپورٹس شامل ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ ادارے شتر بے مہار ہو چکے ہیں اور سیاسی مداخلت عروج پر ہے، جس سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اب ان اداروں کو صرف ڈسپلن فورس ہی کنٹرول کرسکتی ہے۔
ادھر سلک روڈز پاکستان ٹریول کے سی ای او محمد معید الرحمان کہتےھیں کہ “دراصل پاکستان میں سول ایوی ایشن سے منسلک اداروں یا انڈسٹری کو وزارت دفاع کے تحت رکھنا دنیا میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ایسے بہت سے ممالک ہیں جنہوں نے پہلے ہی سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع کے تحت بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر رکھا ھوا ہے،
محمد معید الرحمان کے مطابق ان ممالک کی ایوی ایشن انڈسٹری دیگر سول تنظیموں کے مقابلے میں بہتر چل رہی ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ ممالک ایوی ایشن کو آزادانہ کام کا موقع دیتے ہیں۔
معید الرحمان کے مطابق پاکستان میں ایوی ایشن انڈسٹری کو کبھی بھی آزاد نہیں رہنے دیا گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ کیا اس کو کیا آزادانہ اور بغیر کسی خوف سے کام کرنے دیا جائے گا یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو پھر نفع سے نقصان کا اندیشہ ھے”۔
یہاں ایک بات اہم ہے کہ پاکستان کے علاوہ کئی ممالک کی ایوی ایشن بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر دفاع کے ماتحت رہنے دیا گیا ہے، ان ممالک میں اسرائیل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر ترکیہ اور ایران بھی شامل ھیں۔
امریکہ کی FAA بھی ایک لحاظ سے دفاع کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اور یہ true professionalism کے تحت کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ شہری ہوا بازی کے یہ ادارے کیا وزارت دفاع کے تحت بہتر کام کر سکتے ہیں یا آزاد حثیت میں وزارت ہوا بازی کے تحت زیادہ اچھے طریقے سے کام کریں گے؟
ایوی ایشن اُمور کے ماہر سئنیر صحافی طارق ابو الحسن کہتے ہیں کہ نا تو پہلے ایوی ایشن کے شعبہ کو وزارت دفاع سے نکال کر وزارت ہوا بازی قائم کرنا اور نا ہی اب وزارت ہوا بازی ختم کر کے اسے واپس وزارت دفاع میں ضم کرنے کا فیصلہ پاکستان اور پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا گیا۔
لگتا ہے کہ جمہوری دور میں یہ کام سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیا گیا، جبکہ ماضی کے فوجی دور یا موجودہ ہائبریڈ جمہوریت میں یہ کام اداروں پر بالادستی اور کنٹرول رکھنے کیلئے ہوا۔
یہی وجہ کہ آج 25 کروڑ کی آبادی والے ملک پاکستان کے ہوائی اڈے پاکستانی ائیرلائنز کے بجائے غیر ملکی خصوصا خلیجی ریاستوں کی ائیرلائنز کیلئے کہیں زیادہ منافع بخش ہیں۔
باقی ایوی ایشن کے شعبہ میں کرپشن اور قومی مفاد کے خلاف فیصلے تو دونوں وزارتوں میں خوب ہوئے۔ دیکھیے ایک بہت بنیادی اصول ہے کہ جو ادارہ جس کام کیلئے بنا ہے، وہ صرف اپنا مخصوص کام کرے، دوسروں کے کام میں دخل نہ دے۔ ادارے ہوں یا ملک دونوں آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔
تاہم دیگر مبصرین کہتے ہیں کہ یہ بات تو طے ہے کہ سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع کے تحت رکھنے کے ممکنہ فوائد بھی ہیں، مثلا
وزارت دفاع ہوائی اڈوں اور ہوائی مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اضافی سیکورٹی، وسائل اور مہارت فراہم کر سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام بہتر انٹیلی جنس شیئرنگ کو آسان بنا سکتا ہے، جس سے سیکیورٹی کے ممکنہ خطرات کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے تحت ایک متحد کمانڈ کا ڈھانچہ ہنگامی حالات میں فیصلہ سازی اور ردعمل کے اوقات کو ہموار کر سکتا ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ریگولیٹری فریم ورک کو آسان بنا سکتا ہے، بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کر کے اور کارکردگی میں اضافہ کر سکتا ہے۔ معاشی فوائد وزارت دفاع کی شمولیت سے ہوا بازی کے شعبے میں خاص طور پر ہوائی اڈے کے بنیادی ڈھانچے اور ہوائی جہاز کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں مزید سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ایوی ایشن سیکیورٹی، ایئر ٹریفک کنٹرول اور ہوائی جہاز کی دیکھ بھال جیسے شعبوں میں ملازمت کے نئے مواقع پیدا کرسکتا ہے۔ اسٹریٹجک فوائد وزارت دفاع شہری ہوا بازی کے شعبے کو قومی سلامتی اور اقتصادی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور سمت فراہم کر سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ہنگامی ردعمل کی صلاحیتوں کو بڑھا سکتا ہے، قدرتی آفات، حادثات یا سیکیورٹی کے واقعات کے لیے زیادہ موثر ردعمل کو یقینی بناتا ہے۔ وزارت دفاع شہری ہوا بازی کے شعبے کی صلاحیتوں کو بڑھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی اور مہارت تک رسائی فراہم کر سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے ساتھ سول ایوی ایشن کا انضمام ایوی ایشن سیکیورٹی، ایئر ٹریفک مینجمنٹ اور ہوائی جہاز کے ڈیزائن جیسے شعبوں میں تحقیق اور ترقی کو آسان بنا سکتا ہے۔تاھم اس میں خطرہ یہ ہے کے پاکستان کی سول ایوی ایشن کو وزارت دفاع کے ساتھ ضم کرنے کی وجہ سے بین الاقوامی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO) اور دیگر بین الاقوامی ہوا بازی تنظیمیں تشویش کا اظہار نہ کر دیں۔ اس کے علاوعہ ICAO ہمیشہ سے سول اور ملٹری ایوی ایشن اتھارٹیز کو الگ کرنے کی اہمیت پر زور دیتا رھا ھے۔
وزارت دفاع کے ساتھ انضمام سے اس کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ICAO کا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ شہری ہوا بازی کے حکام غیر جانبدار اور خود مختار ہوں۔ وزارت دفاع کے ساتھ انضمام اس غیر جانبداری پر سمجھوتہ کر سکتا ہے۔
اسی طرح انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (IATA) ہوائی نقل و حمل کے آپریشنز، حفاظت اور سلامتی پر ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار بھی کر سکتا ہے۔ جبکہ فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (FAA) پاکستان کی ایوی ایشن سیفٹی ریٹنگ کا از سر نو جائزہ لے سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر امریکا کے ساتھ ملک کے ہوائی نقل و حمل کے آپریشنز کو متاثر کر سکتا ہے۔
یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA) EASA پاکستان کے ایوی ایشن سیفٹی کے معیارات کا جائزہ لے سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر یورپی ممالک کے ساتھ ملک کے ہوائی نقل و حمل کے آپریشنز کو متاثر کر سکتا ہے۔
اس فیصلے سے پاکستان کو ممکنہ نتائج کا سامنا بھی کرنا بھی پڑ سکتا ہے۔ جن میں
.
. ICAO یا دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے منفی تشخیص پاکستان کی ایوی ایشن سیفٹی ریٹنگ کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
. یورپی ممالک حفاظت اور سلامتی سے متعلق خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی ایئر لائنز کی پروازوں پر کچھ پابندیاں بھی لگا سکتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کی سول ایوی ایشن کو بین الاقوامی فورمز میں شرکت کرنے اور ہوا بازی کے معاملات پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کرنے میں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں وزارت دفاع کو انتہائی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑے گا، کیو نکہ ایک غلط قدم ایوی ایشن انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، کیونکہ سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی غیر ذمہ دارانہ تقریر پر برطانیہ EU اور امریکا میں ہماری پروازوں پر پابندی عائد ہونے پر پاکستان پہلے ہی بہت زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کی ایوی ایشن ایوی ایشن انڈسٹری وزارت دفاع کے تحت کو وزارت دفاع کے شہری ہوا بازی کے سول ایوی ایشن کو ہوائی نقل و حمل بین الاقوامی ایوی ایشن کی پاکستان کے کر سکتا ہے اور ہوائی کے مطابق فراہم کر یہ ہے کہ اور ہوا سکتی ہے دفاع سے کے لیے کام کر
پڑھیں:
سنڈے اسپیشل : ٹو این ون اسٹوریز
جنگل کی طرح ’سماجی غول‘ بنانا
رضوان طاہر مبین
ایک ’غول‘ ضروری ہے، جی ہاں بہت ضروری ہے صاحب۔۔۔!
ہمارے آج کے سماج کی ایک تلخ حقیقت ایسی ہے کہ آپ کے ساتھ آپ کے کچھ نہ کچھ ’ہم نوا‘ ہونا بہت ضروری ہیں، ورنہ آپ بُری طرح تنہا کردیے جاتے ہیں، جیسے کسی جنگل میں اکیلے جانور کو درندے بھنبھوڑ دیتے ہیں، اس لیے وہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں، بالکل ایسے ہی گروہ کے بغیر اس سماج کے ’طاقت وَر‘ آپ کو بھی بھنبھوڑ ڈالیں گے اور کچھ نہیں تو کسی موضوع پر اختلاف رائے یا اپنی آزادانہ رائے رکھنے کی پاداش میں یہی نام نہاد پڑھے لکھے اور ’’دانش وَر‘‘ آپ کو کچا نہ بھی چبا ڈالیں، تو پکا پکا کر ضرور نگل جائیں گے!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ ’غول‘ کیسا ہو۔۔۔؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ چوں کہ آپ اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے اِسے آپ پیار سے یا مصلحت سے ’غول‘ کبھی نہیں کہیں گے، بلکہ ’ہم خیال‘ کہیں گے، ہم پیالہ بتائیں گے یا پھر کوئی ’لابی‘ کہلائیں گے۔
اب یہ ’لابی‘ کام کیا کرتی ہے۔۔۔؟
یہ بڑا دل چسپ سوال ہے، جناب، یہی تو پھر سارے کام کرتی ہے، اور بعضے وقت جب یہ کام کرتی ہے، تو کبھی کبھی تو آپ کو کچھ کرنے کی ہی ضرورت نہیں رہتی، سمجھ رہے ہیں ناں۔۔۔
اور اگر ایسا نہ بھی ہو تب بھی کوئی آپ پر ٹیڑھی نگاہ سے دیکھے، کسی بھی جگہ کوئی کٹھنائی ہو، زندگی میں خدانخواستہ کوئی اچھا یا برا، صحیح یا غلط، آڑھا یا ترچھا کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، آپ کا یہ ’غول‘ اس نظریے کے تحت آپ کے ’دفاع‘ کے لیے سینہ سپر ہو جائے گا کہ ’’صحیح ہے یا غلط ہے، یہ اہم نہیں، آدمی ہمارا ہے بس یہی اہم ہے۔۔۔!!‘‘
اپنی ’لابی‘ بنانے کے لیے آپ کو کرنا کیا ہوگا۔۔۔؟
’غول‘ بنانے کے لیے سب سے پہلے ’اتحاد‘ بہت ضروری ہوتا ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اتحاد میں کتنی ’’برکت‘‘ ہوتی ہے، یہی برکت آپ کو یہاں اچھی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ آپ کو اس ’اتحاد‘ کے واسطے اپنی ’لابی‘ کی ہاں میں ہاں اور نہ میں نہ ملانا ہوگا۔ چاہے سورج آپ کے سر پر آگ برسا رہا ہو، لیکن اگر آپ کے ’جَتھے‘ نے یہ طے کیا ہے کہ اس وقت تاریک آسمان پر چاند چمک رہا ہے اور جھینگر جھنگار رہا ہے، تو آپ کو بہر صورت یہی راگ الاپنا ہوگا کہ چاند کتنا روشن ہے اور اس وقت جھینگر کی آوازوں کے کیا زیر و بم ہیں۔
اس کے ساتھ ہی حسب ضرورت ’واہ واہ‘ کے ڈونگرے اور مخالفانہ دلائل پر منطقی و غیر منطقی ہر دو طرح کے بھرپور تمسخرانہ انداز سے بھی گریز نہیں کرنا ہوگا، الغرض یہ جان لیجیے کہ آپ کے گروہ کے ’مائی باپوں‘ نے جو کہہ دیا وہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا، یہ بات کبھی فراموش نہیں کیجیے گا۔۔۔! اور آپ کی اپنی رائے/ نقطہ نظر/ اختلاف اور آپ کے اپنے ذاتی یا آزادانہ موقف ٹائپ کی کسی چیز کی اب کوئی گنجائش نہیں ہوگی، سچ صرف اور صرف وہی ہوگا جو آپ کے اِس ’’غول‘‘ نے کہہ دیا ہے، بات وہی اونچی ہوگی جو آپ کے ’’لَمڈوں‘‘ نے نعرۂ مستانہ بنا کر بلند کردی ہے۔۔۔ کوئی سچ کی تلاش نہیں ہوگی، عقل وغیرہ جیسی کسی چیز کا کوئی استعمال نہیں ہوگا۔
بعد میں یہ ساری ’خرمستی‘ آپ کو بھی یہ ’سہولت‘ فراہم کرے گی کہ آپ رات بے رات اور وقت بے وقت کچھ فرمائش بھی کر سکتے ہیں۔۔۔ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے سے لے کر آپ کی روزی روٹی، دکھ بیماری، کاروبار ملازمت، ترقی اور ہمہ قسم کے مفادات سے لے کر سماج کے بدمعاشوں اور ’غیر بدمعاشوں‘ کے سارے کے سارے مسائل اور وسائل اب آپ کی فکر بالکل بھی نہیں ہوگی، بلکہ جیسے آپ نے ہر بار ان کی ’ہاہاکار‘ میں حصہ ڈالا ہوگا، ایسے ہی صحیح یا غلط سے قطعی طور پر بے پروا ہو کر یہ بھی آپ کے وقت پڑنے پر جائز وناجائز ہر ’پھڈے‘ میں آپ کی پشت پر بلکہ آپ سے بھی آگے صف اول میں کھڑے ہوں گے اور آپ کو غول پسند معاشرے میں وہ سکون فراہم کریں گے کہ بس آپ سوچ ہی سکتے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ آپ کا یہ گروہ یا ’لابی‘ کیسی ہو۔۔۔؟ یا یہ غول بنائے کیوں کر بنائے جا سکتے ہیں۔۔۔؟
اس کے لیے بے آپ اپنی ذاتی وخاندانی مماثلتیں ’کام میں‘ لے سکتے ہیں، جیسے:
آپ کون سی زبان بولتے ہیں۔۔۔؟
کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
ملک کے کس صوبے کے رکھوالے اور کس علاقے کے نام لیوا ہیں۔۔۔؟
آپ کس نسل، ذات اور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔؟
اتفاق سے آپ کے شجرے میں کوئی خاص عنصر یا شخصیت موجود ہے؟ تو آپ (موقعے کے لحاظ سے) اس کا عَلم بھی بلند کر سکتے ہیں۔
یہی نہیں آپ کا مذہب اور آپ کے مسلک اور عقیدے کے ساتھ ساتھ ’غول‘ بننے کی یہ سہولت بہت سی سیاسی، مذہبی اور تفرقہ باز جماعتیں بھی بہت خوبی سے فراہم کرتی ہیں، اب تو اس کے ساتھ ساتھ ڈھیر ساری ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ بھی دل وجان سے آپ کے لیے ’حاضر‘ ہیں، اور اس کام کے باقاعدہ ’معاوضے‘ سالانہ انعامات اور بین الاقوامی اکرامات کی صورت میں آپ کو ہاتھ کے ہاتھ مطمئن بھی کرتی رہتی ہیں۔ اب یہ صرف آپ پر منحصر ہے کہ آپ ’قدرت‘ کی دی گئی ان مماثلتوں اور صلاحیتوں سے کس قدر فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔۔۔!
کیوں کہ فی زمانہ یہ ساری خاصیتیں بڑی کارآمد اور کارگر ہیں، یہی نہیں ’غول‘ بنانے کے لیے آپ کے پیشے کا بھی کافی اہم کردار ہوتا ہے، آپ کیا کام کرتے ہیں۔۔۔؟ اور کام میں بھی کیسا اور ’’کس طرح‘‘ کے کام زیادہ فرماتے ہیں۔۔۔؟ اس مناسبت سے بھی آپ کسی نہ کسی سے گٹھ جوڑ کر سکتے ہیں۔ اب ہم آپ کو کیا کیا کھل کر بتائیں کہ اگر آپ تاجر، شاعر، ادیب، صحافی، مصنف، ڈاکٹر، نرس، وکیل، استاد، بیوروکریٹ، بِلڈر، پراپرٹی ڈیلر ہیں، تو آپ بھی بہ آسانی اس سماج کے ’نائیوں‘، ’موچیوں‘ سے لے کر ’نان بائیوں‘ کی طرح ’’مشترکہ مفادات‘‘ کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ انجمن تشکیل دے سکتے ہیں، اور انجمن سے ہمیں یاد آیا کہ اگر آپ ان میں کچھ بھی نہیں ہیں، تب بھی ایک ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کی سہولت تو ہر ایک کے لیے ہر وقت موجود رہتی ہے، جہاں دو، چار فارغ، (بلکہ طبیعت سے فارغ) مگر چالاک دماغ اور آگ آج کل کی زبان میں کہیے تو ’’سمجھ دار‘‘ احباب جمع ہوئے، لیجیے وہیں آپ کا ایک بھرپور کام یاب اور بھرپور فعال غول تیار ہوگیا ہے، اب آپ ایک دوسرے کے لیے ساری خدمات انجام دے سکتے ہیں، جیسے فارسی میں کہا گیا ہے کہ ’’میں تمھیں حاجی کہوں، تم مجھے مُلا کہو!‘‘
بھارت کا سفارتی رافیل
ابنِ امین
ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاید جنگ تھم چکی ہے، اور اب ہم ایک ذمے دار اور باشعور پڑوسی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کی کوئی صورت نکال لیں گے۔ لیکن ہمارا پڑوسی، جو کہ ہم سے کئی گنا بڑا ہے، اس جنگ کو ایک ایسے مقام تک لے جانا چاہتا ہے جس کے نتائج کے بارے میں نہ یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہے، نہ کوئی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔
2019 کے پلوامہ حملے اور اس کے بعد بالاکوٹ فضائی حملے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک نئی سطح کی جارحیت دیکھی گئی ہے۔ تاہم، حالیہ پہلگام حملے (اپریل 2025) اور اس کے بعد بھارت کے 'آپریشن سندور' (مئی 2025) کے تناظر میں، بھارت نے ایک جارحانہ سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے۔
اس مہم کے تحت سات وفود دنیا کے مختلف خطوں میں روانہ کیے گئے جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان، بشمول مسلم اراکین پارلیمنٹ، اور ریٹائرڈ سفارت کاروں کو شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت کی پوری سیاسی قیادت پاکستان سے درپیش خطرات پر یک زبان ہے۔ ان کا مقصد عالمی برادری کو یہ باور کرانا ہے کہ پاکستان نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کا معاون ہے۔ یہ کوششیں بظاہر پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی ایک منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں۔
اس سفارتی یلغار کے ساتھ ساتھ، بھارت نے دیگر جوابی اقدامات بھی کیے جن میں اہم سرحدی گزرگاہوں کی بندش، سندھ طاس معاہدے (IWT) کی معطلی، پاکستانی سفارت کاروں کی بے دخلی، اور پاکستانی شہریوں کے لیے زیادہ تر ویزوں پر پابندی شامل تھی۔ خاص طور پر، سندھ طاس معاہدے کی معطلی ایک اہم اور ممکنہ طور پر تباہ کن اقدام تھا، جسے بھارت نے ’’مسلسل سرحد پار دہشت گردی‘‘ سے جوڑا۔ یہ اقدام بین الاقوامی اصولوں کی واضح خلاف ورزی ہے کیوںکہ معاہدہ یک طرفہ کارروائی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ صورت حال پانی کی سلامتی کو ایک اہم فلیش پوائنٹ میں بدل دیتی ہے، جو ممکنہ طور پر روایتی فوجی ذرائع سے بھی آگے تنازعات کو بڑھا سکتی ہے۔
اس تمام صورت حال میں، بھارتی سیاست داں اور سابق سفارت کار ششی تھرور کی نیویارک میں حالیہ ملاقاتیں اور موجودگی بھی اسی مہم کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی سطح پر بھارت کے بیانیے کو مزید تقویت دینا ہے۔
تاہم، تجزیاتی نقطۂ نظر سے، یہی مہم پاکستان کے لیے ایک غیرمتوقع مگر غیرمعمولی سفارتی موقع کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ جب بھارت کی طرف سے پاکستان پر ایسے سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں، اور ان کی تائید کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے جاتے ہیں، تو لامحالہ بین الاقوامی میڈیا، تھنک ٹینکس اور پالیسی ادارے بھی اس بیانیے کی صداقت کو پرکھنے کے لیے پاکستان کے مؤقف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، بھارت جس پلیٹ فارم کو صرف اپنا بیانیہ آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، وہی پلیٹ فارم پاکستان کے لیے اپنے مؤقف کو سامنے لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس منظرنامے میں پاکستان کو محض دفاعی انداز اپنانے کی بجائے ایک فعال، شواہد پر مبنی اور بیانیہ ساز حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔
پاکستان نے سفارتی سطح پر ابتدائی ردعمل میں عالمی سفیروں کو اعتماد میں لیا، حملے کی غیرجانب دار تحقیقات کی پیشکش کی، اور ساتھ ہی بھارت کی طرف سے انڈس واٹر ٹریٹی جیسے حساس معاہدے کی معطلی کو ایک ممکنہ اشتعال انگیز اقدام کے طور پر عالمی برادری کے سامنے رکھا۔ پاکستان نے چین، سعودی عرب، ترکی، قطر اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ فوری روابط قائم کیے تاکہ بھارت کے یک طرفہ بیانیے کو توازن دیا جا سکے۔
یہ تمام اقدامات ایک فعال اور اسٹریٹجک سفارت کاری کی غمازی کرتے ہیں، اور 2025 کے بحران کے بعد پاکستان کی میڈیا حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ماضی کے ’’ٹکڑے ٹکڑے، دفاعی اور ردعمل پر مبنی‘‘ نقطۂ نظر کے برعکس ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارت کی سفارتی یلغار نے پاکستان کو بین الاقوامی مکالمے کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان داخلی سیاسی بحران، اقتصادی غیریقینی صورت حال، اور سفارتی خاموشی کا شکار تھا، بھارت کی یہ مہم ایک اتفاقیہ موقع بن گئی ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف خود کو ایک پرامن، قانون پر کاربند اور تعمیری ریاست کے طور پر متعارف کرائے بلکہ اپنے حقیقی چیلینجز، قربانیوں اور امن پسندی کو عالمی بیانیے کا حصہ بھی بنائے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے بارے میں ’’غیرجانب دارانہ سے مثبت تاثر میں واضح اضافہ‘‘ دیکھا گیا ہے۔
پاکستان کے لیے اب ناگزیر ہے کہ وہ محض رسمی سفارتی بیانات سے آگے بڑھے اور ایک منظم، سائنسی، اور ادارہ جاتی حکمت عملی کے تحت عالمی میڈیا (جیسے CNN، BBC، Sky News)، یونیورسٹیز، تھنک ٹینکس اور ڈاسپورا نیٹ ورکس کو متحرک کرے۔ ڈاسپورا نیٹ ورکس سے مراد وہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کمیونٹیز ہیں جو اپنے میزبان ملکوں میں پالیسی، میڈیا، اور رائے سازی پر اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ نیٹ ورکس پاکستان کی سفارتی soft power کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
بھارت نے اپنے وفود میں صرف سیاست داں نہیں بلکہ سابق سفیروں، سفارتی ماہرین اور ابلاغی شخصیات کو شامل کر کے بیانیہ سازی کا ایک بھرپور ماڈل پیش کیا ہے۔
پاکستان کے لیے اس وقت چیلینج صرف ردعمل دینا نہیں بلکہ ایک متبادل بیانیہ ترتیب دینا ہے جو مستقل بنیادوں پر پاکستان کے مؤقف کو مضبوط کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو بین الاقوامی برادری کو بھارت کی ’’گرے زون‘‘ حکمت عملیوں کے خطرات سے بھی آگاہ کرنا چاہیے، جہاں وہ جوہری حد سے نیچے محدود حملوں کے ذریعے اخراجات عائد کرنے کی کوشش کرتا ہے، جس سے ’’جوہری تباہی کی طرف ایک غلط قدم کے خطرے‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس وقت دنیا کی نظریں خطے پر مرکوز ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ، پالیسی ادارے، اور تجزیہ کار جنوبی ایشیا کی صورتحال کو باریکی سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ایک غیرمعمولی موقع ہے کہ وہ خود کو نہ صرف ایک اہم اسٹریٹجک کھلاڑی کے طور پر پیش کرے بلکہ اپنی دانش، امن پسندی اور سفارتی بلوغت سے ایک نئے عالمی امیج کی بنیاد رکھے۔ بھارت کی الزاماتی سفارت کاری پاکستان کے لیے ایک ایسے کوریڈور کی شکل اختیار کر چکی ہے جو اگر حکمت سے استعمال کیا جائے تو سفارتی تنہائی کو سفارتی مرکزیت میں بدل سکتا ہے۔