چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی متعدد انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو کر دی
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد ( ڈیلی پاکستان آن لائن ) چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کی متعدد انتظامی کمیٹیوں کی تشکیل نو کر دی۔
نجی ٹی وی دنیا نیوز نے ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ تشکیل نو سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی خیبر پختونخوا کی انسداد دہشتگردی عدالتوں کی نگران جج مقرر کر دی گئیں، جسٹس ملک شہزاد پنجاب، جسٹس ہاشم کاکڑ بلوچستان کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کے نگران مقرر کئے گئے ہیں۔جسٹس صلاح الدین پنہور سندھ اور جسٹس عامر فاروق اسلام آباد کی اے ٹی سی عدالتوں کے نگران مقرر ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ کی بلڈنگ کمیٹی کی سربراہی جسٹس جمال مندوخیل کے سپرد کر دی گئی، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس عامر فاروق بلڈنگ کمیٹی کے ممبران ہوں گے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی آئی ٹی کمیٹی کی سربراہی خود کریں گے، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس میاں گل حسن آئی ٹی کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔
ریسرچ سینٹر کمیٹی کی سربراہی جسٹس شاہد بلال حسن کے سپرد کر دی گئی، جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس عامر فاروق ریسرچ سینٹر کمیٹی کے ممبران ہوں گے، جسٹس محمد علی مظہر لاءکلرک پروگرام کمیٹی کے سربراہ اور جسٹس میاں گل حسن ممبر ہوں گے۔
مختلف نوعیت کی چیمبر اپیلز سننے کیلئے 5 ججز کو نامزد کر دیا گیا، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس ہاشم کاکڑ چیمبر اپیلز سنیں گے، جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس شکیل احمد بھی مختلف نوعیت کی چیمبر اپیلوں کی سماعت کریں گے۔سپریم کورٹ آرکائیو اینڈ میوزیم کمیٹی کی سربراہی جسٹس حسن اظہر رضوی کے سپرد کی گئی، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب آرکائیو کمیٹی کے ممبران ہوں گے۔فوری انصاف اور ماڈل کورٹس سے متعلق کمیٹی کی سربراہی جسٹس ملک شہزاد کے سپرد کی گئی ہے، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس اشتیاق ابراہیم ماڈل کورٹس کمیٹی کے رکن ہوں گے۔
چیف جسٹس نے جسٹس اشتیاق ابراہیم کو سکیورٹی جج تعینات کر دیا، سکیورٹی جج سپریم کورٹ بلڈنگ، برانچ رجسٹر یا ںاور ججز کالونی کے سکیورٹی امور دیکھیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن فیملی اور بچوں کی حوالگی کیسز میں پاک برطانیہ پروٹوکول کے رابطہ کار جج تعینات کئے گئے، سپریم کورٹ عملے کے یونیفارم کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے قائم کمیٹی تحلیل کر دی گئی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے تمام کمیٹیوں اور تقرریوں کے الگ الگ نوٹیفکیشن جاری کر دیئے گئے ہیں۔
عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز پر مشتمل وفد پاکستان پہنچ گیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: کمیٹی کے ممبران ہوں گے کمیٹی کی سربراہی جسٹس جسٹس صلاح الدین پنہور جسٹس میاں گل حسن سپریم کورٹ کی اور جسٹس چیف جسٹس کے سپرد
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے، ملک معتصم خان
جماعت اسلامی کے نائب امیر نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے 2006ء کے 7/11 ممبئی ٹرین دھماکوں کے مقدمے میں تمام 12 ملزمان کو بری کئے جانے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن ساتھ ہی انہوں نے مہاراشٹر حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے جس کے تحت وہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ 21 جولائی 2025ء کو سنایا گیا جس میں 2015ء کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور عدالت کی طرف سے تفتیش میں سنگین کوتاہیوں اور ناقص شواہد کی بنیاد پر شدید سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ ملک معتصم خان نے کہا کہ عدالت کی طرف سے جو سوال اٹھائے گئے ہیں وہ ہمارے فوجداری نظام انصاف پر سنجیدہ غوروفکر کے متقاضی ہیں۔
میڈیا کو دئے گئے اپنے بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ ہم 7/11 ممبئی دھماکوں کے مقدمے میں 12 بے گناہ افراد کو بری کرنے کے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے تقریباً دو دہائیوں تک جیل میں ظلم و جبر کا سامنا کیا۔ عدالت کے ریمارکس نے واضح کر دیا ہے کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور جو شواہد عدالت میں پیش کئے گئے وہ ناقابل اعتبار تھے۔ کورٹ کے مطابق مہاراشٹر اے ٹی ایس بم دھماکوں میں استعمال ہونے والے بارود کی قسم تک معلوم نہ کر سکی اور مشکوک گواہیوں اور غلط طریقے سے جمع کئے گئے شواہد پر انحصار کیا۔ یہ صرف اے ٹی ایس کی ناکامی نہیں بلکہ پورے نظام انصاف کی ناکامی ہے جس نے ملزمان اور ان کے خاندانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ملک معتصم خان نے اس شدید ناانصافی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد 19 سال جیل میں رہے جہاں ان پر تشدد ہوا اور انہیں نفسیاتی طور پر ہراساں کیا گیا، خود عدالت نے بھی ان باتوں کا مشاہدہ کیا ہے، بے قصور افراد کے خاندان بدنامی کا شکار ہوئے اوران کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ انہون نے کہا کہ اب بجائے اس کے کہ حکومت ان مظلوموں کو انصاف دے اور ان کے نقصانات کا ازالہ کرے وہ سپریم کورٹ میں اپیل کر کے ایک ناقص اور بلاجواز فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ اس طرح کے اقدام سے اصل مسئلہ پس پشت چلا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 7/11 بم دھماکوں کے اصل مجرم اب بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان دھماکوں میں 189 افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ متاثرین کے ساتھ انصاف کرے۔ ان دھماکوں میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کو انصاف اور سکون چاہیئے جو 19 سال بعد بھی میسر نہیں آسکا ہے۔ ہائی کورٹ کے 671 صفحات پر مشتمل فیصلے نے استغاثہ کی مکمل ناکامی کو ظاہر کر دیا ہے۔ اس کے بعد اب یہ سوال بدستور قائم ہے کہ اس خوفناک جرم کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنا وقت اور وسائل سپریم کورٹ میں اپیل کرکے ضائع نہ کرے بلکہ دھماکوں کی ازسرنو اور سنجیدہ تفتیش کرے تاکہ اصل مجرموں کو گرفتار کیا جا سکے۔ یہی قانون کی بالادستی اور عوام کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ملک معتصم خان نے عدالتی نظام میں اصلاحات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 19 سال کے بعد بے قصوروں کی رہائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کی تفتیش میں کتنی سنگین کوتاہیاں موجود ہیں۔