اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 فروری 2025ء) دو ہزار پچیس شروع ہوئے ابھی ڈیڑھ ماہ ہی گزرا ہے لیکن بیرون ملک ''بہتر مستقبل‘‘ کی تلاش میں کشتی حادثوں اور یورپ کے سمندروں کی نظر ہونے والے نوجوانوں کی تعداد کی گنتی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ستم دیکھیے کہ ان میں 12 سال سے لے کر 30 سال تک کے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یعنی یہ دورانیہ تو ماؤں کی دعاؤں اور ہاتھ سے کھانا کھا کر گھر سے رخصت ہونے کا ہوتا ہے مگر یہ نوجوان نہیں معلوم کیوں ماؤں کے زیور تک بیچ کر اپنی موت کے اس قدر قریب جا رہے ہیں؟ کیا واقعی ان کے لیے پاکستان میں بہتر مستقبل کے حوالے سے کچھ بھی نہیں ہے؟
یہ محاورہ ہم نے اکثر سن رکھا ہے کہ اپنے گھر میں تو بلی بھی شیر ہوتی ہے۔
تو پھر ایسا کیا کہ شیر بلی بننے کے لیے اپنے گھر سے بھاگے جا رہے ہیں؟ ملک مالی مشکلات کا شکار تو ہے، کرپشن بھی بہت ہے اور شاید غریب کا استحصال بھی لیکن کیا کبھی کسی نے یہ سوچا کہ جس کرپشن اور دھاندلی کا الزام حکمرانوں پر لگایا جاتا ہے وہ ایک چھوٹی ریڑھی والا بھی کرتا ہے۔(جاری ہے)
تو ملک کے ساتھ غداری میں ہم سب شریک ہیں اور اب ہم ہی مل کر اس کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔
اندازہ کیجیے آپ پاکستان کے کسی بھی شہر میں کہیں بھی جا رہے ہیں راستے میں دائیں بائیں موسمی پھلوں کی ریڑھیاں تمام مصالحہ جات کے ساتھ آپ کے سفر کے ذائقے کو دوبالا کرنے کے لیے موجود ہوتی ہیں۔ موسمی امردود کی شاپر میں پیکنگ اور مزہ کہیں نہیں ملے گا، میاں چنوں کی برفی بھی لاہور سے فیصل آباد کے راستے میں خریدنا آپ کبھی نہیں بھولیں گے۔
کسی نہر کے پاس سے گزر رہے ہیں تو مچھلی کی سوغات آپ کے ذائقے کو بڑھانے کے لیے میسر ہو گی۔ اور رہی پارکنگ کی کہانی تو آپ اس زمین کے کل بادشاہ ہیں۔کیا یہ سب بیرون ملک میسر ہوتا ہے؟پاکستانی ثقافت اور کپڑا آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔ یورپ ہو یا امریکہ پاکستانی چمڑے( لیدر) سے بنی اشیاء اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں۔ لیکن بیرون ملک مقیم پاکستانی جب بھی پاکستان آئیں تو اپنی ثقافت یہاں سے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
دیسی گھی ہو یا سرسوں کا ساگ مکئی کا آٹا ہو یا دہی بڑوں کی پھلکیاں یہ سب پاکستان ہی کی خاصیت ہے۔ ملتانی کھاڈی کا کپڑا ہو یا خوبصورت برتن پردیسیوں کے بیگوں کا وزن ضرور بڑھاتے ہیں۔پاکستان برینڈز کے کپڑے یورپ میں مہنگے داموں لینے کی بجائے پاکستان سے منگوائے جاتے ہیں، درزی جتنا سستا پاکستان میں ہے اور کسی ملک میں نہیں۔ حجام کو جتنے پیسے ایک کٹ کے بیرون ملک دینے پڑتے ہیں اتنے میں پاکستان میں تین بار کٹ ہو سکتا ہے۔
خواتین کے لیے پارلر کی سستی اور معیاری سہولیات بھی پاکستان ہی میں ہیں۔ تو پاکستان مہنگا ملک کیسے ہوا؟آپ بیمار ہیں تو بآسانی ہر دوا میسر ہے، آپ کو سر درد کی دوا لینی ہے جہاں سے جی چاہیں خرید لیں۔ آپ امپورٹیڈ چیزیں لینا چاہتے ہیں تو اسلام آباد کا اتوار بازار وہاں کے ایمبیسڈر کی بھی پسندیدہ ترین جگہ ہے اور یہ اتوار بازار پاکستان کے ہر شہر میں موجود ہیں۔
مہنگی سے مہنگی برانڈ کی چیز آپ کے بجٹ میں آپ کے پاس۔ اگر آپ پکے جوہری ہیں تو۔کھیتوں کی خوشبو سے لے کر ریت کے ٹیلوں کا سحر، سبزے سے بھرے پہاڑ اور دیوسائی کی سحر انگریز پریوں جیسی پیلے پھولوں سے لدی زمین، کیا نہیں ہے اس ملک میں؟ صرف روزگار؟ بہتر مستقبل یا صرف مایوسی؟
پاکستان میں رہنے والے پاکستانی واقعی آزاد ہیں۔ اتنے آزاد کے اپنی گاڑی سے اپنی مرضی سے منہ باہر نکال کر ٹھنڈی ہوا کا لطف بھی لے سکتے ہیں اور ہاتھوں پر بارش کے نرم قطرے بھی۔
المیہ اس سوچ کا ہے، جو اس ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں میں بیٹھا دی گئی ہے کہ پاکستان میں کچھ نہیں رکھا۔پاکستان میں وہ سب رکھا ہے جو ایک نوجوان کا خواب ہے لیکن یوں کہہ لیجیے اس پزل کے تمام ٹکڑے گم ہو چکے ہیں۔ یہ قوم ایک ہجوم بن چکی ہے۔ جس روز اس پزل کے ٹکڑے پھر سے جڑنا شروع ہوئے تو نفرت اور نا امیدی کی یہ دھند ضرور چھٹ جائے گی۔ ہم نے اپنی تقافت پر فخر کرنا سیکھ لیا تو ہم ہر لباس پہن کر فخر محسوس کریں گے۔
پاکستانی لیدر کی بنی اشیاء پہن کر اپنے ہی ملک کے ایمبیسڈر ہم سب ہوں گے۔ڈنکی لگا کر گھر کا سرمایہ بیچ کر اپنے سپوتوں کی جان کو خطرہ میں ڈالنے والے والدین اگر یہی پیسہ ان کی تعلیم پر لگانا شروع کر دیں تو خوشحالی بانہیں پھیلائے ان کے دروازے پر ہو گی۔ سرکاری سکول کی حالت خستہ ضرور ہے مگر اب بھی وہ اساتذہ موجود ہیں جو ہیرے کو تراشنے کو بے تاب ہیں۔
پاکستان میں مہنگائی ہے مگر خلوص کی مہنگائی، سچائی کی مہنگائی، بھائی چارے کی مہنگائی اور وطن سے محبت کی مہنگائی۔ یہ مہنگائی ختم ہو جائے تو ہم سب عبد الستار ایدھی کی طرح اس زمین میں صرف محبت کے بیج بوئیں گے۔ اس فصل کے تیار ہونے پر ہم دیکھ سکیں گے کہ سب کچھ تو یہیں رکھا ہے۔ ماؤں کی خوشبو سے لے کر باپ کے پسینے میں ڈوبی قمیض تک۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان میں کی مہنگائی بیرون ملک رہے ہیں رکھا ہے کے لیے ہیں تو
پڑھیں:
پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
اداکارہ و ٹی وی میزبان مشی خان نے پہلگام حملے کی مذمت کرنے والے پاکستانی اداکاروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان میں عزتِ نفس ہونی چاہیے انڈیا ہمارے خلاف بول رہا ہے اور آپ خوشامد میں لگے ہیں۔
مشی خان نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ کہیں بھی جان و مال کا نقصان قابلِ مذمت ہے اور وہاں کے لوگوں کے درد میں ان کا ساتھ دینا چاہیے لیکن پاکستان میں اتنا کچھ ہو جاتا ہے تب تو ہمارے اسٹارز بولتے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام میں حادثہ ہوا تو فواد خان، ہانیہ عامر اور دیگر فنکار بول رہے ہیں تو کیا آپ کو صرف وہاں کا درد ہی محسوس ہو رہا ہے، کیا آپ لوگوں میں کوئی خوداری نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کو لعن طعن کر رہے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)
مشی خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپنی کسی پوسٹ میں فلسطین تو آپ کو کبھی یاد نہیں رہا، پاکستان میں اتنے گھناؤنے واقعات ہوئے اس پر کبھی نہیں بولے لیکن وہاں کا درد آپ لوگ محسوس کر رہے ہیں جبکہ وہ لوگ آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ انسان میں عزتِ نفس بھی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس چیز کی کمی ہے۔ جو کچھ بھی ہو جائے اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے اسٹینڈ لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیار محبت تب ہوتا ہے جب یہ دو طرفہ معاملہ ہو، ہر وقت دوسروں کی خوشامد کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلم بائیکاٹ کا خطرہ، پہلگام حملے پر فواد خان کا ردعمل بھی سامنے آگیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو شرم آنے چاہیے کہ بھارت کے اینکرز ہمیں کھلے عام گالیاں دے رہے ہیں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں اور آپ لوگ چپ بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ کو بند ہونا چاہیے اور ہمیں کہنا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں کھیلیں گے، ہمیں پہلے ایسی چیزوں کے لیے منع کرنا چاہیے وہ کیوں پہل کرتے ہیں ہم کیوں نہیں کر سکتے ایٹمی پاور تو ہم بھی ہیں لیکن ہم میں عزتِ نفس کی کمی ہے۔ خود کی عزت کرنا سیکھیں اور اپنے لیے کھڑے ہونا سیکھیں۔
مشی خان کی پوسٹ پر صارفین ان سے اتفاق کرتے نظر آ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کو انڈیا ہی چھوڑ آنا چاہیے جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ ان اداکاروں کے انڈیا میں کام چاہیے اس لیے ان کے حق میں بیان دیتے نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں نے اس کی شدید مذمت کی تھی جس میں فواد خان، ہانیہ عامر، فرحان سعید اور ماورا حسین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج
مشی خان ایک معروف پاکستانی ٹیلی ویژن اداکارہ اور میزبان ہیں، ان کے قابل ذکر ٹیلی ویژن پروجیکٹس میں عروسہ، عجائب گھر، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، سات پردوں میں اور دیگر شامل ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کے ٹو ٹی وی پر مارننگ شو کی میزبانی کر رہی ہیں اور اکثر حالات حاضرہ، تنازعات اور شوبز کے تازہ ترین واقعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پہلگام حملہ فرحان سعید فواد خان ماورا حسین مشی خان ہانیہ عامر