ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کی شدید مخالفت
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد:سینیٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل منظور ہو گیا، جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔
قائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سینیٹر دینیش کمار نے بل پیش کیا، جس پر اپوزیشن نے نکتہ اعتراض اٹھایا اور ایوان میں احتجاج کیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ قومی اسمبلی سے یہ بل پہلے ہی منظور ہو چکا ہے اور جو ارکان اضافی تنخواہ نہیں لینا چاہتےوہ لکھ کر دے سکتے ہیں۔
سینیٹر دینیش کمار نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے بھی اس بل پر دستخط کیے ہیں لیکن اپوزیشن نے اس بات کو مسترد کرتے ہوئے فلور پر بات کرنے کا مطالبہ کیا۔ قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن کے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ قانون سازی کے دوران نکتہ اعتراض نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شور شرابے سے کچھ نہیں ہوگا۔
اجلاس میں مینٹل ہیلتھ آرڈیننس2021 میں مزید ترمیم کا بل سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے پیش کیا جسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ اسی طرح سینیٹر ذیشان خانزادہ نے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 پیش کیا جسے حکومت کی مخالفت کے باوجود متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا۔
یونیورسٹی آف بزنس، سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے قیام کے لیے قانون سازی کا بل سینیٹر عبد الشکور نے پیش کیا جسے متعلقہ کمیٹی کو سپرد کر دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان سائیکولوجیکل کونسل کے قیام کا بل سینیٹر کامران مرتضی نے پیش کیا جسے بھی متعلقہ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔
سینیٹ اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2023 پر شدید تنازع کھڑا ہو گیا۔ سینیٹر محسن عزیز نے یہ بل پیش کیا، جس پر حکومت نے تکنیکی مشاورت کی رائے دینے کا کہا۔ وزیر قانون نے متعلقہ وزارت یا کمیٹی سے مشاورت کی سفارش کی لیکن سینیٹر محسن عزیز نے بل واپس لینے یا کسی اور جگہ بھیجنے سے انکار کر دیا۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ بل پرائیویٹ بینکوں کے قرض کی حد سے متعلق ہے اور اسے 3بار کمیٹی کے پاس بھیجا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو پرائیویٹ بینک سالانہ ڈیڑھ فیصد بھی قرض نہیں دیتے جب کہ سندھ اور پنجاب کو 98 فیصد قرض دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس بل پر ووٹنگ کی جائے تاکہ پتا چل سکے کہ کون کس طرف کھڑا ہے۔
قائم مقام چیئرمین سینیٹ نے بل پر ووٹنگ کروائی لیکن نتائج کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن نے نتائج کا اعلان کرنے کا مطالبہ کیا تاہم چیئرمین نے اجلاس منگل کی صبح ساڑھے 11بجے تک ملتوی کر دیا۔
اپوزیشن نے قائم مقام چیئرمین سینیٹ کے ریمارکس پر سخت رد عمل ظاہر کیا اور ایوان میں احتجاج کیا۔ اپوزیشن سینیٹرز نے ایجنڈا کی کاپیاں پھاڑ دیں اور چیئرمین کے ڈائس کا گھیراؤ کر لیا۔ قائم مقام چیئرمین نے کہا کہ اپوزیشن کے شور شرابے سے ان پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا۔
اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ دو صوبے دہشت گردی کا شکار ہیں اور وہاں پرائیویٹ بینک قرضہ دینے میں جانب داری کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل صوبائیت اور لسانیت سے بالاتر ہے اور اسے سیاست کی نذر نہیں کیا جانا چاہیے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بل کو مؤخر کر لیا جائے اور متعلقہ ڈویژن سے مشاورت کے بعد حکومت اسے دوبارہ پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 74 میں اسٹیٹ بینک کی ذمے داریوں کا تعین کیا گیا ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قائم مقام چیئرمین سینیٹ پیش کیا جسے کا بل سینیٹ اپوزیشن نے نے کہا کہ انہوں نے دیا گیا کر دیا ہے اور
پڑھیں:
مانسون اجلاس میں بہار ووٹر لسٹ پر اپوزیشن کا ہنگامہ، پارلیمنٹ کی کارروائی ملتوی
پارلیمنٹ کے جاری مانسون اجلاس میں اب تک اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کئی مسائل پر ٹکراؤ دیکھنے کو ملا ہے، لیکن بہار کی ووٹر لسٹ کا معاملہ اب مرکزِ نگاہ بن چکا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظرثانی کے مسئلے پر اپوزیشن کے زبردست احتجاج کے سبب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی کارروائی جمعرات کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ بدھ کے روز صبح 11 بجے جب ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو اپوزیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ کے جائزے کے معاملے پر بحث کا مطالبہ کیا، جس پر حکومت کی جانب سے کوئی رضامندی نہ ملنے پر اپوزیشن اراکین نے نعرے بازی شروع کر دی۔ اس کے باعث دونوں ایوانوں کا سوال و جواب کا وقت بھی متاثر ہوا اور کارروائی دوپہر 12 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔
دوپہر 12 بجے کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو نعرے بازی جاری رہی، جس کے بعد کارروائی دوپہر 2 بجے تک کے لئے موخر کی گئی۔ جب 2 بجے اجلاس پھر شروع ہوا تو ایک بار پھر شور شرابہ جاری رہا۔ راجیہ سبھا میں مرکزی وزیر سربانند سونوال نے سمندر کے ذریعے مال برداری سے متعلق ایک بل ایوان میں پیش کیا، لیکن اپوزیشن نے اس موقع پر بھی بہار ووٹر لسٹ کے معاملے پر نعرے لگائے اور اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایوان کے وسط میں آ گئے۔ اسی طرح کی صورت حال لوک سبھا میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں اپوزیشن نے اسی مسئلے پر بحث کی اجازت نہ ملنے پر شدید احتجاج کیا۔ یہاں "گووا اسمبلی حلقہ شیڈیولڈ ٹرائب نمائندگی کا دوبارہ تعین بل 2024" پیش ہونا تھا، لیکن شور شرابے کے باعث ایوان میں کوئی کاروائی ممکن نہ ہو سکی۔
پیٹھاسین افسر کرشنا پرساد تینیٹی نے اراکین سے بار بار اپیل کی کہ وہ اپنی نشستوں پر واپس آ کر کارروائی کو جاری رہنے دیں، مگر اپوزیشن اپنی مانگ پر اٹل رہی۔ آخرکار ہنگامہ کم نہ ہونے پر ایوان کی کارروائی کو جمعرات 11 بجے صبح تک ملتوی کر دیا گیا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ بدھ کے روز دونوں ایوانوں میں سوال و جواب کا وقت مکمل طور پر ضائع ہوگیا۔ ہنگامہ اس قدر شدید تھا کہ دن بھر کارروائی معمول پر نہ آ سکی اور ایوان متعدد بار ملتوی کرنا پڑا۔ پارلیمنٹ کے جاری مانسون اجلاس میں اب تک اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کئی مسائل پر ٹکراؤ دیکھنے کو ملا ہے، لیکن بہار کی ووٹر لسٹ کا معاملہ اب مرکزِ نگاہ بن چکا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اس جائزے کے ذریعے جان بوجھ کر اقلیتی ووٹروں کو ہدف بنایا جا رہا ہے، جبکہ حکومت نے ابھی تک اس پر کوئی واضح جواب نہیں دیا۔