UrduPoint:
2025-09-18@22:22:36 GMT

جرمنی کو ایک نئے کاروباری ماڈل کی ضرورت کیوں؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

جرمنی کو ایک نئے کاروباری ماڈل کی ضرورت کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 فروری 2025ء) جرمنی میں 23 فروری کو ہونے والے وفاقی انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملکی معیشت کو سنبھالنا ہو گا اور اسے معاشی ترقی کے لیے کوئی نئی حکمت عملی پیش کرنا ہو گی۔ جو قوم دنیا بھر میں اپنی مصنوعات کے معیار کی وجہ سے مشہور ہوئی، اس نے گزشتہ پانچ برسوں سے کوئی حقیقی معاشی ترقی نہیں دیکھی۔

جرمن معشیت پٹری سے کیسے اُتری؟

متعدد عوامل نے جرمنی کو صنعتی پاور ہاؤس سے نکال کر اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان عوامل میں بہت زیادہ بیوروکریسی، ہنر مند کارکنوں کی کمی، نئی ٹیکنالوجی کی جانب سست منتقلی اور سبکدوش ہونے والی مخلوط حکومت کی جانب سے واضح سمت کا فقدان بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

یوکرین میں روس کی جنگ کی وجہ سے چین سے بڑھتا ہوا مقابلہ اور توانائی کی بلند قیمتیں اضافی بوجھ ثابت ہوئی ہیں۔

پالیسیوں میں اصلاحات کی ضرورت

صنعتی پنکھے بنانے والی کمپنی 'ای بی ایم پاپسٹ‘ کے سی ای او کلاؤس گائسسڈوفر کہتے ہیں، ''ہمیں واقعی زیادہ سے زیادہ کمپنی اینڈ انٹرپرائز فرینڈلی سیاست کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمارے پاس جرمنی میں روشن ٹیلنٹ ہے۔ ہماری اچھی کمپنیاں ہیں لیکن اس وقت ہمارے پاس سیاسی سطح پر شعور نہیں ہے۔

‘‘

انتخابات کے قریب آتے ہی جرمن کمپنیوں کی طرف سے تنقید بھی زور پکڑتی جا رہی ہے۔ 'ای بی ایم پاپسٹ‘ 2.

5 بلین یورو کی سالانہ آمدنی اور تین براعظموں میں موجود ذیلی کمپنیوں کے ساتھ خود کو اس شعبے کی ایک سرکردہ فرم قرار دیتی ہے۔

کمپنیوں کا کن مسائل کا سامنا ہے؟

اس کمپنی نے گزشتہ سال اطلاع دی تھی کہ وہ ''خاص طور پر جرمنی میں مصائب کا شکار ہے‘‘ اور مقامی مارکیٹ میں اس کی آمدن 4.1 فیصد تک کم ہو گئی ہے۔

توانائی کے نئے حکومتی ضوابط کی وجہ سے اس کمپنی کی ہیٹنگ ٹیکنالوجی ڈویژن کی مصنوعات کی فروخت میں تقریباً 19 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اسی طرح ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ بھی اس کمپنی پر اضافی بوجھ ثابت ہوا۔

جرمنی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کمپنی نے اپنی سرمایہ کاری ایشیا اور امریکہ میں منتقل کرنے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ کورونا وبا سے پہلے ہی اس کمپنی نے بیرون ملک پیداوار بڑھا دی تھی۔

یہ کمپنی اپنی متعدد مصنوعات امریکہ برآمد کرتی ہے۔ اس کی بیرون ملک پیداوار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ کسی بھی نئے درآمدی ٹیکس کے خلاف بھی ڈھال فراہم کرے گی۔ عالمی تعلقات اور سیاست کے اثرات

چین اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے اضافی بوجھ ڈال دیا ہے اور مقامی مسائل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات نے بھی جرمن معیشت کو دھچکا پہنچایا ہے۔

یوکرین جنگ کی وجہ سے جرمنی کو روس کی طرف سے ملنے والی سستی گیس کی زیادہ تر سپلائی بند ہو چکی ہے۔

اسی طرح بجلی کی قیمتیں صنعت کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں جبکہ چین اور امریکہ کے مقابلے میں بجلی کی قمیتیں بھی یہاں ڈھائی گنا زیادہ ہو چکی ہیں۔

مہنگی بجلی کے نقصانات

جرمنی کی کمپنی 'میکانینڈوس فوگل زانگ گروپ‘ دھاتی مصنوعات تیار کرنے والی فرم ہے اور کارساز اداروں کے لیے بھی مختلف پارٹس تیار کرتی ہے۔

اس کمپنی کے مطابق امریکہ کے مقابلے میں وہ اپنے جرمن پلانٹس میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے فی کلو واٹ دو گنا زیادہ ادائیگی کرتی ہے۔

اس کمپنی کے سی ای او اُلرش فلاٹن کے مطابق وہ اس طرح ایک لاکھ یورو زیادہ ادا کر رہے ہیں، جو کہ ایک بہت بڑا مسابقتی نقصان ہے۔

چین کی طرف سے دھچکا

جرمن معیشت کو چین کی طرف سے بھی ایک دھچکا لگا ہے، جس نے سن 2010 کی دہائی میں جرمن ساختہ مشینری اور آٹوموبائل کے لیے ایک منافع بخش مارکیٹ کا کام کیا۔

اب چینی کمپنیوں نے حکومتی سبسڈی کے ساتھ وہی مصنوعات بنانا شروع کر رکھی ہیں، جنہیں کبھی وہ جرمنی سے خریدا کرتی تھیں اور اس سے بھی جرمن برآمدات کو نقصان پہنچا ہے۔

جرمن معیشت گزشتہ دو برسوں سے مسلسل سُکڑ رہی ہے۔ سن 2019 کے مقابلے میں سن 2024 کے دوران اس میں صرف 0.3 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جرمنی کے وفاقی شماریاتی دفتر کے مطابق اسی عرصے کے دوران امریکی معیشت میں 11.4 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ چین میں 25.8 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔

بہت سے کاروباری ایگزیکٹوز اور ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ جرمنی کی اگلی حکومت کو قرضوں کی آئینی حدود کو کم کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے تاکہ وہ بنیادی ڈھانچے اور تعلیم جیسے عوامی اخراجات میں اضافہ کر سکے۔

جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ کے صدر مارسیل فراٹسشر کہتے ہیں کہ اگر آئندہ حکومت بھی فوری تبدیلیاں لانے میں ناکام رہی تو اس کے شدید نقصانات ہوں گے، ''گزشتہ 75 برسوں کے دوران جرمنی کو بہت زیادہ اتفاق رائے، استحکام اور چیک اینڈ بیلنس والے نظام پر کھڑا کیا گیا ہے اور یہ تمام عناصر 'تیزی سے تبدیلی‘ کو بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔

‘‘

ان کا مزید کہنا ہے، ''یہ سمجھنے کے لیے کہ ہمیں معاشی تبدیلیوں پر بہت تیزی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، ذہنیت تبدیل کرنا ہو گی۔‘‘

ا ا/ا ب ا (اے پی)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی طرف سے کی وجہ سے جرمنی کو کی ضرورت کے لیے

پڑھیں:

کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(بزنس رپورٹر)پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان رہا اور کے ایس ای 100انڈیکس 700سے زایدپوائنٹس بڑھ گیا جس کی وجہ سے مارکیٹ 1لاکھ56ہزار کی نفسیاتی حد بحال ہو گئی اور انڈیکس 1لاکھ56ہزار100کی سطح پر بند ہوا جبکہ مارکیٹ کے سرمائے میں 106ارب روپے سیز اید کا اضافہ ریکارڈ کیاگیا اور 57.97فیصد حصص کی قیمتیں بڑھ گئیں۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں منگل کو کاروبار کا آغاز تیزی کیساتھ ہوا اور ٹریڈنگ کے دوران انڈیکس 1083پوائنٹس کے اضافے سے 156,467پوائنٹس کی بلند سطح پر ٹریڈ ہوا بعد ازاں مارکیٹ میں فروخت کے دباو سے انڈیکس میں کمی دیکھنے میں ا?ئی اور انڈیکس155,781پوائنٹس کی پست سطح پر بھی ٹریڈ ہوتا دیکھا گیا۔پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبارکے اختتام پر کے ایس ای 100انڈیکس میں 796پوائنٹس کااضافہ ہوا اور انڈیکس155,384پوائنٹس سے بڑھ کر 156,180پوائنٹس پر بند ہوا اسی طرح 247پوائنٹس کے اضافے سیکے ایس ای 30انڈیکس47ہزار714پوائنٹس اور کے ایس ای آل شیئرز انڈیکس 95ہزار133پوائنٹس سے بڑھ کر 95ہزار690پوائنٹس پر جا پہنچا۔مارکیٹ کے سرمائے میں 106ارب 51 کروڑ 6 لاکھ 3 ہزار 874روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد سرمائے کا مجموعی حجم 18383 ارب 20 کروڑ 86لاکھ91ہزار842روپے پر جا پہنچا۔منگل کو 43ارب روپے مالیت کے 1ارب 35کروڑ حصص کے سودے ہوئے جبکہ پیر کو 32ارب روپے مالیت کے 85کروڑ حصص کے سودے ہوئے تھے۔اسٹاک مارکیٹ میں گذشتہ روز مجموعی طور پر 483کمپنیوں میں شیئرزکا کاروبارہواجس میں سے 280کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں اضافہ ،178میں کمی اور25کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں استحکام رہا۔کاروبار کے لحاظ سیورلڈ کال ٹیلی کام ،بینک آف پنجاب،پاک انٹر نیشنل بلک ،فرسٹ کیپٹل سیکورٹیز اور میڈیاٹائمز لمیٹڈ سر فہرست رہے۔قیمتوں میں اتار چڑھاو کے اعتبارسے خیبر ٹوبیکو ملز لمیٹڈ کا بھاو 202.4روپے بڑھ کر 2224.59روپے پر جا پہنچا اسی طرح 65.91روپے کے اضافے سے سیمنس پاکستان انجینئرنگ لمیٹڈ کے حصص کی قیمت 1645.58 روپے پر جا پہنچی جبکہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کا بھاو 340روپے گھٹ کر 25000روپے ہوگیا اسی طرح 46.15روپے کی کمی سے ایس ایس آئل ملز لمیٹڈ کے حصص کی قیمت 550.90روپے پر آگئی۔

متعلقہ مضامین

  • خواتین کے پیٹ کے گرد چربی کیوں بڑھتی ہے؟
  • یہودی تنظیم کا جرمن چانسلر پر اسرائیل کی حمایت کے لیے زور
  • مستقبل کی بیماریوں کی پیشگی شناخت کے لیے نیا اے آئی ماڈل تیار
  • پنجاب میں طوطوں کی رجسٹریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
  • یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس
  • کاروباری ہفتے کے دوسرے دن بھی تیزی کا رجحان
  • اسحاق ڈار کو جرمن وزیرخارجہ کا فون، علاقائی و عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • لوگوں چیٹ جی پی ٹی پر کیاکیا سرچ کرتے ہیں؟ کمپنی نے تفصیلات جاری کر دیں
  • گوگل جیمنائی نے پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا