UrduPoint:
2025-07-25@13:06:29 GMT

ملاکنڈ کی یونیورسٹی میں استاد کی طرف سے ہراسانی کا واقعہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

ملاکنڈ کی یونیورسٹی میں استاد کی طرف سے ہراسانی کا واقعہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 فروری 2025ء) طالبہ کوہراساں کرنے کا یہ واقعہ پاکستانی صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ملاکنڈ کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق یونیوسٹی کی طالبہ نے کافی عرصے سے جاری ہراسانی کے معاملے کو ان خدشات کی وجہ سے اپنے خاندان سے پوشیدہ رکھا کہ کہیں ان کی تعلیم کا سلسلہ ہی نہ منقطع ہو جائے۔

متاثرہ طالبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مذکورہ پروفیسرکی شکایت یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے کی تھی لیکن اس پرکسی قسم کا ایکشن نہیں لیا گیا۔

اساتذہ کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کے واقعات

آن لائن ہراسانی، کسی کا گھناؤنا قدم کسی کے لیے وبال جان

مقامی پولیس نے متاثرہ لڑکی کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے تناظر میں مذکورہ پروفیسرکے خلاف چار مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

متاثرہ طالبہ کا مزید کہنا تھا، ''پروفیسر انہیں مسلسل ہراساں کرتے تھے، چند روز قبل وہ گھر میں داخل ہوئے اور زبردستی مجھے ساتھ لے جانے کی کوشیش کی۔ میرے شور مچانے پر گھر کے دیگر افراد جمع ہوئےاور مجھے پروفیسر سے بچایا۔‘‘

پولیس اسٹیشن میں درج ایف آئی آرمیں طالبہ نے موقف اختیار کیا، ''چند روزقبل ان کی منگنی طے ہوئی تھی جس کا مذکورہ پروفیسر کو رنج تھا اور وہ مسلسل میرا پیچھا کرتے رہے۔

‘‘

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر مذکورہ پروفیسر کی ایک ویڈیوبھی وائرل ہوئی جس میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یونیورسٹی سمیت صوبائی حکومت نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی ہےجو 15دن کے اندر اپنی رپورٹ تیار کرے گی۔ دریں اثنا یونیورسٹی نے مذکورہ پروفیسر کو معطل کر دیا ہے۔

ملاکنڈ یونیورسٹی کی طالبہ کو پروفیسرکی جانب سے ہراسانی کا معاملہ پختونخوا اسمبلی تک بھی پہنچ گیا ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان کا موقف

اس سلسلے میں جب ڈی ڈبلیو نے ملاکنڈ یونیورسٹی کے ترجمان معراج ناصری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا، '' یونیورسٹی کی ہراسمنٹ کمیٹی نےاس کیس کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی میں خاتون رکن بھی ہیں۔ کمیٹی نے پرسنل ہیئرنگ کی رپورٹ تیارکی ہے لیکن وہ اپنی انکوائری رپورٹ کوخفیہ رکھیں گے اوراس رپورٹ کوسینڈیکیٹ میں پیش کریں گے۔

‘‘ ان کا دعوٰی ہے کہ کمیٹی غیر جاندارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

ملاکنڈ یونیورسٹی انتظامیہ نےکچھ عرصہ قبل ایک طالب علم کو اس بنیاد پر رات کے وقت یونیورسٹی کے ہاسٹل سے نکال دیا تھا کہ اس کے پاس کمرے میں ہارمیونیم موجود تھا۔ رات کے اندھیرے اور پریشانی کے عالم میں نکلنے والا یہ طالب علم حادثے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔

گورنرخیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نےاس واقعے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس انتظامیہ اور یونیورسٹی حکام کوشفاف تحقیات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک استاد کی جانب سے اس طرح کے نازیبا حرکات سن کر انہیں انتہائی دکھ پہنچا ہے، اور یہ کہ ایسے شرمناک واقعات خواتین کوتعلیم اورسماجی سطح پرپیچھے دھکیلنے کےمترادف ہیں۔

یونیورسٹی کے طلبا کا موقف

ملاکنڈ یونیورسٹی میں رونما ہونے والے ہراسانی پر دیگرجامعات کے طلبا بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ایک طالب علم رہنما اسفندیار نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اورملوث افراد کو فوری سزا دی جائے۔ ملک بھر کے جامعات میں اینٹی ہراسمنٹ سیل کو مکمل خود مختار اور غیرجانبدار بنایا جائے۔

‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ سمسٹر سسٹم میں اساتذہ کی اتھارٹی ختم کی جائے۔

پختون روایات کی وجہ سے طالبات کے ساتھ ہونے والی ہراسانی کے واقعات اکثر دبا دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اساتذہ یونیورسٹی اوراداروں کو بدنامی سے بچانے کے لیے بھی مبینہ طور پر انکوائری دبا دیتے ہیں جبکہ والدین بھی بچیوں کی بدنامی کے ڈرسے ایسے معاملات کو سامنے لانے سے گریزکرتے ہیں۔

خیال رہے کہ خیبر پختونخوا کی متعدد جامعات میں طالبات کو ہراساں کرنے کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں، لیکن مؤثر انکوائری نہ ہونے کے سبب کسی استاد کوسزا نہ مل سکی۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ملاکنڈ یونیورسٹی مذکورہ پروفیسر یونیورسٹی کے کہنا تھا کے لیے

پڑھیں:

اساتذہ کا وقار

کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں  کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔

ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔

 80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

 1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔

تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • بہاولپور بورڈ؛ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی طالبہ کی میٹرک میں شاندار کامیابی
  • قرآن و سنت کی تعلیمات کے بغیر کسی اسلامی معاشرہ کی بقا اور اس کے قیام کا تصور ممکن نہیں، پیر مظہر
  • مدرسے کے استاد کے ہاتھوں طالبعلم کی ہلاکت درندگی کی انتہا ہے: چیف خطیب خیبر پختونخوا
  • کوئٹہ میں غیرت کے نام پر دوہرے قتل کا واقعہ
  • ’اپنے ہی گھر میں ہراسانی کا شکار ہوں، تنوشری دتہ کا دعویٰ
  • سوات مدرسے میں استاد کا بیہمانہ تشدد، طالبعلم جاں بحق، مدرسہ سِیل کر دیا گیا
  • کوئٹہ میں ایک اور واقعہ، غیرت کے نام پر لڑکی، لڑکا قتل 
  • اساتذہ کا وقار
  • سوات: مدرسے میں بچے کی ہلاکت، مزید طلبہ پر تشدد کا انکشاف، 9 افراد گرفتار
  • کراچی میں بے رحم ڈکیتوں نے اسکول طالبہ کے سامنے والد کو لوٹ لیا، ویڈیو وائرل