Nai Baat:
2025-04-25@11:13:46 GMT

پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے

جولائی کے پہلے ہفتے گلابی رنگ جو ہر سو پھیلا تھا یہ فصل گندم کی تھی۔ بلندی پر اگنے والی اس فصل کو مقامی زبان میں گیاوس اور انگریزی میں بک وہیٹ کہتے ہیں جس کی روٹی قدرے سیاہی مائل ہوتی ہے۔ کہیں راستے میں تھریشر بھی چل رہے تھے اور کہیں ابھی یہ فصل کچی تھی۔ تھنگل کے بعد کچھ زیادہ سفر نہیں تھا مگر سفر تھا بہت زیادہ۔ ایک بات طے تھی کہ ہم سکولے کے قریب تھے، یعنی تہذیب کے آخری کنارے پر تھے۔ معروف مصنف اے گوگنا نے لکھا تھا ’’سکولے نام ہے چھوٹے چھوٹے نخلستانوں کا جو صحرا سے حاصل کیے گئے ہیں، وہاں یہ آخری گاؤں ہے اور آپ ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ دنیا کے آخری سرے پر پہنچ گئے ہیں‘‘۔ شام کے سرمئی سائے پھیل رہے تھے جب ہم سکولے میں داخل ہوئے۔ آخری چڑھائی کے بعد بائیں جانب آبادی کا آغاز ہوا تو آخری گاؤں کی پہلی صورت نظر آئی۔ یاک کے دودھ سے بنی مورت نظر آئی، برالدو کنارے اگی ہوئی فطرت ہمارے سامنے تھی۔ سنو لیک میں پڑھا تھا ’’ہماری ریاست نگر سے دس روز کی برف ہی برف مسافت پر ایک گاؤں ہے، جس کے باسی اتنے بھولے ہیں اور امن والے ہیں کہ اپنا شہد، پنیر، مارخور کی کھالیں، مکھن اور جو کے توڑے جنگ کیے بغیر ہم نگر والوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘‘۔ پڑھی ہوئی بات درست نکلی، بس یہی بات تھی جسے جیسے پڑھا تھا وہ ویسے ہی درست نکلی، ورنہ جو کچھ پڑھا گیا، وہ کبھی درست ثابت نہ ہوا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے راشد نے سکولے کے آخری سرے پر لگے بورڈ بھی پڑھ لیے اور ہم جیپ سے اترنے لگے۔ سکولے میں جتنے بھی لوگ تھے، بچے تھے، جوان تھے، وہ سبھی جیپ کو یوں دیکھتے تھے جیسے انسانوں کو دیکھے ہوئے مدت گزر گئی ہو۔ جیسے وہ لوگ آدم زاد کو دیکھے بغیر کئی موسم گزار چکے ہوں۔ سکولے گاؤں میں نو تعمیر شدہ گیسٹ ہاؤس کے سامنے ہمیں بٹھایا گیا۔ وہیں پر غلام رسول بروکو سے ملاقات ہوئی۔ غلام رسول ادب کا طالب علم تھا اور سکولے میں ایک لائبریری بنانا چاہتا تھا۔ سکردو سے شگر، داسو اور اب سکولے کا پُر پیچ سفر، مگر یہاں پر تھکن دم توڑ گئی تھی۔ جس طرح ہمارا استقبال کیا گیا، اس انداز نے تھکن اتار دی تھی۔ سال ہا سال سے کی گئی کوہ نوردی سکولے میں ہونے والے استقبال سے مات کھا گئی تھی۔ ہمیں ہر ہل سٹیشن سے با وقار انداز میں رخصت تو کیا جاتا تھا مگر ایسا استقبال کہیں نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کا سفر ہم آسانی سے کر چکے تھے تو پھر برالدو کے اس پار ’’تستے اور‘‘ کورفے کے گاؤں کو دیکھے بغیر کیسے جا سکتے تھے۔ کورفے کا گاؤں ایک امریکی کوہ پیما کے عطیہ سے بنائے گئے سکول کی وجہ سے مشہور تھا۔ 1993 میں کے ٹو مہم سے ناکام ہونے والے مسٹر گرگ مورٹنسن گرتا ہوا برالدو کے بائیں کنارے پہنچ گیا، جہاں پر بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ کاغذ، قلم نہیں تھا اور وہ لکڑی کے ذرا موٹے تنکوں سے زمین پر لکھتے تھے۔ کورفے کے لوگوں نے اس نیم جان کوہ پیما کی زندگی بچانے میں مدد دی تھی۔ اس لیے وہاں سکول بنا کر ان کے احسان برابر کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں کہا گیا کہ یہ سکول امریکیوں سے چندہ لے کر بنوائے گئے اور مورٹنسن نے فنڈز اپنی ذات پر بھی خرچ کیے مگر یہ سب باتیں منفی ہیں۔ سکولے سطح سمندر سے 3052 میٹر بلندی پر ہے اور یہاں پر فروٹ کے درخت موجود نہیں، صرف بید اور سفیدہ آسمانوں کو چھوتا ہے۔ یک فصلی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت کے علاوہ زیادہ تر سیاحوں کی باربرداری پر ہے اور یہ کام بھی صرف گرمیوں کے سیزن میں ہی ملتا ہے۔ سکولے میں ایک مڈل سکول موجود ہے جہاں اب میٹرک تک کی کلاسیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس وقت 292 کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جہاں تھونگل، سرنگو، سینو ، تستے اور سکولے کے گاؤں کے طلبا اور طالبات آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آخری گاؤں میں یہ شام بہت سارے وسوسے اور وہم لیے ہوئے تھی مگر پھر بھی یہ ایک خوبصورت شام تھی۔ پھر یہیں شب بسری کا منصوبہ بن گیا۔ حسن کا نو تعمیر ہوٹل، جس میں ابھی بیڈز اور چارپائیاں نہ تھیں بلکہ فرش پر بستر سجا دیئے گئے تھے۔ گاؤں کے جو لوگ ہمارے اردگرد جمع ہوئے تھے، وہ ایک ایک کر کے چلتے بنے۔ غلام رسول بروکو موجود رہا۔ اس گاؤں میں بھی تعلیم یافتہ لوگوں کی موجودگی ایک حیرت کا دریا تھا جو میدانی علاقوں کی جہالت کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ حسن نے کھانے کا انتظام ایسے ہی کیا جیسے ذیشان نے ترشنگ میں کیا تھا، وہی ترشنگ جہاں مانگا پربت ہمارے سامنے تھا اور سکولے میں کے ٹو کی بلند چوٹی سامنے نہ تھی بلکہ اوجھل تھی۔ سکولے میں رات کا پہلا حصہ گپ شپ اور گفتگو میں گزر گیا۔ بہت سے میزبان ہمارے اطراف میں کھڑے مہمان نوازی نبھاتے رہے، میں کچھ دوستوں کے ساتھ سکولے چوک تک چلا آیا۔ برالڈو کا پانی اپنی روانی میں بہتا جاتا تھا اور فلک پر جو ستارے تھے وہ ہمارے قریب آ چکے تھے۔ آخری گاؤں میں شائد یہ آخری رات تھی اور یہاں بھی محبت کے غبارے میں بھری قربت کی ہوا نیند سے بہت دور لے گئی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: ا خری گاو ں گاو ں میں تھا اور

پڑھیں:

ارتھ ڈے اور پاکستان

دنیا بھر میں کرہ ارض کا عالمی دن منایا گیا، اس دن کو ’’ انٹرنیشنل مدر ارتھ ڈے‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی یومِ ارض منانے کا بنیادی مقصد زمین کو درپیش ماحولیاتی چیلنجز کی جانب توجہ دلانا اور لوگوں میں قدرتی وسائل کے تحفظ کا شعور اجاگرکرنا ہے۔

 دنیا کو موسمیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آلودگی، جنگلات کی کٹائی، پانی کی قلت اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جو نہ صرف انسانی زندگی بلکہ جنگلی حیات اور پورے ماحولیاتی نظام کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

دنیا میں صنعتی ترقی اور قدرتی وسائل کے استعمال میں بے احتیاطی نے موجودہ دور میں زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے۔ چاہے وہ جانور ہوں یا پودے۔ 33فیصد سے زائد زمین پہلے ہی انحطاط کا شکار ہوچکی ہے اور اگر یہ انحطاط 2050 تک اسی رفتار سے جاری رہا تو 90 فیصد زمین اپنی فطری طاقت اور زرخیزی کھو دے گی۔ زمین کی فطری طاقت اور زرخیزی تباہ ہونے کی صورت میں فصلوں کی پیداوار میں 50فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔

 زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی، اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ 50برسوں میں دنیا بھر میں مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

مزید برآں، معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔ درختوں اور جنگلات کی صورتِ حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

اسی تناظر میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کا شمار موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ممالک میں ہوتا ہے۔ ہم نے تباہ کن سیلابوں، شدید گرمی کی لہروں اور طویل خشک سالی کا سامنا کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت فعال طور پر ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جو تمام شعبوں میں موسمیاتی عمل کو مربوط کرتی ہیں، ریچارج پاکستان جیسے پروگرام ماحولیاتی نظام کو بحال کر رہے ہیں۔

 درحقیقت پاکستان کو نہ صرف واٹر سیکیورٹی کے خطرات لاحق ہیں بلکہ زراعت، توانائی اور معمولات زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں گلیشیئرز جیسے اہم قدرتی ذخائر کا تحفظ ضروری ہے۔ پاکستان، جو قدرتی حسن، بلند پہاڑوں اور متنوع ماحولیاتی نظام کا حامل ملک ہے، شدید ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ آلودگی میں گھرے ہوئے شہر، تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز اور پانی کی قلت جیسے مسائل ایک تلخ حقیقت بن چکے ہیں۔

گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں صرف ایک فیصد کا حصے دار ہونے کے باوجود بھی پاکستان، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق ماحولیاتی بحران کا شکار ہونے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں یہ ماحولیاتی بحران ایک دن میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ دہائیوں سے جاری تیز شہری ترقی، جنگلات کی کٹائی، اور صنعتی آلودگی نے فضائی اور آبی معیار کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی نے ان مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے، جس کے باعث شدید موسمی تغیرات جیسے سیلاب، طویل خشک سالی اور شدید گرمی کی لہریں عام ہو چکی ہیں، لیکن ان مشکلات کے باوجود، پاکستان خاموش تماشائی نہیں ہے۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور پاک فوج ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور پائیدار مستقبل یقینی بنایا جا سکے۔

دریائے سندھ کے ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے Living Indus Initiative منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جو اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ فلیگ شپ پراجیکٹس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ پلاسٹک کی آلودگی کم کرنے کے لیے حکومت نے پلاسٹک کے استعمال پر بتدریج پابندی اور صنعتی فضلے کے سخت قواعد و ضوابط متعارف کرائے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں گرین اسپیس کو بڑھانے کے لیے اربن فاریسٹری (Urban Forestry) کے منصوبے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ لاہور میں میاوا کی فارسٹ (Miyawaki Forest) کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے کئی چھوٹے جنگلات لگائے گئے ہیں، جو کم جگہ میں زیادہ درخت اگانے کا ایک موثرطریقہ ہے۔

ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ زمین کو مستقل طور پر کچرے اور آلودگی سے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور کچرے کے بڑھتے مسائل کے پیش نظر، دنیا بھر میں زیرو ویسٹ مینجمنٹ کا تصور فروغ پا رہا ہے، جس کا مقصد کچرے کی پیداوار کو کم کرنا، قدرتی وسائل کے تحفظ اور ماحول کو صاف رکھنے میں مدد دینا ہے۔ بے تحاشا کچرا، خاص طور پر پلاسٹک، زمین، پانی، اور ہوا کو آلودہ کرتا ہے، جس سے انسانی صحت اور جنگلی حیات متاثر ہوتی ہے۔ Land Fills  اور کچرے کو جلانے سے خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں جو گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔

کئی ممالک کچرے سے توانائی اور کھاد بنا رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں، خاص طور پر کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں، یہ مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ زیرو ویسٹ حکمتِ عملی کے ذریعے ہم کم اشیا خرید کر، ری سائیکلنگ اور دوبارہ استعمال کو فروغ دے کر کچرے کی مقدار کم کر سکتے ہیں، جیسے پلاسٹک کی جگہ اسٹیل اور مٹی کے برتنوں کا استعمال کرنا اور فاضل صنعتی مواد کو دوبارہ قابل استعمال بنانا۔ اسی سلسلے میں حکومت نے پلاسٹک بیگز پر پابندی بھی لگائی ہے۔ تاہم، ان کوششوں کی کامیابی عوامی تعاون پر منحصر ہے۔

نصاب میں ماحولیاتی تعلیم شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے، اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنانے، ری سائیکلنگ، فضلہ مینجمنٹ اور پائیدار وسائل کے استعمال کے بارے میں آگاہی سمیت قابل تجدید توانائی کے استعمال اور ماحول موافق تعمیرات کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات ملکی سطح پر ماحول دوست رویوں کے فروغ دینے اور پائیدار ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔زمین ہماری آیندہ نسلوں کی امانت ہے اور اگر ہم نے آج اس کی حفاظت کے لیے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقت میں ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رجب بٹ پاکستان واپسی کےلیے کس بات کے منتظر ہیں؟
  • پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں کون کونسے سربراہانِ مملکت شرکت کریں گے؟
  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو کیا ہوگا؟
  • ’حملہ آوروں کا زمین کے آخری کنارے تک پیچھا کریں گے،‘ مودی
  • پوپ فرانسس کی آخری رسومات ہفتے کے روز ادا کی جائیں گی
  • آئی ایم ایف نے پاکستان کی شرح نمو پیشگوئی 3 فیصد سے کم کر کے 2.6 فیصد کر دی
  • ارتھ ڈے اور پاکستان
  • پی ایس ایل 10 میں کونسی ٹیم کس پوزیشن پر ہے؟