پاکستان کا آخری گاؤں ، سکولے
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
جولائی کے پہلے ہفتے گلابی رنگ جو ہر سو پھیلا تھا یہ فصل گندم کی تھی۔ بلندی پر اگنے والی اس فصل کو مقامی زبان میں گیاوس اور انگریزی میں بک وہیٹ کہتے ہیں جس کی روٹی قدرے سیاہی مائل ہوتی ہے۔ کہیں راستے میں تھریشر بھی چل رہے تھے اور کہیں ابھی یہ فصل کچی تھی۔ تھنگل کے بعد کچھ زیادہ سفر نہیں تھا مگر سفر تھا بہت زیادہ۔ ایک بات طے تھی کہ ہم سکولے کے قریب تھے، یعنی تہذیب کے آخری کنارے پر تھے۔ معروف مصنف اے گوگنا نے لکھا تھا ’’سکولے نام ہے چھوٹے چھوٹے نخلستانوں کا جو صحرا سے حاصل کیے گئے ہیں، وہاں یہ آخری گاؤں ہے اور آپ ایمانداری سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ دنیا کے آخری سرے پر پہنچ گئے ہیں‘‘۔ شام کے سرمئی سائے پھیل رہے تھے جب ہم سکولے میں داخل ہوئے۔ آخری چڑھائی کے بعد بائیں جانب آبادی کا آغاز ہوا تو آخری گاؤں کی پہلی صورت نظر آئی۔ یاک کے دودھ سے بنی مورت نظر آئی، برالدو کنارے اگی ہوئی فطرت ہمارے سامنے تھی۔ سنو لیک میں پڑھا تھا ’’ہماری ریاست نگر سے دس روز کی برف ہی برف مسافت پر ایک گاؤں ہے، جس کے باسی اتنے بھولے ہیں اور امن والے ہیں کہ اپنا شہد، پنیر، مارخور کی کھالیں، مکھن اور جو کے توڑے جنگ کیے بغیر ہم نگر والوں کے حوالے کر دیتے ہیں‘‘۔ پڑھی ہوئی بات درست نکلی، بس یہی بات تھی جسے جیسے پڑھا تھا وہ ویسے ہی درست نکلی، ورنہ جو کچھ پڑھا گیا، وہ کبھی درست ثابت نہ ہوا تھا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے راشد نے سکولے کے آخری سرے پر لگے بورڈ بھی پڑھ لیے اور ہم جیپ سے اترنے لگے۔ سکولے میں جتنے بھی لوگ تھے، بچے تھے، جوان تھے، وہ سبھی جیپ کو یوں دیکھتے تھے جیسے انسانوں کو دیکھے ہوئے مدت گزر گئی ہو۔ جیسے وہ لوگ آدم زاد کو دیکھے بغیر کئی موسم گزار چکے ہوں۔ سکولے گاؤں میں نو تعمیر شدہ گیسٹ ہاؤس کے سامنے ہمیں بٹھایا گیا۔ وہیں پر غلام رسول بروکو سے ملاقات ہوئی۔ غلام رسول ادب کا طالب علم تھا اور سکولے میں ایک لائبریری بنانا چاہتا تھا۔ سکردو سے شگر، داسو اور اب سکولے کا پُر پیچ سفر، مگر یہاں پر تھکن دم توڑ گئی تھی۔ جس طرح ہمارا استقبال کیا گیا، اس انداز نے تھکن اتار دی تھی۔ سال ہا سال سے کی گئی کوہ نوردی سکولے میں ہونے والے استقبال سے مات کھا گئی تھی۔ ہمیں ہر ہل سٹیشن سے با وقار انداز میں رخصت تو کیا جاتا تھا مگر ایسا استقبال کہیں نہیں ہوا تھا۔ یہاں تک کا سفر ہم آسانی سے کر چکے تھے تو پھر برالدو کے اس پار ’’تستے اور‘‘ کورفے کے گاؤں کو دیکھے بغیر کیسے جا سکتے تھے۔ کورفے کا گاؤں ایک امریکی کوہ پیما کے عطیہ سے بنائے گئے سکول کی وجہ سے مشہور تھا۔ 1993 میں کے ٹو مہم سے ناکام ہونے والے مسٹر گرگ مورٹنسن گرتا ہوا برالدو کے بائیں کنارے پہنچ گیا، جہاں پر بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ کاغذ، قلم نہیں تھا اور وہ لکڑی کے ذرا موٹے تنکوں سے زمین پر لکھتے تھے۔ کورفے کے لوگوں نے اس نیم جان کوہ پیما کی زندگی بچانے میں مدد دی تھی۔ اس لیے وہاں سکول بنا کر ان کے احسان برابر کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں کہا گیا کہ یہ سکول امریکیوں سے چندہ لے کر بنوائے گئے اور مورٹنسن نے فنڈز اپنی ذات پر بھی خرچ کیے مگر یہ سب باتیں منفی ہیں۔ سکولے سطح سمندر سے 3052 میٹر بلندی پر ہے اور یہاں پر فروٹ کے درخت موجود نہیں، صرف بید اور سفیدہ آسمانوں کو چھوتا ہے۔ یک فصلی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت کے علاوہ زیادہ تر سیاحوں کی باربرداری پر ہے اور یہ کام بھی صرف گرمیوں کے سیزن میں ہی ملتا ہے۔ سکولے میں ایک مڈل سکول موجود ہے جہاں اب میٹرک تک کی کلاسیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ اس وقت 292 کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جہاں تھونگل، سرنگو، سینو ، تستے اور سکولے کے گاؤں کے طلبا اور طالبات آ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ آخری گاؤں میں یہ شام بہت سارے وسوسے اور وہم لیے ہوئے تھی مگر پھر بھی یہ ایک خوبصورت شام تھی۔ پھر یہیں شب بسری کا منصوبہ بن گیا۔ حسن کا نو تعمیر ہوٹل، جس میں ابھی بیڈز اور چارپائیاں نہ تھیں بلکہ فرش پر بستر سجا دیئے گئے تھے۔ گاؤں کے جو لوگ ہمارے اردگرد جمع ہوئے تھے، وہ ایک ایک کر کے چلتے بنے۔ غلام رسول بروکو موجود رہا۔ اس گاؤں میں بھی تعلیم یافتہ لوگوں کی موجودگی ایک حیرت کا دریا تھا جو میدانی علاقوں کی جہالت کے سامنے ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ حسن نے کھانے کا انتظام ایسے ہی کیا جیسے ذیشان نے ترشنگ میں کیا تھا، وہی ترشنگ جہاں مانگا پربت ہمارے سامنے تھا اور سکولے میں کے ٹو کی بلند چوٹی سامنے نہ تھی بلکہ اوجھل تھی۔ سکولے میں رات کا پہلا حصہ گپ شپ اور گفتگو میں گزر گیا۔ بہت سے میزبان ہمارے اطراف میں کھڑے مہمان نوازی نبھاتے رہے، میں کچھ دوستوں کے ساتھ سکولے چوک تک چلا آیا۔ برالڈو کا پانی اپنی روانی میں بہتا جاتا تھا اور فلک پر جو ستارے تھے وہ ہمارے قریب آ چکے تھے۔ آخری گاؤں میں شائد یہ آخری رات تھی اور یہاں بھی محبت کے غبارے میں بھری قربت کی ہوا نیند سے بہت دور لے گئی۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ا خری گاو ں گاو ں میں تھا اور
پڑھیں:
سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں (1)
سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ بلتستان میں بین المذاہب بھائی چارہ پورے پاکستان کے لیے مشعل راہ ہے۔ منہاج القرآن بلوچستان کے رہنما صاحبزادہ احمد حسن فاروقی اور ضیاء اللہ شاہ بخاری (سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل) نے کہا کہ بین المذاہب مکالمہ، برداشت اور مشترکہ قومی شناخت ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد ہیں۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
کانفرنس میں سکھ پروفیسر نے بھی خصوصی شرکت کی
سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی انتھونی نوید
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علماء شریک ہوئے
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
سکردو میں سالانہ "حسین سب کا" کانفرنس کی جھلکیاں
اسلام ٹائمز۔ 32 ویں بین المذاہب و اتحاد بین المسلمین کانفرنس "حسین سب کا" سکردو میں منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے نمائندہ علما، اسکالرز، سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ 32 واں بین المذاہب وارحاد بین المسلمین کانفرنس میں شیعہ، سنی، نور بخشی، اسماعیلی، ہندو، سکھ، براہمن اور مسیحی رہنماؤں کی بھرپور شرکت نے سکردو کو بین المذاہب رواداری اور قومی ہم آہنگی کی علامت بنا دیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلک نوربخشیہ کے عالم دین مولانا عارف حسین، سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن، اسماعیلی کمیونٹی کے کریم خان اور مولانا حسین طارق نے کہا کہ اتحاد امت وقت کی اہم ضرورت ہے، نفرت اور تفرقہ بازی کے خلاف علماء کو صف اول میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ پروفیسر کلیان سنگھ سکھ رہنما و سیکرٹری جنرل کرتارپور مشن، کرنل شہباز (براہمن رہنما)، انتھونی نوید (مسیحی رہنما و ڈپٹی اسپیکر سندھ) نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ آئینی و انسانی فریضہ ہے، اور سکردو کی فضا بین المذاہب ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔ سینئر صحافی سہیل وڑائچ نے کہا کہ بلتستان میں بین المذاہب بھائی چارہ پورے پاکستان کے لیے مشعل راہ ہے۔ منہاج القرآن بلوچستان کے رہنما صاحبزادہ احمد حسن فاروقی اور ضیاء اللہ شاہ بخاری (سربراہ اسلامی نظریاتی کونسل) نے کہا کہ بین المذاہب مکالمہ، برداشت اور مشترکہ قومی شناخت ہی پاکستان کے روشن مستقبل کی بنیاد ہیں۔