سندھ کی صنعتی پیداوار میں کمی کو روکنے کے لیے حکومت کی مستقل حمایت اہم ہے.ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 فروری ۔2025 )رواں مالی سال کے دوران سندھ میں صنعتی پیداوار میں نمایاں کمی ہوئی ہے جس سے صوبے کی اقتصادی ترقی کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے ہیں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 25 کے پہلے پانچ مہینوں میں سندھ کی صنعتی پیداوار میں 3 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی حکام اور صنعت کاروں نے کئی عوامل کی نشاندہی کی ہے جو صنعتی پیداوار میں کمی کا باعث بنے ہیں سب سے نمایاں وجوہات میں سے ایک توانائی کا جاری بحران ہے جس میں بجلی کی مسلسل بندش اور قدرتی گیس کی محدود فراہمی ہے جو ان صنعتوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں جو توانائی کے مستقل وسائل پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں.
(جاری ہے)
انہوں نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر، خاص طور پر ٹیکسٹائل، کیمیکلز اور سیمنٹ جو سندھ کی صنعتی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، توانائی کی قلت کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کر رہے ہیں انڈسٹریز سندھ کے ڈائریکٹر مجتبی سید نے نشاندہی کی کہ توانائی کے چیلنجز کے علاوہ مہنگائی کے دبا ونے آپریشنل لاگت اور صارفین کی طلب دونوں کو بھی متاثر کیا ہے خام مال کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ کرنسی کی قدر میں کمی نے پیداواری لاگت میں اضافہ کر دیا ہے جس سے صنعتوں کے لیے منافع کو برقرار رکھنا یا یہاں تک کہ فعال رہنا مشکل ہو گیا ہے ان عوامل نے بہت سے کاروباروں کو یا تو پیداوار کو کم کرنے یا عارضی طور پر بند کرنے پر اکسایا ہے جس سے صنعتی پیداوار میں مجموعی طور پر کمی مزید بڑھ گئی ہے. انہوں نے کہا کہ سندھ کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو اس کی صنعتی پیداوار کا سنگ بنیاد ہے سخت متاثر ہوئی ہے صنعت جس میں لاکھوں افراد کو روزگار ملتا ہے نے درآمدی خام مال جیسے کپاس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور توانائی کی کمی کی وجہ سے پیداواری حجم میں کمی دیکھی ہے اس کی وجہ سے برآمدات میں کمی آئی ہے اور ٹیکسٹائل مینوفیکچررز کے لیے کیش فلو میں کمی آئی ہے اس کے علاوہ سیمنٹ کی صنعت جو سندھ کے لیے ایک اور اہم شعبہ ہے نے پیداوار میں کمی کا تجربہ کیا ہے. انہوں نے کہا کہ تعمیراتی سرگرمیوں میں سست روی، مقامی طور پر اور اہم برآمدی منڈیوں میں، ایندھن اور توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت کے ساتھ اس شعبے میں پیداوار میں کمی کا باعث بنی ہے اس کے علاوہ سندھ میں کیمیکل انڈسٹری کو زیادہ لاگت اور لاجسٹک چیلنجز کا سامنا ہے سیاسی عدم استحکام اور تجارتی عدم توازن کی وجہ سے خام مال کی سپلائی چین میں رکاوٹ نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے. انہوں نے کہا کہ صنعتی پیداوار میں کمی نہ صرف کاروباری مالکان کو متاثر کر رہی ہے بلکہ روزگار کے حوالے سے بڑھتے ہوئے خدشات کا باعث بھی ہے سندھ کا صنعتی شعبہ لاکھوں لوگوں کو روزگار دیتا ہے اور پیداوار میں سست روی اکثر ملازمین کی چھانٹی کام کے اوقات میں کمی اور بہت سے کارکنوں کی آمدنی میں کمی کا باعث بنتی ہے یہ خطے کی بے روزگاری کی شرح کو مزید بڑھاتا ہے اور مجموعی اقتصادی ترقی کو روکتا ہے کورنگی صنعتی علاقے کے ایک کاروباری نصرت حسین نے کہا کہ صنعتی سست روی کا اثر ٹرانسپورٹیشن، لاجسٹکس اور ریٹیل سمیت دیگر متعلقہ شعبوں تک پھیل گیا ان سب نے صنعتی سرگرمیوں میں کمی کا احساس کیا ہے فیکٹری کے کاموں میں کمی کے ساتھ نقل و حمل کی خدمات کی مانگ میں کمی آئی ہے جبکہ خوردہ فروش صنعتی سامان کی مانگ میں کمی دیکھ رہے ہیں. انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے مالیات تک آسان رسائی فراہم کرنے اور صنعتی ترقی کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کرنے کے مطالبات کیے گئے ہیں حسین نے کہا کہ توانائی کی قلت، مہنگائی اور مارکیٹ کی طلب جیسے اہم چیلنجوں کا حل اس بات کا تعین کرنے میں اہم ہو گا کہ آیا صوبے کی صنعتی پیداوار بحال ہو سکتی ہے. انہوں نے کہا کہ کئی صنعتوں کو پہلے ہی معاشی دبا وکا سامنا ہے حکومت کی مستقل مداخلت اور طویل مدتی اصلاحات ترقی کو تیز کرنے اور سندھ کے صنعتی شعبے کی لچک کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوں گی انہوںنے کہاکہ جب تک ان چیلنجوں سے نمٹا نہیں جاتا، سندھ میں صنعتی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہو سکتی ہے جس سے خطے کی مجموعی اقتصادی کارکردگی پر اضافی دبا وپڑے گا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صنعتی پیداوار میں کی صنعتی پیداوار پیداوار میں کمی انہوں نے کہا کہ توانائی کی میں کمی کا کی وجہ سے ہے جس سے سندھ کی کے ساتھ کا باعث کے لیے
پڑھیں:
اسپین میں یوکرین کی حمایت جائز فلسطین کی ممنوع قرار،اسکولوں سے پرچم ہٹانے کا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسپین: میڈرڈ کی قدامت پسند حکومت نے سرکاری فنڈنگ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں فلسطین کی حمایت پر خاموشی سے پابندی عائد کردی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپین کے دارالحکومت نے مختلف اسکولوں کو فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے تمام نشانات، جن میں فلسطینی پرچم بھی شامل ہیں، ہٹانے کی ہدایات دی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی موقف یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کو غیر سیاسی ہونا چاہیے اور فلسطین کی حمایت ایک سیاسی معاملہ ہے، یہ ہدایات حال ہی میں جاری کی گئی ہیں کیونکہ اس سے قبل میڈرڈ ریجن کے کئی اسکول مہینوں تک فلسطین کے حق میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
خیال رہےکہ اسی حکومت نے 2022 میں یوکرین جنگ کے بعد تعلیمی اداروں میں یوکرین کی حمایت کی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی تھی، جس سے اس فیصلے پر دوہرا معیار اختیار کرنے کا الزام لگ رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اسپین کی قومی سیاست میں بھی شدت اختیار کر رہا ہے، گزشتہ دنوں میڈرڈ ریجن کی پاپولر پارٹی کی سربراہ ایزابیل دیاس اییوسو نے وزیراعظم پیڈرو سانچیز کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے حق میں مظاہرے ملکی آزادی اور کھیلوں کے تقدس پر حملہ ہیں۔
اسی دوران پاپولر پارٹی کے قومی سربراہ البیرتو نونیز فیخوو نے بھی حکومت کی فلسطین نواز پالیسی پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ سانچیز اپنی ناکامیوں اور کرپشن اسکینڈلز سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں،میں آپ کو اجازت نہیں دوں گا کہ غزہ میں ہونے والی اموات کو ہسپانوی عوام کے خلاف استعمال کریں۔”
جواب میں وزیراعظم پیڈرو سانچیز نے فیخوو کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حالیہ سروے کے مطابق 82 فیصد اسپین کے عوام غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں ۔
یاد رہے کہ اسپین کی بائیں بازو کی مخلوط حکومت یورپی یونین میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے مؤثر آواز رہی ہے۔ 2024 میں اسپین نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر مستقل اسلحہ پابندی اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے درآمدات پر بھی پابندی عائد کی۔
میڈرڈ ریجن کی حکومت کی اس پالیسی نے نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ عوامی سطح پر بھی شدید بحث کو جنم دیا ہے اور یہ واضح تضاد اجاگر کیا ہے کہ ایک طرف یوکرین کی حمایت کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ فلسطین کی حمایت کو دبایا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمران بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔